2070ءتک اسلام دنیا کا سب سے بڑا اور مقبول مذہب بن جائے گا
شیئر کریں
٭ 62 فیصد مسلمان ایشیا اور بحر الکاہل کے خطے میں آباد ہیں، مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی انڈونیشیا، بھارت ،پاکستان،بنگلہ دیش ، ایران اور ترکی میں ہے
٭رپورٹ کے مطابق 2050 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 10 فی صد سے بھی تجاوز کرجائے گا،دنیا بھر میں مسلمان عیسائی آبادی کے مقابلے میں زیادہ ہو جائیں گے
جولین رابن سن
امریکا میں دنیا بھر کے مذاہب کی مقبولیت اور ان میں توسیع وترویج کی رفتار کے حوالے سے ہونے والی تازہ ترین ریسرچ رپورٹ میں دعویٰ کیاگیاہے کہ 2070 ءتک اسلام دنیا کا سب سے بڑا اور مقبول مذہب بن جائے گا۔ریسرچ رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ یورپ اور امریکا میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ریسرچ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیاہے کہ 2100 میں تاریخ میں پہلی مرتبہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے بڑھ جائے گی۔ یہ ریسرچ رپورٹ امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم پیو ریسرچ سینٹر نے تیار کی ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر نے انکشاف کیاہے کہ 53 سال کے اندر دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی تعداد برابر ہوجائے گی۔جبکہ 2100 میں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے کم وبیش ایک فیصد تجاوز کرجائے گی۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ شمالی امریکا اور یورپی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ مسلم آبادی کی امیگریشن میں اضافہ ہے ۔واشنگٹن ڈی سی میں قائم پیو ریسرچ سینٹر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسلام دنیا بھر میں تیزی سے مقبولیت حاصل کررہاہے ۔رپورٹ کے مطابق 2010 میں دنیا بھر میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد کم وبیش 1.6 بلین یعنی ایک ارب 60 کروڑ تھی جو کہ دنیا کی مجموعی آبادی کے 23 فیصد کے مساوی تھی جبکہ 2010 میں دنیا بھر میں عیسائیوں کی تعداد 2.2 بلین یعنی 2 ارب20 کروڑ تھی جو کہ دنیا کی مجموعی آبادی کے 23 فیصد کے مساوی تھی۔
ریسرچ رپورٹ میں مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے اسباب کاذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیاگیا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کاایک بڑا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مقابلے میں بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، ریسرچ رپورٹ کے مطابق مسلمان خواتین کے بچوں کاتناسب اوسطاً 3.1 بچہ فی خاتون ہے جبکہ دیگر تمام مذہبی گروپوں کے بچوں کا مجموعی تناسب 2.3 فی خاتون ہے ۔
ریسرچ رپورٹ کے مطابق 2010 میں مسلمانوں میں شادی کی عمر اوسطاً23 سال تھی جو کہ دیگر غیر مسلم گروپوں کے مقابلے میں 7 سال کم ہے۔رپورٹ میں دعویٰ کیاگیاہے کہ 2050 میں مسلمانوں کی آبادی میں 2010 کے مقابلے میں 73 فیصد اضافہ ہوچکاہوگا جبکہ اس دوران عیسائیوں کی تعداد میں صرف 35 فیصد اضافہ متوقع ہے،اسی طرح اس عرصے میں ہندوﺅں کی تعداد میں 34 فیصد ،یہودیوں کی تعداد میں 16 فیصد ،مقامی مذاہب ماننے والوں کی تعداد میں 11 فیصد ،لامذہبوں کی تعداد میں 9 فیصد اور دیگر مذاہب کی آبادی میں 6 فیصداوربدھسٹوں کی آبادی میںمنفی0.3 فیصد اضافہ متوقع ہے۔پیو کی ریسرچ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اگرچہ اس سے عالمی آبادی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی لیکن مسلم آبادی کی نقل مکانی کی وجہ سے بعض علاقوں جن میں شمالی امریکا اور یورپ کے ممالک شامل ہیںمسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ریکارڈ کیاگیاہے۔
رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ 62 فیصد مسلمان ایشیا اور بحر الکاہل کے خطے میں آباد ہیں جبکہ مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی انڈونیشیا، بھارت ،پاکستان،بنگلہ دیش ، ایران اور ترکی میں ہے۔ 2050 تک بھارت میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی انڈونیشیا میں مسلمانوں کی آبادی سے تجاوز کرجائے گی جبکہ اس وقت انڈونیشیا مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔
رپورٹ میںیہ بھی بتایاگیاہے کہ گزشتہ سال امریکا میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد امریکا کی مجموعی آبادی کے ایک فیصد کے مساوی تھی ۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال امریکا میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد 3.3 ملین یعنی 33 لاکھ تھی۔جبکہ پیشگوئی کے مطابق 2050 میں امریکا میں مسلمانوں کی آبادی کاتناسب 2.1 فیصد تک ہوجانے کاا مکان ہے۔جبکہ 2050 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 10 فی صد سے بھی تجاوز کرجائے گا۔
دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ اور اگلی نصف صدی میں دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے تجاوز کرجانے کے حوالے یہ رپورٹ خوش آئند ہے اور اس پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو خوش ہونا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں ، ماہرین تعلیم اور دانشوروں کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا اگلی نصف صدی کے اندر مسلمان دنیا بھر کی قیادت سنبھالنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائےں گے ،یا تعداد کے اعتبار سے زیادہ اورتیل سمیت دنیا کے قیمتی ترین معدنی وسائل،اور دنیا کی ذہین ترین اورمحنتی وجفا کش افرادی قوت کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود بڑی طاقتوں کی غلامی ان کا مقدر بنی رہے گی ، یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر مسلمان کی روح کو جھنجھوڑ دینے کیلئے کافی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلم حکمراں اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار ہیں یا اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد اور اعانت کرنے کے بجائے غیر مسلموں بلکہ مسلمانوں کے ازلی دشمنوں کا ساتھ دیتے رہنے کو ہی ترجیح دیں گے؟یہ ایسا سوال ہے جس کے منفی یا مثبت جواب میں ہی مسلمانوں کامستقبل پنہاں ہے۔