میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یوم یکجہتی کشمیر کے تقاضے!

یوم یکجہتی کشمیر کے تقاضے!

ویب ڈیسک
بدھ, ۷ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود
۔۔۔۔۔

پاکستان میں ہر سال پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ بھارت کھلے عام اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کر کے کشمیریوں کے حقوق کی کھلے عام پامالی کر رہا ہے۔ اس پر عالم اسلام سمیت تمام عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے جس نوعیت کی خاموشی کا مظاہرہ کیا ہوا ہے۔ وہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ برائی کا خاتمہ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے تو کرو اگر تم اس کی صلاحیت نہیں رکھتے ہو تو اس ظلم اور برائی کے خلاف آواز اٹھاؤ جو کہ تمہارے ایمان کا دوسرا درجہ ہے۔ اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم اسے دل میں برا کہو جو کہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کہ ایمانی درجہ بندی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے اور ان کا یہ فرمان ہے کہ کوئی خوددار ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی شہ رگ دشمن کے حوالے کر دے۔ بھارتی قابض افواج نے مقبوضہ کشمیر میں اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 94 ہزار 888 کشمیریوں کو شہید کر دیا ہے جبکہ 1990 کے بعد بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں 70 ہزار 99 افراد دوران ِحراست شہید کیے گئے۔ اس عرصے میں ایک لاکھ 43ہزار 48 افراد کو گرفتار کیا گیا۔جبکہ ایک لاکھ 596 رہائشی مکانوں اور دیگر تعمیرات کو نذر آتش کیا گیا۔ لاپتہ شہریوں کے لواحقین نے ماضی میں کٹھ پتلی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے ۔ جسے کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ قابض بھارتی فوج نے خواتین کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اب تک 11 ہزار 36 خواتین کی عصمتوں کو پامال کیا گیا جولائی 2016 میں برہان وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں ایک کارروائی کے دوران شہادت کے بعد کشیدگی میں تحریک انتفادہ نے ایک نیا رخ اختیار کیااور لوگ قابض بھارتی سامراج کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے بھارتی تسلط کے خلاف بھرپور رد عمل کا اظہار کیا جس نے کشمیر کی تحریک آزادی میں ایک نئی جان ڈال دی۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں سینکڑوں لوگوں کو شہید کیا گیا اور 20 ہزار 873 افراد کو زخمی کیا گیا۔ اس عرصے میں بھارتی فوج نے نہتے نوجوانوں پر مہلک پیلٹ گنوں کا بے دریغ استعمال کیا۔ پیلٹ گنوں کے استعمال سے 8355 کشمیری نوجوان زخمی ہوئے جن میں 974 نوجوانوں کی دونوں انکھیں متاثر ہوئیں ۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد18940افراد کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ ان میں سے 818 کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں بند کیا گیا۔ 2017 میں قابض افواج اور مقبوضہ کشمیر کٹھ پتلی انتظامیہ نے بھارتی حکومت کے احکامات پر حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند قائدین اور سرگرم رہنماؤں کو تحقیقاتی ادارے میںمن گھڑت مقدمات کے تحت گرفتار کیااور وہ اس وقت نئی دہلی سمیت کئی جیلوں میں غیر قانونی طور پر نظر بند ہیں۔یہ سب کچھ انہیں خاموش کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے تاہم ایسے حربے کشمیریوں کو منزل سے دور نہیں کر سکتے۔ کشمیری عوام 1947 سے بالعموم اور نوے کی دہائی سے بالخصوص آزادی کے لیے قربانی دے رہے ہیں جو کشمیریوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔
بھارتی قابض افواج اس عرصے کے دوران مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی پامالیوںاور کالے قوانین کا نفاذ کرکے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا باعث بن رہی ہیں۔ بھارت کا یہ دعویٰ ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں بھارتی فوج کا انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ بہتر ہے جبکہ اصل حقائق اس کے برعکس ہیں۔ کشمیر میں گزشتہ 28 برس کے دوران ایک لاکھ سے زائد شہری شہید اور 10 ہزار لاکھ پتہ ہو چکے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کی حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد محض 4ہزار ہے کشمیر کی طول و عرض میں گزشتہ 28 برس کے دوران 500 سے زائد مزار شہداء برباد ہو چکے ہیں اور ہزاروں کشمیری گمنام قبروں میں آسودہ خاک ہیںجو بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا واضح ثبوت ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے کئی بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کی ابھی تک تحقیقات نہیں ہوئی ۔21جنوری 1990 ء کو سری نگر کے علاقے گانو قدر میں بھارتی قابض افواج نے 52 معصوم کشمیریوں کو شہید کیا ۔اس قتل عام کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ محض چار دن بعد 25 جنوری 1990 کو شمالی کشمیر کے ہندواڑا میں بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے ہاتھوں ستر نہتے اور معصوم کشمیریوں کو ابدی نیند سینلا دیا گیا۔اس وقت کشمیر میں تحریک آزادی عروج پر تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں لاپتہ افراد کے لواحقین ، حصول انصاف کے لیے بھارتی سپریم کورٹ مقبوضہ کشمیر ہائی کورٹ ما تحت عدالتوں بھارت کے انسانی حقوق کی قومی کمیشن اور مقبوضہ کشمیر کے نام نہاد اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن سے رجوع کر چکے ہیں۔لیکن آج تک لاپتا افراد کی گمشدیوں میں ملوث کسی بھی فوجی اہلکار کو سزا نہ دی گئی۔ مقبوضہ کشمیر کٹھ پتلی انتظامیہ اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کی صورت میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات منظر عام پر آئیں گے، بھارت لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر 2003 میں طے پانے والی جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں کر کے آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کی شہری آبادی کو بلا جوازفائرنگ کا نشانہ بناتا رہتا ہے ۔گزشتہ دو سال کے دوران ان علاقوں میں بڑی تعداد میں معصوم شہری بھارتی جارحیت کا شکار ہو چکے ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدہ تعلقات سے جنوبی ایشیا کا پورا خطہ متاثر ہوا ہے عالمی طاقتوں نے بھارت اور پاکستان کے مابین ماضی میں کشیدگی اور فوجی تصادم کو روکنے کے لیے ہر ممکن طریقے استعمال کیے لیکن اب تک کی خاموشی نے جنوبی ایشیا کے پورے خطے کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ بھارتی حکومت کشمیریوں کے جدوجہد آزادی کے حق خود ارادیت تسلیم کرنے کے بجائے اسے امن و امان اور اندرونی سلامتی کا مسئلہ قرار دے رہی ہے۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان اور کشمیر کے بارے میں سخت گیر پالیسی اختیار کر لی ہے، جو ایک منظم منصوبہ کا حصہ ہے ۔بھارت نے ماضی میں نائن الیون کے واقعات کی آڑ میں پاکستان کے خلاف جس پالیسی کو اختیار کیا اس کی انتہائی منفی نتائج نے اس وقت بھی پورے خطے کے کو متاثر کر رکھا ہے۔ پاکستان میں بھارتی دہشت گردی سے پورے خطے کا امن متاثر ہوا ہے۔ ان حالات میں پاکستان اپنے دفاع سے کسی بھی صورت غافل نہیں رہ سکتا۔ ہمیں یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ہر سال پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کافی نہیں، بالخصوص ان حالات میں کہ کشمیر کے حوالے سے ہماری کوئی واضح پالیسی ہی نہیں ہے ۔کبھی امریکہ سے اُمیدیں وابستہ کر لی جاتی ہے تو کبھی اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل کرائے تاکہ کشمیریوں کی آزادی ٔ رائے سے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کیا جا سکے۔ المیہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کی منشا کے خلاف کام نہیں کرتا جبکہ او آئی سی کو کشمیر کے مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔اس غمگین صورتحال میں پاکستانیوں کو ہر محاذ پر کشمیریوں کی آواز بننا چاہیے اور انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ بالکل تنا نہیں ہے۔ کشمیر کا بچہ بچہ یہ نعرہ لگا رہا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ ہمیں انہیں یقین دلانا ہوگا کہ پاکستانی خون کا آخری قطرہ بہانے تک کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیریوں کے ساتھ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں