7اپریل ،عالمی یوم صحت ‘ ڈپریشن:تیزی سے پھیلتا ہوامرض
شیئر کریں
nڈپریشن کی خاص علامات مےں مستقل پریشانی، سستی، کمزوری، سر درد، تھکاوٹ، بے چینی اور نا امیدی شامل ہےں، خواتین میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی شرح مردوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ nاس حالت میں مریض کو ماحول اور حالات تبدیل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے،نیند کا خاص خیال رکھنابھی ضروری اورمایوسی کے توڑ کے لیے ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے
ڈاکٹر سیدہ صدف اکبر
7 اپریل کو پوری دنیا میں صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں صحت کے مختلف پہلوﺅں کے بارے میں آگہی دی جاتی ہے اورصحت کے عالمی مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
2017 میں صحت کے عالمی دن کو ڈپریشن کے بارے میں جاننے کےلئے مختص کیا گیا ہے، ڈپریشن جو پوری دنیا میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے فرد کو متاثر کرسکتا ہے، اسے ہم عُرفِ عام میں اداسی اور مایوسی بھی کہتے ہےں۔ جب یہ مایوسی اور اداسی کا غلبہ بہت دنوں تک رہے اور اس کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روز مرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں اور فرد ایک خول میں بند ہوکر رہ جائے تو اسے ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔
بعض حالتوں میں ڈپریشن کی کوئی خاص وجہ نہےں ہوتی ہے مگر مریض پر اس کے دورے اتنے شدید ہوتے ہےں کہ مستقل مایوسی اور اداسی کی کیفیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ان کو علاج اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈپریشن کی خاص علامات مےں مستقل پریشانی، سستی، کمزوری، سر درد، تھکاوٹ، بے چینی اور نا امیدی شامل ہےں۔ ڈپریشن کی بیماری کا علاج ہر فرد کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے، بعض لوگوں کو اس مایوسی کی حالت میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ،اپنے پیاروں کواپنے جذبات اور احساسات سناکر، مل بانٹ کر طبیعت میں بہتری محسوس ہوتی ہے جبکہ کچھ افراد اپنے جذبات اور احساسات اپنے علاوہ کسی دوسرے فرد سے بانٹ نہےں سکتے اور اپنی ذات کے خول میں بند ہوکر اس ڈپریشن کے عفریت کے شکنجے میں مزید پھنستے چلے جاتے ہےں۔
ڈپریشن کی حالت میں بعض حالات میں ماہر نفسیات سے مشورہ کرنا اور اس سے اپنے دل کی بات شیئر کرنا زیادہ آسان اور فائدہ مند ہوتا ہے۔ سائیکو تھراپی کے ذریعے علاج میں وقت لگتاہے اور بہت زیادہ شدید ڈپریشن کی کیفیت میں ڈاکٹر مریض کو مایوسی ختم کرنے والی ادویات بھی تجویز کرتے ہےں، جس سے آہستہ آہستہ مریض کی اداسی اور یاسیت میں کمی آنے لگتی ہے اور زندگی جینے کی طرف مائل ہونے لگتی ہے۔ ڈپریشن کی حالت میں مریض کو ماحول اور حالات تبدیل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے اور ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ بیماری، ہر اداسی اور غم کا علاج صرف اور صرف اس کائنات کے مالک کے پاس ہے جو اپنے بندوں سے ستر ماﺅں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔
ڈپریشن جیسے موذی مرض سے بچنے کے لیے اپنے روز مرہ کے معاملات میں تبدیلیاں لانے کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے، نیند کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ رات کو جلدی سونے اور صبح سویرے اٹھنے کی عادت اپنانی چاہیے اور نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کو معمول بنالیں۔ اس کے ساتھ صبح کی سیر اور ہلکی پھلکی ورزش کو بھی اپنا معمول بنالینا چاہیے اور اسی کے ساتھ ساتھ اجتماعی صحت کا بھی خیال رکھیں۔ لوگوں کی مدد کریں، اپنے آپ کو مختلف تفریحی سرگرمیوں میں شامل کریں کیوں کہ ڈپریشن کا عفریت زیادہ تر فارغ اوقات اور خالی دماغ پرحملہ آور ہوتا ہے، جس سے بچنے کے لیے اپنے دماغ کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ مختلف سرگرمیوں مثلاً لکھنے لکھانے کی عادت، پینٹنگ، کوکنگ، فلاور میکنگ، سوشل ورکنگ، باغبانی، درس وتدریس سے آہستہ آہستہ مریض خود کو حالت سکون اور اطمینان میں محسوس کرنے لگتا ہے۔
ڈپریشن در حقیقت ایک ذاتی نوعیت کا مرض ہے جس کے مختلف طبقہ ہائے افراد سے تعلق رکھنے والے لوگو ں میں وجوہات اور پھر علاج قدرے مختلف ہوتے ہےں، کبھی کبھی ڈپریشن اور مایوسی کی وجہ موروثی عوامل بھی ہوتے ہےں یعنی موروثی طور پر جسمانی لحاظ سے کمزور اور نازک افراد نسبتاً زیادہ جلدی قنوطیت کا شکار ہوجاتے ہےں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو گھروں، دفتروں کی مختلف پریشانیاں بھی ڈپریشن کا مریض بنادیتی ہےں جوپھر ہائی بلڈ پریشر، دل کی مختلف بیماریاں، گردے کی بیماریاں اور کینسر جیسے مختلف عوارض میں مبتلا ہوجاتے ہےں۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ذہنی دباﺅ، ڈپریشن بعض اوقات سرطان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ مسلسل ذہنی دباﺅ کے شکار افراد میں ٹیومر کے نشونما کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور پھر کوئی بھی ذہنی صدمہ یا جسمانی نقصان سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔
عام طور پر خواتین میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی شرح مردوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہوتی ہے اور زیادہ تر25سے45 سال کی عمر کی خواتین اس کا زیادہ شکار ہوتی ہےں، جس سے مختلف وجوہات یعنی مختلف ہارمونز کی تبدیلیوں کی وجہ سے خواتین کے مزاج میں بھی تیزی سے تبدیلیاں آتی ہےں اور اس کے علاوہ خواتین کو معاشرتی طور پر بھی ایسے بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ جلدی اس عفریت کا شکار ہوجاتی ہےں۔
ڈپریشن کی حالت میں عام طور پر سر میں درد اور بے چینی شروع ہوجاتی ہے، معدے کی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وزن میں اچانک کمی آنے لگتی ہے اور مریض جلدی بڑھاپے کی طرف بڑھنے لگتا ہے، سر کے بال سفیدہونے لگتے ہےں اورگرنے بھی لگتے ہےں۔
نیند کی کمی کے باعث مزاج میں چڑچڑاپن اور سستی پیدا ہونے لگتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جسمانی وزن میں کمی بھی ڈپریشن کا باعث بنتی ہے، وزن میں کمی سے کچھ لوگ خوش نہےں ہوتے بلکہ وہ خود کو اداس اور سست محسوس کرنے لگتے ہےں اور کھانے سے رغب ختم ہوجاتی ہے جس سے ان کا بلڈ پریشر کم ہوجاتا ہے اور پھر اس سے مزاج پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہےں اور وزن میں کمی سے ڈپریشن اور مایوسی میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہےں۔
ڈپریشن کی حالت میں بازار کے چکنائی سے بھرپور، غیرمعیاری کھانوں سے گریز کرنا چاہیے اور کیفین اور الکوحل جیسی نقصان دہ چیز سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔ ہری سبزیاں مثلاً پالک، مٹر، سلاد کے پتے کھانے سے ڈپریشن میں کمی ہوتی ہے اور ہری سبزیوں کے استعمال سے ڈپریشن کے مرض میں پچاس فیصد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو خاندان کے ساتھ رہتے ہیں ان کی ذہنی اور جسمانی صحت ان لوگوں کے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہوتی ہے جو کہ اکیلے رہنا پسند کرتے ہےں۔ اےسے افراد جو ڈپریشن سے پہلے مایوسی اور اداسی کا شکار رہتے ہےں ان میں چونکہ ڈپریشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے،اس لیے ان کے گھر والوں کو چاہیے کہ ایسے افراد کو اکیلا نہ چھوڑیں۔ ان سے باتیں کرنا اور ان کی مشکل اور پریشانیوں کے بارے میں بات کریں۔ مریض کو تسلی وتشفی دینی چاہیے اور ماحول اور حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور مرض کی شدت میں اضافہ ہونے کے باعث فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر ڈپریشن کا بر وقت علاج نہ کیا جائے تو یہ مزید مسائل کو جنم دے سکتا ہے اور پھر خدانخواستہ اس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔