اقوام متحدہ کا اقتصادی سروے، سیاسی انجینئرنگ اور معاشی تباہی
جرات ڈیسک
اتوار, ۷ اپریل ۲۰۲۴
شیئر کریں
اقوام متحدہ نے رواں اور آئندہ سال کے دوران ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں تیزی کی پیش گوئی کرتے ہوئے 2024، 2025 میں جی ڈی پی کی شرح نمو بالترتیب 2 فیصد اور 2.3 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔اقوام متحدہ کے اقتصادی سروے میں 2024 میں 26 فیصد رہنے والی مہنگائی 2025 میں 12.2 فیصد تک کم رہنے کی نوید بھی سنائی گئی ہے۔اقوام متحدہ کے اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ پیسفک (یو این ای ایس سی اے پی) کی جانب سے جاری ’2024 اکنامک اینڈ سوشل سروے آف ایشیا اینڈ پیسفک ریجن‘ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کو سیاسی بے چینی کا سامنا تھا جس کے کاروبار اور صارفین کے رجحان پر منفی اثرات مرتب ہوئے جب کہ 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے زرعی پیداوار کو متاثر کیا۔اس میں نوٹ کیا گیا کہ 2023 کے وسط میں عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدہ کے علاوہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی معاونت نے 2023 کے دوران معاشی استحکام بحال کرنے میں مدد فراہم کی۔سروے میں نشاندہی کی گئی کہ توانائی کے شعبے کی سبسڈی کا خاتمہ جیسے مختلف اقدامات کے ساتھ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت استحکام اور بحالی کے عمل سے گزر رہی ہے۔سروے میں پورے خطے کے لیے تجویز کیا گیا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے رقم کے لیے بہتر ٹیکس اور انتظامی پالیسیوں کے علاوہ سماجی و اقتصادی ترقی اور عوامی نظم و نسق میں مجموعی طور پر بہتری کے ساتھ ساتھ ٹیکس ریونیو میں بڑے پیمانے پر اضافے کی ضرورت ہوگی۔اس میں زور دیا گیا کہ ایشیا پیسیفک خطے میں ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کوکم لاگت اور طویل المدتی مالی امداد کی فوری ضرورت ہے جب کہ ان میں سے بہت سے ممالک کو قرضوں کی فراہمی پر بھاری شرح سود کے ماحول میں اس کی ادائیگی یا اپنے لوگوں کی تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ میں سرمایہ کاری کے درمیان انتخاب کا مشکل فیصلہ درپیش ہے۔سروے میں عوامی ٹیکس کی بہتر وصولی کی بھی سفارش کی گئی ہے جس سے نہ صرف ’ٹیکس ادائیگی کے فرق‘ کو ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ مالیاتی خطرات اور قرض لینے کے اخراجات کو بھی کم ہوں گے۔اس سے قبل گزشتہ دنوں عالمی بینک نے امکان ظاہر کیا تھا کہ رواں مالی سال پاکستان کی معاشی شرح نمو 1.8 فیصد رہے گی۔عالمی بینک نے پاکستان میکرو اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں بتایا تھا کہ مالی سال 2025 میں پاکستان کی شرح نمو 2.3 فیصد جبکہ مالی سال 2026 میں 2.7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔عالمی بینک کے مطابق رواں مالی سال 24-2023 کے دوران شعبہ زراعت کی ترقی 3 فیصد تک رہ سکتی ہے، مالی سال 2025 میں زرعی شرح نمو کم ہوکر 2.2 فیصد رہنے کا امکان ہے، جبکہ عالمی بینک نے مالی سال 2026 میں زراعت کی ترقی بڑھ کر 2.7 فیصد رہنے کی پیش گوئی ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران صنعتی ترقی کی نمو 1.8 فیصد رہنے کا امکان ہے، جبکہ اگلے مالی سال 2025 میں یہ 2.2 فیصد اور 2026 میں 2.4 فیصد رہنے کا امکان ہے۔اس کے برعکس پاکستان کے اقتصادی تحقیقی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس(PIDE) نے ملک کی موجودہ اقتصادی صورت حال اور اصلاحات میں سفاشارت کی تازہ رپورٹ شائع کی ہے جس میں ملک کی معیشت کودرپیش صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ ملک کو ڈیفالٹ جیسے بحران کا سامنا ہے اور سا منا رہے گا۔ رپورٹ میں بیرونی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ یعنی تجدید نو کی مخالفت کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کے پروگرام یعنی نئے قرضوں کے معاہدے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے کیونکہ قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے زر مبادلہ کے ذخائر بہت کم ہیں۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ زرمبادلے کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے ڈیفالٹ کی تلوار مسلسل ملک کے سر پر لٹکی رہے گی۔ رپورٹ کے مطابق بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئندہ 3 برسوں میں 72 ارب ڈالر درکار ہوں گے صرف آئندہ مالی سال کے لیے22 ارب ڈالر درکار ہیں، مجموعی طور پر آئندہ 4برس کے لیے 120 ارب ڈالر درکار ہوں گے آئندہ مالی سال کے لیے24 ارب 90کروڑ ڈالر، مالی سال2025-26 میں 22ارب 20کروڑ ڈالر، مالی سال2026-27ء میں 24ارب60کروڑ ڈالر، اور مالی سال2027-28ء میں 24 ارب90کروڑ ڈالر کے بیرونی قرضے کی ضرورت ہو گی، جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہیں اور مہنگائی اور بے روز گاری کے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، زر مبادلہ کے موجودہ ذخائر کے مقابلے میں ضرورت 126 فیصد سے لے کر506 فیصد تک زاید کی ضرورت ہو گی جس کی وجہ سے رپورٹ یہ کہتی ہے کہ نئے قرضے یا قرضوں کی تجدید نو تو نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی غلامی سے جان چھڑانے کے بجائے نئے قرضوں کی زنجیر کی قید قبول کر لی جائے، یہ صورت حال معیشت کی سرکاری اور حکومتی سطح کی ہے۔ عوام کا کیا حال ہے اس کی ایک جھلک عالمی بینک کی رپورٹ میں ظاہر ہو چکی ہے، عالمی بینک بھی جو آئی ایم ایف کی طرح کا عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا مرکزی ادارہ ہے اور ترقیاتی امو سے تعلق رکھتا ہے اس کامقصد دنیا کو بڑی معیشتوں کی ضروریات سے ہم آہنگ کر نے کیلئے کم وسیلہ ممالک کو امداد فراہم کرکے مدد کرناہے۔ عالمی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان میں غربت کے بارے میں جو تفصیلات بیان کی ہیں وہ بھی عوام کی سطح پرمعاشی حالات کی ہولناکی ظاہرکرتی ہے۔ غربت کے بار ے میں عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ شرح نمو میں کمی اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ کی وجہ سے ایک کروڑ پاکستانیوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل سکتی ہے۔ خط غربت کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جس فرد کی روزانہ آمدنی ایک ڈالر ہے وہ خط غربت کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ یعنی300روپے روز کی آمدنی رکھنے والا فرد غربت کی سطح پر زندگی گزار رہا ہے۔ روپے کی قیمت گر جانے کے بعد پاکستان کے 300روپے روزانہ کی مزدوری میں 2وقت کا کھانا بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے خط غربت کی نئی تعریف بیان کرنے کی ضرورت ہوگی، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق9کروڑ کے لگ بھگ افراد پہلے سے غربت کا شکار ہیں، مزید ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد خط غربت کے قریب کھڑے ہیں۔مہنگائی کم آمدنی اور روز مرہ کے بڑھتے اخراجات کی وجہ سے اسکول نہ جانے والے بچوں اور علاج معالجے کی سہولت سے محروم افراد کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ترقی پذیر ممالک کو انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ وہ زیادہ شرح سود پر لیے گئے پچھلے قرض اتارنے پر خرچ کریں، دوسرا انتخاب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کی تعلیم، صحت اور سماجی بہتری کیلئے وسائل خرچ کریں۔اقوام متحہ ہ اور ورلڈ بینک دونوں کی رپورٹوں سے ظاہرہوتاہے کہ برسوں سے معیشت کے بحران میں مبتلا پاکستان کی معاشی بہتری کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق گزشتہ 22ماہ میں مارچ کے مہینے میں مہنگائی کی شرح پہلی بار سب سے کم 20.7فیصد کی شرح پر آگئی۔ مہنگائی کی شرح درحقیقت کسی بھی معیشت کا بڑا آئینہ ہوتی ہے جبکہ شرح نمو میں اضافے کو بھی مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مذکورہ رپورٹوں میں ان دونوں حوالوں سیحوصلہ افزا صورتحال سامنے آئی ہے۔ تصدیق کی گئی ہے کہ شرح نمو میں اضافے کی صورت میں معیشت نے ترقی دکھانی شروع کردی۔ عالمی بینک کی رپورٹ پر ”بلوم برگ“ کے تجزیے کے بموجب رواں مالی سال کی نسبت آئندہ مالی سال میں شرح نمو میں دگنا اضافہ ہوگا، بڑھوتری کا عمل بتدریج آگے بڑھے گا جبکہ شرح مہنگائی میں مزید کمی کا امکان ہے۔ پاکستانی اسٹاک ایکسچینج کی کئی ماہ سے جاری مجموعی کارکردگی بھی بہتری کے اشارے دیتی محسوس ہورہی ہے لیکن عالمی اداروں کی یہ دو رپورٹیں اقوام متحدہ کی دل خوش کن رپورٹ کے برعکس سرکاری اور عوامی دونوں سطحوں پر معیشت کی ابتر صورت حال کی تصویر کشی کر رہی ہیں ایک طرف معاشی صورت حال کے بارے میں دو اداروں کی رپورٹوں کو دیکھیں، دوسری طرف سیاسی منظر نامے اور مقتدر اداروں کی ترجیحات کو دیکھیں تو مستقبل سے مایوسی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس امر پر اتفاق رائے موجود ہے کہ جن خطرات میں ہمارا ملک گھرا ہوا ہے اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے، سیاسی استحکام کے لیے آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی لازمی شرط ہے۔ آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کی صورت حال دیکھنی ہو تو عدلیہ کی طرف دیکھا جا سکتا ہے۔ عدلیہ کی آزادی قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالا دستی کی لازمی شرط ہے، عدلیہ کی آزادی کی حالت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار خود اعلیٰ عدلیہ کے ارکان مدعی بن گئے ہیں۔ا سلام آباد ہائی کورٹ کے8ججوں میں سے6 ججوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا ہے جس کے مطابق انتظامیہ یعنی حکومت آئی ایس آئی کے اہلکاروں کے ذریعے عدالتی امور میں مداخلت کرتی ہے اور اپنے مطلوبہ فیصلے حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے، ججوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، رشتہ داروں کو ماورائے قانون گرفتار کیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے، ججوں کی جاسوسی کرنے کے لیے خواب گاہوں میں خفیہ کیمرے نصب کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں خوف زدہ اور بلیک میل کیا جا سکے۔ یہ ایک د ھماکاخیزاو ر معاشرے کو بھونچال میں ڈال دینے والی خبر ہے لیکن اس بات پر یقین نہیں ہے کہ اعلیٰ عدلیہ آئینی اختیارات کے باوجود اپنی آزادی کا تحفظ کر سکے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کام اندرونی اور بیرونی سازشوں سے ملک کا تحفظ کرنا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ حکمرانوں نے انھیں ان کے اصل کام سے ہٹاکر کسی اور طرف لگادیاہے جس کی وجہ سے ہر شعبے میں خرابیاں پیداہورہی ہیں۔آئین میں بالا دستی پارلیمان کو حاصل ہے، جو عوام کے ذریعے منتخب کی جاتی ہے لیکن انتخابی عمل پر بھی قبضہ کیا جا چکا ہے اور عوام نے یہ دیکھا ہے کہ انتخابی عمل میں ووٹ کسی کو پڑے اور کسی اور کی فتح کا اعلان کیا گیا۔ الزام یہ ہے کہ عوام کی رائے کے بر خلاف نتائج تبدیل کیے گئے اور اپنی مرضی کے مطابق ہارنے والوں کی فتح کا اعلان کیا گیا اور جیتنے والوں کو ہرا دیا گیا۔ یہ عمل عرصے سے جاری ہے، اس لیے غیر آئینی مارشل لا کے خاتمے اور جمہوری حکومتوں کے باوجود پاکستان میں آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالا دستی قائم نہیں ہو سکی۔ پاکستان کی موجودہ ہولناک اقتصادی صورت حال طرزِ حکمرانی کے ذمے داروں کا تعین کاتقاضا کرتی ہے، لیکن مقتدر اور با اثر ادارے کس کھیل میں مصروف ہیں اس کا اشارہ عدالت عالیہ کے6ججوں کے خط اور عدلیہ کے ججوں کو زہریلے سفید سفوف پر مشتمل دھمکی آمیز پر اسرار خطوں سے ہوتا ہے، ملک ابھی بھی ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا ہوا ہے۔ مہنگائی اور بے روز گاری کی صورت حال نے ملک کو خانہ جنگی کے خطرے کا شکار کر دیا ہے اور مقتدر ادارے سیاسی انجینئرنگ میں لگے ہوئے ہیں۔