برآمدات میں رکاوٹیں اور زرمبادلہ کی ضرورت
شیئر کریں
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے موجودہ سیاسی بحران، سیلاب سے پیدا ہونے والے معاشی نقصانات، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور اندرون ملک سخت معاشی پالیسیوں اور بیرونی دباؤکی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 0.6 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو گزشتہ مالی سال 6 فیصد تھی۔ رپورٹ کے مطابق ایشیا ئی ترقیاتی بنک کی جانب سے جاری سالانہ آؤٹ لک رپورٹ میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر قابو پانے، ادائیگی کے توازن کے چیلنجز سے نمٹنے اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام سمیت دیگر ذرائع سے جلد از جلد مالیاتی تعاون کا سلسلہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرونی مالیاتی خلا کو پر کرنے کے لیے حکومت کو مالیاتی ذرائع کی بھی نشاندہی کرنی چاہیے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے معاشی منظرنامے اور آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ کو شدید خطرات درپیش ہیں جن کا اندرونی اور بیرونی چیلنجز کی وجہ سے منفی جھکاؤہے۔رپورٹ کے مطابق موجودہ مالی سال میں میکرو اکنامک حالات سنگین صورت اختیار کرگئے ہیں اور پاکستان شدید خطرات سے دوچار ہے کیونکہ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں معاشی صورتحال انتہائی کمزور دکھائی دے رہی ہے، سست عالمی نمو اور یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں عالمی سطح پر مزید اضافے کے سبب بھی خطرات درپیش ہیں۔ رپورٹ میں رواں مالی سال اوسط مہنگائی کی شرح 27.5 فیصد جبکہ آئندہ برس 15 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو صارفین کی قوت خرید پر اثرانداز ہوگی اور ملکی سطح پر طلب میں کمی کا سبب بنے گی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز عالمی بینک نے پاکستان کی رواں سال کی شرح نمو کی پیش گوئی بہت زیادہ کم کرتے ہوئے کہا تھا کہ سخت مالی حالات اور محدود مالیاتی گنجائش کی وجہ سے ملک کی معاشی ترقی کے امکانات کمزور ہو گئے ہیں۔ عالمی بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ورلڈ بینک اب توقع کرتا ہے کہ پاکستان کی معیشت رواں سال میں 0.4 فیصد بڑھے گی جب کہ اکتوبر میں اس نے پیش گوئی کی تھی کہ جی ڈی پی 2 فیصد کی شرح سے بڑھے گی۔
یہ تو ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے قرض میں گزشتہ 7 برسوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے، جس میں 15-2014 میں جی ڈی پی کا 24 فیصد 65 ارب ڈالر سے 22-2021 میں جی ڈی پی کا 40 فیصد 130 ارب ڈالر تک اضافہ ہوا۔اعداد وشمار کے مطابق 99 ارب ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضوں میں سے مالیاتی اداروں کا حصہ 42 فیصد ہے اور مختلف ممالک سے قرض تقریبا 38 فیصد ہے۔ممالک میں سب سے زیادہ چین کا 23 ارب ڈالر حصہ ہے، جس میں چینی بینکوں سے 6.7 ارب ڈالر بھی کا قرض شامل ہے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نہ تو کوئی ملک اور نہ ہی کوئی ادارہ پاکستان کو قرضوں کے حوالے سے بہت بڑا ریلیف دینے پر تیار ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے کہ جلد یابدیر کوئی ملک پاکستان پر اتنا مہربان ہو جائے۔ اداروں سے قرضوں کے حوالے سے یہ تقریباً ناممکن ہے،دوطرفہ ممالک کے لیے اپنے عروج میں بھی پیرس کلب نے قرضوں میں کمی کرنے سے انکار کیا تھا اور ری شیڈولنگ کرتا رہا،موجودہ صورت حال میں جبکہ دنیا کے بیشتر قرض دینے والے ممالک بھی اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں پاکستان پر واجب الادا قرض میں زرمبادلے کی آمدنی میں اضافے کے سوا کسی اور صورت مؤثر کمی بہت مشکل ہے اگر اندرونی قرض بھی ری اسٹرکچرنگ کا حصہ بنادیا جاتا ہے تو یہ فیصلہ پھر مالی شعبے کے مسائل میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان کی زرمبادلے کی صورت حال کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ فروری میں خدمات کی برآمدات جس میں گزشتہ مہینے معمولی مثبت نمو ریکارڈ کی گئی تھی 5.40 فیصد کم ہوئی۔ وفاقی ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے مطابق فروری میں خدمات کی برآمدات گر کر 54 کروڑ 31 لاکھ ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ برس کے اسی مہینے میں 57 کروڑ 41 لاکھ ڈالر تھیں۔اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 8 مہینے میں خدمات کی برآمدات میں 6.09 فیصد تنزلی ہوئی، جولائی سے فروری کے دوران خدمات کی برآمدات 4 ارب 48 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں جو پچھلے سال کے اسی عرصے میں 4 ارب 77 کروڑ ڈالر تھیں۔جبکہ خدمات کی درآمدات میں رواں مالی سال کے ابتدائی 8 مہینے میں 49.15 فیصد اضافے کے بعد 7 ارب 64 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ برس اسی مدت کے دوران 5 ارب 12 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔فروری میں خدمات کی درآمدات 55.67 فیصد بڑھ کر 95 کروڑ 41 لاکھ ڈالر ہو گئیں جو پچھلے سال اسی مہینے 61 کروڑ 29 لاکھ ڈالر تھیں، ابتدائی 8 ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 34 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں بڑھ کر 3 ارب 14 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔ پاکستان کی برآمدات میں مسلسل ساتویں مہینے تنزلی ہوئی جو مارچ میں 14.76 فیصد کم ہو کر 2 ارب 36 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 23-2022 کے ابتدائی 9 مہینوں (جولائی تا مارچ) میں برآمدات 9.87 فیصد کمی کے بعد 21 ارب 4 کروڑ ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اس مدت میں 23 ارب 35 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔پاکستان کی زرمبادلے کی آمدنی کی یہی وہ صورت حال ہے جس کی بنیاد پرایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 0.6 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو گزشتہ مالی سال 6 فیصد تھی۔ ایشیا ئی ترقیاتی بنک کی جانب سے جاری سالانہ آؤٹ لک رپورٹ میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر قابو پانے، ادائیگی کے توازن کے چیلنجز سے نمٹنے اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام سمیت دیگر ذرائع سے جلد از جلد مالیاتی تعاون کا سلسلہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرونی مالیاتی خلا کو پر کرنے کے لیے حکومت کو مالیاتی ذرائع کی بھی نشاندہی کرنی چاہیے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے معاشی منظرنامے اور آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ کو شدید خطرات درپیش ہیں جن کا اندرونی اور بیرونی چیلنجز کی وجہ سے منفی جھکاؤہے۔رپورٹ کے مطابق موجودہ مالی سال میں میکرو اکنامک حالات سنگین صورت اختیار کرگئے ہیں اور پاکستان شدید خطرات سے دوچار ہے کیونکہ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ معاشی صورتحال انتہائی کمزور دکھائی دے رہا ہے، سست عالمی نمو اور یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں عالمی سطح پر مزید اضافے کے سبب بھی خطرات درپیش ہیں۔رپورٹ میں رواں مالی سال اوسط مہنگائی کی شرح 27.5 فیصد جبکہ آئندہ برس 15 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو صارفین کی قوت خرید پر اثرانداز ہوگی اور ملکی سطح پر طلب میں کمی کا سبب بنے گی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز عالمی بینک نے پاکستان کی رواں سال کی شرح نمو کی پیش گوئی بہت زیادہ کم کرتے ہوئے کہا تھا کہ سخت مالی حالات اور محدود مالیاتی گنجائش کی وجہ سے ملک کی معاشی ترقی کے امکانات کمزور ہو گئے ہیں۔ ورلڈ بینک اب توقع کرتا ہے کہ پاکستان کی معیشت رواں سال میں 0.4 فیصد بڑھے گی جب کہ اکتوبر میں اس نے پیش گوئی کی تھی کہ جی ڈی پی 2 فیصد کی شرح سے بڑھے گی۔پاکستان کی برآمدات میں مسلسل ساتویں مہینے تنزلی ہوئی جو مارچ میں سال بہ سال 14.76 فیصد کم ہو کر 2 ارب 36 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی، جس کی وجہ سے برآمدی شعبے میں ملازمین کی چھانٹی کا خدشہ ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات (پی بی ایس) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 23-2022 کے ابتدائی 9 مہینوں (جولائی تا مارچ) میں برآمدات 9.87 فیصد کمی کے بعد 21 ارب 4 کروڑ ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اس مدت میں 23 ارب 35 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔برآمدات میں کمی کی بنیادی وجہ اندرونی و بیرونی عوامل ہیں جس کی وجہ سے خاص طور پر ٹیکسٹائل کے صنعتی یونٹس کی بندش کے خدشات جنم لے رہے ہیں ٹیکسٹائل کا شعبہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان لانے والا اور سب سے زیادہ افرادی قوت کو روزگار فراہم کرنے والا شعبہ تصور کیا ہے اگر یہ شعبہ ہی تنزلی کا شکار ہوگیا تو ملک کی گرتی معیشت ایک مضبوط ستون سے محروم ہوجائے گی۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 2023 میں جولائی سے مارچ کے درمیان ہمارا تجارتی خسارہ 35.5 فیصد کمی کے بعد 22 ارب 90 کروڑ ڈالر رہا جو پچھلے سال اسی مدت میں 35 ارب 50 کروڑ ڈالر تھا، مارچ میں سالانہ بنیادوں پر تجارتی خسارہ 59.75 فیصد تنزلی کے بعد ایک ارب 46 کروڑ ڈالر پر آ گیا۔برآمدات میں منفی نمو رواں مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں شروع ہوئی جبکہ برآمدات میں کمی ایک تشویشناک عنصر ہے، جو ملک کے بیرونی کھاتے میں توازن پیدا کرنے میں مسائل پیدا کرے گا۔ٹیکسٹائل سیکٹر جس کا ملکی برآمدات میں 60 فیصد حصہ ہے، اس میں کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے لیے رواں مالی سال میں برآمدی ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ خرم مختارکا کہناہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات وفاقی حکومت کی حکمت عملی کے فقدان اور مؤثر طریقے سے ترجیحات نہ دینے کا نتیجہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ حکمراں روزانہ کی بنیاد پر حکومت چلا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ برآمدات میں تنزلی کی بنیادی وجہ میں سرمائے کی قلت، ریفنڈز کا پھنسنا جیسا کے سیلز ٹیکس، مؤخر سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، مقامی ٹیکسز اور لیویز پر ڈیوٹی ڈرا بیک، ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے کا فنڈ اور ڈیوٹی ڈرا بیک شامل ہے۔بدقسمتی سے ریفنڈ کا تیز تر نظام منصوبے کے مطابق کام نہیں کر رہا ہے، اب ریفنڈز میں 72 گھنٹے کے بجائے 3 سے 5 مہینے لگتے ہیں، اس کے علاوہ اس برآمدی شعبے کو مالیاتی اور توانائی کی لاگت میں نمایاں اضافے کا بھی سامنا ہے۔ ان مسائل کو حل کیے بغیر ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے خطے کے ممالک سے لاگت کے حوالے سے مسابقت کرنا اور برآمدات کو دوبارہ ٹریک پر لانا ناممکن ہوجائے گا، یہ بات یقیناً باعث تشویش ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ روزگار دینے والے شعبے کو حکومت کی جانب سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔جبکہ برآمد کنندگان کا کہناہے کہ برآمدکنندگان کے لیے خام مال کی درآمد کے لیے آرڈرز دینا مشکل ہو گیا ہے، اسٹیٹ بینک نے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں مشکلات پیدا کر دی ہیں جس کے نتیجے میں برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ ملک میں سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتحال کے سبب خریداروں نے آرڈرز روک رکھے ہیں،حکومت اور بیرون ملک پاکستان کے سفارتکار اس ضمن میں کچھ نہیں کررہے ہیں جبکہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کو غیر ملکی خریداروں کو واضح پیغام دینا چاہیے کہ ان کے آرڈرز کی ڈیلیوری وقت پر ہوگی۔ایک طرف ملکی برآمدات سسکیاں لے رہی ہے دوسری طرف ہمارے وزیر اعظم کے پاس برآمد کنندگان سے ملاقات کرکے ان کے مسائل سننے اور ان کے حل کا راستہ تلاش کرنے کیلئے تجاویز لینے کی فرصت نہیں ہے برآمد کنندگان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے برآمدکنندگان کے ساتھ طے شدہ 4 اجلاس منسوخ کر دیے۔جبکہ یہ ایک حقیقت ہے صرف برآمدات بڑھا کر ہی ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭