’’عردو کی تالیم‘‘
شیئر کریں
علی عمران جونیئر
دوستو،چھٹی جماعت کے امتحانی پرچے میں ایک سوال تھا ۔درج ذیل سات میں سے پانچ الفاظ کواپنے جملوں میں استعمال کریں۔ ان میں ایک لفظ تھا ۔۔’’آب مقطر‘‘۔۔تقریباً تمام طلبہ نے یہ لفظ چھوڑ دیا، ماسوا ایک لڑکی کے ۔۔لڑکی نے اس لفظ کاجملہ کچھ یوں بنایا تھا۔۔میرے ابو روزانہ صبح آب مقطر سے وضو کرتے ہیں ۔۔ممتحن نے اس لڑکی کو کوئی بھی نمبر دیے بغیر اس کا پرچہ علیحدہ رکھ لیا۔دوسرے دن اس نے اسکول کے سارے عملے کو اس لڑکی کاجملہ دکھایا۔ اس کی جماعت میں جاکر اس لڑکی کو بلایا اور اس سے پوچھا ۔۔تمہیں آب مقطر کے معنی معلوم ہیں؟لڑکی نے اقرار کیا کہ اسے معلوم ہیں ۔۔استاد نے پوچھا کیا معنی ہیں؟ آپ ہی نے بتایا تھا کہ قطرہ قطرہ پانی ٹپکے تواسے آب مقطر کہتے ہیں ۔۔استاد نے کہا،شاباش۔اب بتاؤ تم نے کل پرچے میں جملہ بنایا ہے کہ میرے ابو روزانہ صبح آب مقطر سے وضو کرتے ہیں۔ اس کاکیامطلب ہے۔ لڑکی بولی ۔۔دراصل ہماری ٹینکی کی ٹونٹی ہروقت ٹپکتی رہتی ہے۔ امی رات کے وقت اس کے نیچے جگ رکھ دیتی ہیں وہ صبح تک بھر جاتا ہے ،ابو صبح اٹھتے ہیں تو اسی آب مقطر کو لوٹے میں ڈال کر اس سے وضو کرلیتے ہیں۔۔۔اس طالبہ کو استاد نے سو میں سے سو نمبر دے دیے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی اردو کا معیار تباہی کی جانب گامزن ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اردو پر زور دیا جاتا ہے، شہروں میں اکثریت نجی اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں اور ان نجی اسکولوں کی ترجیح انگریزی میڈیم ہوتا ہے۔ خود ہم نے پرائمری’’ٹاٹ‘‘ والے اسکول سے پاس کیا، پھر جب چھٹی کلاس میں داخلہ لینے کا وقت آیا تو ہمارے تمام کلاس فیلوز نے سیکنڈری لیول کے سرکاری اسکول کو ترجیح دی، لیکن ہم نے انگریزی میڈیم میں داخلے کو ترجیح دی، یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ ہم نے اے بی سی پہلی بار چھٹی کلاس میں ہی پڑھی، وہاں ’’پہاڑوں‘‘ کو ’’ٹیبل‘‘ کہا جاتا تھا۔بہرحال انگریزی پر توجہ دی اور تھوڑی بہت محنت بھی کرلی۔ لیکن اس کے بعد کالج اور یونیورسٹی پھر سرکاری ہی ملی۔ ۔اس لئے ہم تعلیمی معیار میں اوسط درجے کے ہی رہے۔ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ یہاں تعلیمی معیار ہی ذہانت جانچنے کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے، جو بچہ پڑھائی میں اچھا نہیں ہوگا یا ’’ایوریج‘‘ ہوگا، وہ سمجھ لیں کندذہن ہی ہوگا۔ ایسے بچوںکو زیادہ تر مدرسے میں داخل کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ دنیامیں جتنی ایجادات ہوئی ہیں، زیادہ تر موجد پڑھائی میں زیرو بٹانل ہی تھے، بلب سمیت سینکڑوں ایجادات کا بانی تھامس ایلوا ایڈیسن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ سترہ سال کی عمر میں اس نے اپنا نام لکھنا سیکھا تھا، اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس کا تعلیمی معیار کس لیول کا ہوگا؟؟موجودہ زمانے میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ہو یا ونڈوز کے مالک بل گیٹس،ایپل کے مالک اسٹیو جابز ہوں، یہ سب کالج سے بھاگے ہوئے لڑکے تھے۔یعنی ہماری زبان میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ۔۔پڑھائی کے چور۔۔
خود ہمارے بچے انگریزی میں تیز ہیں اردو لکھنے پر انہیں موت پڑتی ہے۔موبائل فونز پر رومن تحریر نے بھی ہماری اردو کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ باباجی کہتے ہیں ۔۔ میں نے رومن میں میسیج لکھا۔۔ وہ عطا کو آٹا سمجھتے رہے۔۔چلیں اب کچھ اردو بھی سیکھ لیں۔۔ اکثر ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ درستی اور درستگی دونوں درست ہیں یا صرف درستی؟۔۔اردو اور فارسی میں کسی بھی صفت کے آخر میں’’ ی‘‘ کا اضافہ کرنے کا شروع سے رواج تھا، جیسے خوش سے خوشی، شاد سے شادی، سرد سے سردی، گرم سے گرمی۔۔پھر کچھ ایسے الفاظ سامنے آئے جن کے آخر میں ’’ہ‘‘ تھی، جیسے آوارہ، آزردہ، روانہ، دیوانہ، فرزانہ، جب ان کے آخر میں ’’ی ‘‘کا اضافہ کیا تو لسانیاتی تقاضوں کے تحت اس ’’ہ‘‘ کو’’ گ‘‘ سے بدل دیا گیا اور یہ چلن بھی عام ہوگیا، چنانچہ آوارگی، آزردگی، روانگی، دیوانگی اور فرزانگی استعمال ہونے لگے۔یہاں تک بات ٹھیک تھی، بعد ازاں عوام نے غلط فہمی کی بنیاد پر ناراض سے ناراضی کے بجائے ناراضگی کہنا شروع کردیا، اسی طرح درست سے درستگی بھی عوام میں رواج پاگیا، یہ ناروا سلوک متعدد الفاظ کے ساتھ ہوا، حتی کہ لفظ۔۔ادا سے ادائیگی جیسا عجیب و غریب لفظ بنادیا گیا اور یہ بھی استعمال ہونے لگا۔کسی بھی لفظ کا وہ استعمال زبان میں اضافے کا باعث بنتا ہے جو عوام کے ساتھ ساتھ خواص میں بھی مقبول و مستعمل ہو،ادائیگی چونکہ خواص میں بھی رائج ہوگیا، اس لیے اسے غلط العام کی اصطلاح دے کر درست قرار دیا جاتا ہے، جبکہ ناراضگی اور درستگی کا استعمال عوام تک محدود رہا، خواص تاحال درستی کے قائل ہیں اوردرستگی پر ناراضی ظاہر کرتے ہیں، اس لیے ان دونوں کو غلط العوام کی قبیل سے شمار کرکے غلط ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہمارے نوجوان صحافی اردو لکھتے ہوئے یکساں آواز والے الفاظ کا خیال بالکل نہیں رکھتے۔اردو لکھتے ہوئے ہمیں یکساں آواز،مگر مختلف املا کے الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے،جیسے۔۔ کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں۔۔اسی طرح اردو کا اہم ذخیرہ الفاظ فارسی کے علاوہ عربی کے الفاظ پر بھی مشتمل ہے،جس میں بہت سی تراکیب بھی عربی کی ہیں، ان کو لکھتے ہوئے ان کے املا کا خیال رکھنا چاہیے، جس میں بعض اوقات الف خاموش (سائلنٹ) ہوتا ہے، جیسے بالکل، بالخصوص، بالفرض، بالغرض وغیرہ۔ جب کہ کہیں چھوٹی ’’ی‘‘ یا کسی اور لفظ پر کھڑی زبر ہوتی ہے، جو الف کی آواز دیتی ہے، جیسے وزیر اعلیٰ، رحمن اور اسحق وغیرہ، اسی طرح بہت سی عربی تراکیب میں’’ل‘‘ ساکت ہوتا ہے جیسے السلام علیکم اسے’’ل‘‘ کے بغیر لکھنا فاش غلطی ہوتی ہے۔ اپنے جملوں میں مستقبل کے بارے میں گفت گو کرتے ہوئے ۔۔کردینا ہے، نہیں بلکہ کردیں گے، لکھنا چاہیے، جیسے اب تم آگئے ہو تو تم بول بول کے میرے سر میں درد کردو گے(نہ کہ کردینا ہے) اب ٹیچر آگئے ہیں تو تم کتاب کھول کر پڑھنے کی اداکاری شروع کردو گے(نہ کہ کردینی ہے)لکھنا چاہیے۔اردو کے کچھ الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آخر میں الف کی آواز دیتے ہیں۔لیکن کسی کے آخر میں ’’ہ‘‘ہے او رکسی کے آخر میں الف آتا ہے۔ انہیں لکھتے ہوئے غلطی کی جائے تواس کے معانی میںزمین آسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے گِلہ اور گلا، پیسہ اور پیسا، دانہ او ردانا وغیرہ۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کوئی زمانہ تھا جب فقیر کو روٹی پر سالن ڈال کر دیا کرتے تھے۔ اب اِس کا جدید نام ’’ پیزا‘‘ ہے۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
’’عردو کی تالیم‘‘
عمران یات
علی عمران جونیئر
دوستو،چھٹی جماعت کے امتحانی پرچے میں ایک سوال تھا ۔درج ذیل سات میں سے پانچ الفاظ کواپنے جملوں میں استعمال کریں۔ ان میں ایک لفظ تھا ۔۔’’آب مقطر‘‘۔۔تقریباً تمام طلبہ نے یہ لفظ چھوڑ دیا، ماسوا ایک لڑکی کے ۔۔لڑکی نے اس لفظ کاجملہ کچھ یوں بنایا تھا۔۔میرے ابو روزانہ صبح آب مقطر سے وضو کرتے ہیں ۔۔ممتحن نے اس لڑکی کو کوئی بھی نمبر دیے بغیر اس کا پرچہ علیحدہ رکھ لیا۔دوسرے دن اس نے اسکول کے سارے عملے کو اس لڑکی کاجملہ دکھایا۔ اس کی جماعت میں جاکر اس لڑکی کو بلایا اور اس سے پوچھا ۔۔تمہیں آب مقطر کے معنی معلوم ہیں؟لڑکی نے اقرار کیا کہ اسے معلوم ہیں ۔۔استاد نے پوچھا کیا معنی ہیں؟ آپ ہی نے بتایا تھا کہ قطرہ قطرہ پانی ٹپکے تواسے آب مقطر کہتے ہیں ۔۔استاد نے کہا،شاباش۔اب بتاؤ تم نے کل پرچے میں جملہ بنایا ہے کہ میرے ابو روزانہ صبح آب مقطر سے وضو کرتے ہیں۔ اس کاکیامطلب ہے۔ لڑکی بولی ۔۔دراصل ہماری ٹینکی کی ٹونٹی ہروقت ٹپکتی رہتی ہے۔ امی رات کے وقت اس کے نیچے جگ رکھ دیتی ہیں وہ صبح تک بھر جاتا ہے ،ابو صبح اٹھتے ہیں تو اسی آب مقطر کو لوٹے میں ڈال کر اس سے وضو کرلیتے ہیں۔۔۔اس طالبہ کو استاد نے سو میں سے سو نمبر دے دیے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی اردو کا معیار تباہی کی جانب گامزن ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اردو پر زور دیا جاتا ہے، شہروں میں اکثریت نجی اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں اور ان نجی اسکولوں کی ترجیح انگریزی میڈیم ہوتا ہے۔ خود ہم نے پرائمری’’ٹاٹ‘‘ والے اسکول سے پاس کیا، پھر جب چھٹی کلاس میں داخلہ لینے کا وقت آیا تو ہمارے تمام کلاس فیلوز نے سیکنڈری لیول کے سرکاری اسکول کو ترجیح دی، لیکن ہم نے انگریزی میڈیم میں داخلے کو ترجیح دی، یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ ہم نے اے بی سی پہلی بار چھٹی کلاس میں ہی پڑھی، وہاں ’’پہاڑوں‘‘ کو ’’ٹیبل‘‘ کہا جاتا تھا۔بہرحال انگریزی پر توجہ دی اور تھوڑی بہت محنت بھی کرلی۔ لیکن اس کے بعد کالج اور یونیورسٹی پھر سرکاری ہی ملی۔ ۔اس لئے ہم تعلیمی معیار میں اوسط درجے کے ہی رہے۔ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ یہاں تعلیمی معیار ہی ذہانت جانچنے کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے، جو بچہ پڑھائی میں اچھا نہیں ہوگا یا ’’ایوریج‘‘ ہوگا، وہ سمجھ لیں کندذہن ہی ہوگا۔ ایسے بچوںکو زیادہ تر مدرسے میں داخل کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ دنیامیں جتنی ایجادات ہوئی ہیں، زیادہ تر موجد پڑھائی میں زیرو بٹانل ہی تھے، بلب سمیت سینکڑوں ایجادات کا بانی تھامس ایلوا ایڈیسن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ سترہ سال کی عمر میں اس نے اپنا نام لکھنا سیکھا تھا، اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس کا تعلیمی معیار کس لیول کا ہوگا؟؟موجودہ زمانے میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ہو یا ونڈوز کے مالک بل گیٹس،ایپل کے مالک اسٹیو جابز ہوں، یہ سب کالج سے بھاگے ہوئے لڑکے تھے۔یعنی ہماری زبان میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ۔۔پڑھائی کے چور۔۔
خود ہمارے بچے انگریزی میں تیز ہیں اردو لکھنے پر انہیں موت پڑتی ہے۔موبائل فونز پر رومن تحریر نے بھی ہماری اردو کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ باباجی کہتے ہیں ۔۔ میں نے رومن میں میسیج لکھا۔۔ وہ عطا کو آٹا سمجھتے رہے۔۔چلیں اب کچھ اردو بھی سیکھ لیں۔۔ اکثر ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ درستی اور درستگی دونوں درست ہیں یا صرف درستی؟۔۔اردو اور فارسی میں کسی بھی صفت کے آخر میں’’ ی‘‘ کا اضافہ کرنے کا شروع سے رواج تھا، جیسے خوش سے خوشی، شاد سے شادی، سرد سے سردی، گرم سے گرمی۔۔پھر کچھ ایسے الفاظ سامنے آئے جن کے آخر میں ’’ہ‘‘ تھی، جیسے آوارہ، آزردہ، روانہ، دیوانہ، فرزانہ، جب ان کے آخر میں ’’ی ‘‘کا اضافہ کیا تو لسانیاتی تقاضوں کے تحت اس ’’ہ‘‘ کو’’ گ‘‘ سے بدل دیا گیا اور یہ چلن بھی عام ہوگیا، چنانچہ آوارگی، آزردگی، روانگی، دیوانگی اور فرزانگی استعمال ہونے لگے۔یہاں تک بات ٹھیک تھی، بعد ازاں عوام نے غلط فہمی کی بنیاد پر ناراض سے ناراضی کے بجائے ناراضگی کہنا شروع کردیا، اسی طرح درست سے درستگی بھی عوام میں رواج پاگیا، یہ ناروا سلوک متعدد الفاظ کے ساتھ ہوا، حتی کہ لفظ۔۔ادا سے ادائیگی جیسا عجیب و غریب لفظ بنادیا گیا اور یہ بھی استعمال ہونے لگا۔کسی بھی لفظ کا وہ استعمال زبان میں اضافے کا باعث بنتا ہے جو عوام کے ساتھ ساتھ خواص میں بھی مقبول و مستعمل ہو،ادائیگی چونکہ خواص میں بھی رائج ہوگیا، اس لیے اسے غلط العام کی اصطلاح دے کر درست قرار دیا جاتا ہے، جبکہ ناراضگی اور درستگی کا استعمال عوام تک محدود رہا، خواص تاحال درستی کے قائل ہیں اوردرستگی پر ناراضی ظاہر کرتے ہیں، اس لیے ان دونوں کو غلط العوام کی قبیل سے شمار کرکے غلط ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہمارے نوجوان صحافی اردو لکھتے ہوئے یکساں آواز والے الفاظ کا خیال بالکل نہیں رکھتے۔اردو لکھتے ہوئے ہمیں یکساں آواز،مگر مختلف املا کے الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے،جیسے۔۔ کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں۔۔اسی طرح اردو کا اہم ذخیرہ الفاظ فارسی کے علاوہ عربی کے الفاظ پر بھی مشتمل ہے،جس میں بہت سی تراکیب بھی عربی کی ہیں، ان کو لکھتے ہوئے ان کے املا کا خیال رکھنا چاہیے، جس میں بعض اوقات الف خاموش (سائلنٹ) ہوتا ہے، جیسے بالکل، بالخصوص، بالفرض، بالغرض وغیرہ۔ جب کہ کہیں چھوٹی ’’ی‘‘ یا کسی اور لفظ پر کھڑی زبر ہوتی ہے، جو الف کی آواز دیتی ہے، جیسے وزیر اعلیٰ، رحمن اور اسحق وغیرہ، اسی طرح بہت سی عربی تراکیب میں’’ل‘‘ ساکت ہوتا ہے جیسے السلام علیکم اسے’’ل‘‘ کے بغیر لکھنا فاش غلطی ہوتی ہے۔ اپنے جملوں میں مستقبل کے بارے میں گفت گو کرتے ہوئے ۔۔کردینا ہے، نہیں بلکہ کردیں گے، لکھنا چاہیے، جیسے اب تم آگئے ہو تو تم بول بول کے میرے سر میں درد کردو گے(نہ کہ کردینا ہے) اب ٹیچر آگئے ہیں تو تم کتاب کھول کر پڑھنے کی اداکاری شروع کردو گے(نہ کہ کردینی ہے)لکھنا چاہیے۔اردو کے کچھ الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آخر میں الف کی آواز دیتے ہیں۔لیکن کسی کے آخر میں ’’ہ‘‘ہے او رکسی کے آخر میں الف آتا ہے۔ انہیں لکھتے ہوئے غلطی کی جائے تواس کے معانی میںزمین آسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے گِلہ اور گلا، پیسہ اور پیسا، دانہ او ردانا وغیرہ۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کوئی زمانہ تھا جب فقیر کو روٹی پر سالن ڈال کر دیا کرتے تھے۔ اب اِس کا جدید نام ’’ پیزا‘‘ ہے۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔