میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تین حاکم، کئی کہانیاں

تین حاکم، کئی کہانیاں

ویب ڈیسک
جمعه, ۷ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

ظفر الطاف مرکزی حکومت میں ڈپٹی سیکرٹری کیبنٹ تھے ۔ضیاالحق کی کیبنٹ کی کارروائیاں اور ان کا ریکارڈ رکھنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔کابینہ کے اجلاس سے لوٹتے تو بہت مایوس دکھائی دیتے تھے۔حکومت نے نیاز نائیک کی جگہ پر اکاﺅنٹس گروپ کی گلزار بانو کو سب سے اہم عہدے پر سیکرٹری کیبنٹ لگا دیا تھا۔ نیاز نائیک نے کچھ دن پہلے جنرل فیض علی چشتی کا یہ مطالبہ کہ سول سروس میں فوجی افسران کا کوٹا پانچ فیصد سے دس فیصد تک بڑھایا جائے ،نہ مان کر اپنے لیے اس اہم عہدے سے علیحدگی کا راستہ چن لیا تھا۔ضیا الحق کے مارشل لاءکے آتے ہی سول سروس میںچور دروازے سے داخل ہونے والے جرنیلوں کے داماد اور اے ڈی سی گروپ کی بڑی تعداد اس سول سروس کے مزے لوٹنا چاہتی تھی۔اس مقصد عظیم کی تکمیل کے لیے بطور سہولت کارایسے افسران کا بطور سیکرٹری انتخاب کیا گیا جنہیںبوقت ولادت شیر مادر میں”آمَنّا وصَدَّقنا“ کا شہد ملا کر دیا گیاہو۔ ان پیران ِپیر قسم کے گھس بیٹھیے افسران کی آمد پرنوجوان افسران ان دنوں ریلوے اسٹیشن کے ساتھ واقع پرانی بلڈنگ میں فلم انارکلی کے وہ مشہورِ عالم گیت معمولی سی ترمیم سے گنگناتے دکھائی دیتے تھے کہ
یہ زندگی اُسی کی ہے جو چشتی کا ہوگیا
ظفر الطاف صاحب نے اس موقع پر راہِ فرار یوں اختیار کی کہ برمنگھم یونی ورسٹی میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے چلے گئے،وہ نفسیات میں گولڈ میڈلسٹ تھے،سی ایس پی تھے۔
دو سال بعد کامیاب لوٹے تو نام میں ڈاکٹر کا اضافہ ہوچلا تھا۔ قابل، غریب پرور اور گونا گوں دل چسپیوں سے آراستہ تو ہمیشہ سے تھے مگر افسر اعلیٰ مقام کا ذہن اور زبان تحقیق کے ساتھ ساتھ تلخی سے بہت کٹیلی اور کمر مسلسل لائبریریوں میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے کی وجہ سے بہت دن تک دوہری دکھائی دیتی تھی۔کلیتاً مزاج ایسا ہوچلا تھا جو پاکستانی فلم امراﺅ جان میں نواب سلیم سے کوٹھے پر موجود شوخ و چنچل شگفتہ نے امراﺅ جان کے مزاج کی اداسی کی وضاحت کرتے وقت بیان کیا تھا کہ
©” پہلے امیرن تھیں، پھر امراﺅبنیںخیر سے پھر امراﺅ جان پکاری جانے لگیں اور اب امراﺅ جان ادا کہلاتی ہیں۔ نواب صاحب اللہ رکھے ، نام جوں جوں بڑھتا گیا خوشی یوں یوں گھٹتی گئی©©“۔
واپس آن کر پنجاب میں چیف اکنامسٹ لگ گئے۔اس دوران صحافت کے گرو گھنٹال ظفر صمد انی سے ملاقات ہوئی جو فرنٹیئر پوسٹ کے چیف ایڈیٹر تھے۔انہوں نے کالم نگاری کی طرف رغبت دلائی اور جنوں اور محبت کے آثار دیکھ کر رﺅف کلاسرا نے بھی دیوانہ بنانے میں کسر نہ چھوڑی اور کریم کیک پر اسٹرابری کا پورا ٹرک انڈیلنے کا کام غلام اکبر نے کردیا۔ڈاکٹر صاحب کی صلاحیت کے غریب اور مواقع پرست عناصر دلد داہ،اور ان کے ہم پیشہ و ہم پلہ افسران ہمیشہ سے شاکی تھے۔کم بخت رقیب جا جاکر کبھی وزراءتو کبھی دیگر اہلیان اقتدار کے پاس رپٹ لکھواتے تھے کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں۔نیم خواندہ بیوروکریسی ان کے انگریزی کالموں سے سیاق و سباق سے جدا فقرے نکال کر کونڈا لیزا رائس سے ڈانٹ یافتہ شوکت عزیز کو سناتے تھے۔
ظفر صاحب کو جنرل جیلانی (گورنر پنجاب) نے چاہا بہت، نوازا بالکل نہیں ۔نوازنے کے لیے ان کی نگاہ انتخاب نواز شریف پر کچھ ایسی چسپاں ہوگئی کہ
اٹھتے نہیں تھے ہاتھ ان کے اس دعا کے بعد
ڈاکٹر صاحب ایک دن کالم میں تین حاکمین کا احوال بیان کرنے بیٹھ گئے،یہ موازنہ¿ انیس و دبیر تھا۔ تینوں کے ساتھ انہوں نے فرائض سرکاری سرانجام دے کر بقول داغ دہلوی
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
یہ تین حاکمین بے نظیر بھٹو صاحبہ، اعلیٰ حضرت نواز شریف صاحب اور افسر عالی مقام جنرل پرویز مشرف تھے۔تینوں کا امور حکومت چلانے کا طور طریقہ اور سرکاری پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کا معاملہ ایسا تھا کہ مملکت میں
نہ جنوں رہا نہ پری رہی
وزیر اعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ کا اسٹائل افسروں سے بظاہر تصادم والا ہوتا۔وہ انہیں ان کے خول سے اور ان کے حلقہءہائے سہولت سے جلد کھینچ کر باہر نکال لاتی تھیں۔کیبنٹ میٹنگ کا آغاز ، تلاوت کے فوراً بعد وہ کسی سیکرٹری کی لترول سے ہوتا۔اس کی شہہ عموماً ان کے پرنسپل سیکرٹری دیا کرتے تھے یا کوئی ایسا معاملہ یوں سامنے ہوجاتا کہ وزرات کے سیکرٹری کے لیے چھپائے نہ چھپتا اور بنائے نہ بنتا۔سندھ میں بہت دن تک ایڈیشنل آئی جی رہنے والے ایک صاحب کو جب بھٹو خواتین فرانس میں جلاوطنی کے ایام کاٹ رہی تھیں، ان کی جاسوسی پر متعین کیا گیا تھا۔حضرت وہاں کانز ،نیس اور پیرس سے جیسی تیسی رپورٹیں بھجواکر مزے لوٹتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کو کئی افسروں کے کاندھوں پر سے چھلانگ لگا کر فیڈرل سیکرٹری زراعت بننے کا موقع اس وقت ملا جب ان کے پیش رو افسر کو نیند نے دوران میٹنگ اپنی تسکین بھری آغوش میں سمیٹ لیا۔وزیر اعظم نے اس پیر خوابیدہ سے سوال پوچھا تو یہ حضرت وزیر اعظم صاحبہ سے سوال دہرانے کی زحمت کرنے کا مطالبہ کرنے کی جسارت کربیٹھے ۔ افسر عالی مقام جن کا تعلق وزیر اعظم کے صوبے سے ہی تھا، انہیں کابینہ کے پہلے باقاعدہ اجلاس میںسونے کا توکل اور اعتماد اس لیے میسر آگیا کہ
اپنے ذبح بھی کرتے ہیں تو پانی پلا کر
میٹنگ کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب کے جو اس وقت پاکستان زراعتی تحقیقاتی ادارے کے پہلے سی ایس پی چئیرمین تھے ،انہیں ان معتوب افسر کی جگہ سیکرٹری لگانے کا حکم جاری ہوگیا۔اس حکم سے بے رحم بیوروکریسی میں کھلبلی مچ گئی۔ڈاکٹر صاحب سینیارٹی میں نچلے نمبر وں پر تھے۔
وزیر اعظم کو اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا تو فرمانے لگیں کہ میں نے یہ فیصلہ کیلنڈر دیکھ کر نہیں صلاحیت دیکھ کر کیا ہے۔وزیر اعظم صاحبہ کو بھی اپنی جدوجہد،پس منظر، تعلیمی صلاحیتوں پر ناز تھا ۔وہ دلیر لوگوں کی قدر کرتی تھیں ۔ جب وہ مخاطب پر جارحانہ انداز میں دلائل کے وار کرتی تھیں تو وہ دو طرح کی توقعات رکھتی تھیں: مدافعت اور مقابلہ یا پسپائی اور اعتراف شکست۔
ایک میٹنگ کے آغاز پر وہ علی الصبح جب سمریوں کا پلندہ تھامے بلائے گئے تو وزیر اعظم صاحبہ خوش گوار مگر پر تشدد موڈ میں تھیں ،پتلون سے باہر نکلی قمیص کا کونا دیکھ کر فرمانے لگیں کہ آپ میرے سیکرٹری صاحبان میں لباس کے معاملے میں سب سے زیادہILL-DRESSED ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے بلا توقّف نشست پر براجمان ہونے سے پہلے مائیک پر جھک کر جواب دیا ” اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی فائلوں پر زیادہ اور لباس پر کم توجہ دیتا ہوں“۔وہ مسکرائیں اور پھر وزارت زراعت کے اس اجلاس میں ہر تجویز منظور ہوتی چلی گئی۔
ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ وزیر اعظم صاحبہ عوام سے بہت جڑی رہتی ہیں۔ ان کے منتخب نمائندے انہیں اپنے حلقے کی بہت معمولی جزئیات سے بھی آگاہ رکھتے تھے۔وہ بہت باخبر لیڈر تھیں۔سپیڈ ریڈنگ کی وجہ سے ان کا مطالعہ ہر سطح پر بہت پھیلاﺅ رکھتا تھا۔
بعد میں وزیر اعظم بننے والے نواز شریف سے ڈاکٹر صاحب کی لاہور سے واقفیت تھی جس میں کرکٹ کا بھی بہت رول تھا۔ڈاکٹر صاحب ان دنوں پاکستان کرکٹ بورڈ سے بھی منسلک رہے تھے جب پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا ۔وزیر اعظم نواز شریف پر ان کے والد کی شخصیت کا اثر بہت گہرا تھا۔ریاست کے بعض طے شدہ فیصلے تک والد صاحب کی مداخلت پر تبدیلی کا شکار ہوجاتے تھے۔بطور وزیراعظم ان سے ڈاکٹر صاحب کو علمی ادراک اور توجہ کی ہمیشہ شکایت رہی۔ان میں صوبے کی محبت ہر شے پر غالب تھی اور وہ اپنے سے وابستہ سیاسی اور غیر سیاسی افراد میں سگان وفا کی خصلت کے طلبگار رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ایک بھولے بسرے کالم
A Rare Comparison of Three Styles of Governance and Loyalty
Working with Benazir, Nawaz and Musharraf
میںلکھتے ہیں:بھٹو صاحب نے ان کے خاندان سے ان کی ملوں کو قومیا کر کچھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ یہ بات ایک آتش انتقام بن کر ان کے مزاج کا خاصہ بن گئی۔ بطور فاتح وہ بے رحم اور بطور مفتوح وہ انکسار اورطوق جبر سے گلو خلاصی کے لیے کسی بھی سطح تک جانے کو تیار رہتے تھے۔(باقی آئندہ)
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں