کیسی ہو گی خودکار گاڑیوں والی دنیا؟
شیئر کریں
دنیا بھر میں ایسے پروجیکٹس پر کام جاری ہے جن کے تحت انسانی ڈرائیوروں کی چھٹی ہو جائے گی۔اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ راہگیروں، سائیکل سواروں کو دوسرے انسانوں کا تحفظ کیسے ممکن بنایا جائے گا؟اس وقت چند ہزار خودکار گاڑیاں بک رہی ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق 2030 تک ایسی گاڑیوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔بغیر ڈرائیور گاڑیاں فی الحال تو عجیب معلوم ہوتی ہیں لیکن ماہرین کے مطابق آئندہ چند برسوں کے اندر اندر آپ انھیں روزانہ استعمال کرنے لگیں گے۔ اس پیش رفت سے کیسی دنیا وجود میں آئے گی؟پیرس اور ہیلسنکی کی سڑکوں پر اب بھی مکمل طور پر خودکار بسیں چل رہی ہیں جنھیں کمپیوٹر چلا رہا ہے، جب کہ امریکی ریاست کولاراڈو میں 18 ٹائروں والا ٹرک ہائی وے پر ڈیڑھ سو کلومیٹر تک بغیر ڈرائیور کے چلا گیا۔لیکن دنیا میں اس وقت گاڑیوں کی کل تعداد ایک ارب کے لگ بھگ ہے۔ اس لیے اصل چیلنج یہ ہو گا کہ ڈرائیور والی اور بغیر ڈرائیور والی گاڑیاں کیسے ایک ساتھ سڑکوں پر چلیں گی۔مثال کے طور پر ایک چوک کا تصور کیجیے جہاں گاڑیاں، راہگیر اور سائیکل سوار ایک دوسرے کے چہرے کے تاثرات، اشاروں یا پھر اندازے کی بنا پر سڑک پار کر لیتے ہیں۔
بغیر ڈرائیور والی نسان لیف گاڑی لندن میں تجربات سے گزر رہی ہے۔کیا یہ کام مشینیں بھی کر پائیں گی؟اس کے علاوہ خراب موسم کا مسئلہ الگ ہے جس کی وجہ سے گاڑی کی سینسر غلط معلومات دے سکتے ہیں۔مزید یہ کہ خودکار گاڑیوں کو یہ بھی سیکھنا ہو گا کہ کب ٹریفک اصول توڑنا ہیں۔ مثال کے طور پر ہنگامی صورتِ حال میں، یا پھر جب کسی سائرن بجاتی ایمبولینس یا پولیس کار کو راستہ دینا ہو۔فی الحال کمپیوٹر کی مدد سے چلنے والی گاڑیوں تربیت کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ انھیں سیکھنا ہو گا کہ غیر متوقع صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے جو ڈرائیونگ کے دوران اکثر پیش آتی رہتی ہے۔ماہرین کے مطابق اکثر حادثات انسانی غلطی سے پیش آتے ہیں، جن میں اناڑی پن، غفلت، نیند یا پھر شراپ پی کر مدہوشی شامل ہیں۔ یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ خودکار گاڑیاں ایسی تمام غلطیوں سے مبرا ہوں گی اس لیے حادثات کم ہو جائیں گے۔تاہم بغیر ڈرائیور گاڑیوں حادثات میں ملوث رہی ہیں۔ ٹیسلا کمپنی کی ایک گاڑی کے حادثے میں تو ایک شخص ہلاک بھی ہوا ہے۔ جب کہ یہ گاڑیوں اشارے توڑتے ہوئے بھی پائی گئی ہیں۔حکام اس سلسلے میں قوانین وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے مطابق فی الحال سینکڑوں برس اور کھربوں میل پر مشتمل آزمائشوں کے بعد ہی یقین سے کہا جا سکے گا کہ بغیر ڈرائیور گاڑیاں انسانوں سے کم حادثات کا موجب ہوں گی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض حالات میں انسان گاڑیاں چلائیں اور دوسرے حالات میں کمپیوٹر۔اب تک بین الاقوامی سطح پر بغیر ڈرائیور گاڑیوں کے بین الاقوامی حفاظتی اصول وضع نہیں کیے گئے اور ہر ملک اپنے اپنے قوانین بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں متفقہ نتائج پر پہنچنا مشکل ہے۔
خودکار گاڑیوں کے چند ممکنہ مضمرات
٭لوگ گاڑیاں خریدنا بند کر کے آن ڈیمانڈ گاڑیاں استعمال کریں گے
٭سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم ہو جائے گی
٭دنیا بھر کے کروڑوں ڈرائیوروں کا روزگار ختم ہو جائے گا
٭بلدیہ کو ٹریفک کے جرمانوں کی مد میں جو رقم ملتی تھی وہ ختم ہو جائے گی
٭ماہرین کے مطابق تبدیلی بتدریج ہو گی۔ پہلے پہل لوگ آسان سڑکوں پر کمپیوٹر کو گاڑی چلانے دیں گے، اور مشکل حالات میں خود سٹیئرنگ سنبھال لیں گے۔جب تک گاڑیاں مکمل طور پر خودکار نہیں ہو جاتیں، اس وقت تک صنعت کار ان میںا سٹیئرنگ ویل اور بریک وغیرہ لگاتے رہیں گے۔اس کے علاوہ خودکار گاڑیوں میں سیٹ بیلٹ پہننا پڑیں گی کیوں کہ کوئی ٹیکنالوجی بے عیب نہیں ہوتی۔البتہ ایک فائدہ یہ ہو گا کہ لوگوں کو ڈرائیونگ لائسنس لینے کی مصیبت سے چھٹکارا مل جائے گا۔ایک سوال اخلاقیات کا بھی ہے۔ فرض کیجیے بغیر ڈرائیور گاڑی میں ایک شخص بیٹھا ہوا ہے، اور گاڑی تیز رفتاری سے چلی جا رہی ہے کہ اچانک سڑک پر دو لوگ آ جاتے ہیں اور حادثے سے بچنا ناممکن ہے۔ گاڑی میں نصب کمپیوٹر کیا فیصلہ کرے گا؟ کیا وہ گاڑی کے مالک کی جان بچانے کے لیے دو لوگوں پر گاڑی چڑھا دے گا؟ یا پھر گاڑی کھائی میں گرا کر مالک کی قربانی دے دے گا؟اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپ ایسی گاڑی خریدنا پسند کریں گے جو دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے آپ کو داؤ پر لگا دے؟
ادھر برقی یعنی بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والی مشہور کمپنی ٹیسلا کی تمام نئی گاڑیوں میں ’سیلف ڈرائیونگ‘ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے ۔ٹیسلا کے ماڈل ایس اور ماڈل ایکس آٹو پائلٹ فیچر سے آراستہ کاریں ہیں۔برقی گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کا کہنا ہے کہ اب اس کی تمام گاڑیوں میں انھیں خودکار طریقے سے چلانے کے لیے درکار پرزے نصب کیے جائیں گے۔تاہم کیمرے، سینسرز اور ریڈارز متعارف کروائے جانے کے بعد بھی یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گاڑیوں کو مکمل طور پر خودکار بنانے کے لیے کئی سال لگ سکتے ہیں۔
ٹیسلا نے گذشتہ سال آٹو پائلٹ نظام متعارف کروایا تھا جس میں خودکار بریک کا نظام شامل کیا گیا تھا۔لیکن فی الحال کمپنی نے اس نئے نظام کا ’بھرپور‘ تجزیہ کرنے کے لیے اس آٹو پائلٹ نظام کو تمام نئی گاڑیوں میں بند کر دیا ہے۔ٹیسلا موٹر کار کے بانی اور اس کے چیف ایگزیکٹیو ایلن مسک کا کہنا ہے کہ ’ہارڈوئیر بنیادی طور پر گاڑی میں سپر کمپوٹر کی طرح تھا۔‘تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب یہ ریگولیٹرز اور عوام پر منحصر ہے کہ وہ گاڑی کے خودکار نظام کو کب استعمال کرنا چاہتے ہیں۔فی الحال یہ ہارڈوئیر ’شیڈو موڈ‘ میں کام کرے گا، تاکہ معلومات جمع کی جا سکیں کہ کب اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے حادثہ ہوا یا اس سے بچا جا سکا۔
ایلن مسک کو امید ہے کہ ایک دن ٹیسلا اس اہم معلومات کے ذریعے ریگولیٹرز کو دکھا دے گا کہ خودکار ٹیکنالوجی گاڑیوں کو چلانے والے انسانوں سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ٹیسلا کے ماڈل ایس اور ماڈل ایکس آٹو پائلٹ فیچر سے آراستہ کاریں ہیں، جو کہ خود سے ہی راستہ بھی بدل سکتی ہیں اور ٹریفک کی مناسبت سے خود ہی راستہ پہچانتی رہتی ہیں۔تاہم رواں سال ہی اس کار کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں ٹیسلا کے 45 سالہ ڈرائیور جوشوا براؤن کی تو موت ہوگئی تھی لیکن ٹرک کے ڈرائیور کو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
٭٭٭