اچھی حکمرانی کے مستند لوازمات
شیئر کریں
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔
آج کل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک میں قدر مشترک اچھی حکمرانی ہے ،دنیا کے سپر پاور امریکا میںصدارتی جمہوری نظام ہے ۔چین میں ایک سیاسی جماعت کی حکومت اور سوشلسٹ نظام ہے اوروہ دنیا کی بڑی معاشی اور سیاسی قوت ہے۔ برطانیہ میں پارلیمانی جمہوری نظام ہے، متحدہ عرب امارات میں بادشاہت ہے ۔چاروںممالک میں اچھی حکمرانی کے کچھ لوازمات موجود ہیں، عمومی طور پر جمہوریت کو مثالی نظام کہا جاتا ہے جہاں انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہو لیکن ناقص حکمرانی جمہوری معاشرے کو بھی ترقی سے روک دیتی ہے اور عوام جمہوریت کے ثمرات سے محروم رہتے ہیں۔ ابتدائی ایام سے ہی پاکستان کی ترقی میں ایک اہم ترین رکاوٹ ناقص حکمرانی ہے۔ ناقص حکمرانی کو اچھی حکمرانی میں تبدیل کرکے ترقی اور خوشحالی کا انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے سیاسی محققین اور مختلف حکومتوں کے طرز حکمرانی کے جائزے کے بعد ایک ایسی معرکتہ الآراء رپورٹ تیار کی ہے جس پر عملدرآمد کے ذریعے کوئی بھی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو بھی بدقسمتی سے ناقص حکمرانی اور بدنظمی کی وجہ سے بدترین مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور دیگر با اثر قوتوں کو اس رپورٹ سے رہنمائی مل سکتی ہے ۔ سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کوبھی اس رپورٹ کا جائزہ لینا چاہیے ۔ رپورٹ کے مطابق ناقص حکمرانی کو معاشروں میں پائی جانے والی تمام برائیوں کی جڑ تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کے عالمی مالیاتی ادارے اور عطیات دینے والی بین الاقوامی تنظیمیں بھی رقومات کی فراہمی کے لیے ایسی شرائط لگاتی ہیں جو اچھی حکمرانی کے لیے اصلاحات کا درجہ رکھتی ہیں۔حکمرانی کے معنی فیصلہ سازی کاعمل اور فیصلوں پر عملدرامد کا موثر(یا غیر مو ثر) طریقہ کار ہے۔ حکمرانی میںحکومت کا ایک کردار ہوتاہے جبکہ دیگر کردارمختلف ممالک میں مختلف ہو سکتے ہیں جس میں با اثر جاگیردار،کسانوں اور مزدروں کی تنظیمیں ، طلبہ تنظیمیں،بڑے صنعتی اور کاروباری ادارے،غیر سرکاری تنظیمیں(این جی اوز)،تحقیقی ماہرین علوم اور ان کے ادارے،مذہبی رہنما، مذہبی جماعتیں،سیاسی جماعتیں اور فوج شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کرداروں میںمیڈیا ،تعلقات عامہ کی وہ تنظیمیں جو قانون سازی پر اثر انداز ہوتی ہیںبعض ممالک میں منظم جرائم پیشہ نیٹ ورک بھی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں حکومت ،فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارو ں کے علاوہ بیشتر کرداروں کو سول سوسائٹی کا حصہ تصور کیا جاتا ہے حکومتی ڈھانچے میں ایک باقائدہ فیصلہ سازی کا بینہ اور دیگررسمی طریقہ کار کے ذریعے سے ہوتی ہے جبکہ دوسری غیر رسمی کچن کابینہ یا مشیروں کے ذریعے ہوتی ہے بعض صورتوں میں شہری علاقوں میں لینڈ مافیا اور دیگر مافیا بھی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ غیر رسمی فیصلہ سازی سے بدعنوانی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اچھی حکمرانی کے آٹھ لوازمات ہیں ،اس میں پہلا عمل معاشرے کے تمام مردوں اور عورتوں کی بھرپور شراکت ہے جس میں مختلف سطح پر فیصلہ سازی کے اداروں کے لیے نمائندوں کومنتخب کرنے اور انتخابات میںحصہ لینے کا حق ہے۔ یہ کام علیٰ الا علان اور انتہائی منظم انداز میں ہونا ضروری ہے، اظہار رائے ، اجتماع اور تنظیم سازی کی اجازت ہودوسرا عنصر قانوں کی حکمرانی ہے۔ اس کے لیے ایک ایسا قانونی اور عدالتی نظام لازم ہے جو منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ہواور اس پر بھرپور عمل درآ مد ہو،انسانی حقوق کا تحفظ ہو،خصوصاً اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہو،پولیس اور قانون نافذ کرنے والے غیر جانب دار، ایماندار،فرض شناس اور ہر طرح کی بدعنوانی سے پاک ہوں۔ اچھی حکمرانی کا تیسرا جز معاشرے کے تمام طبقات کے درمیان اتفاق اور یکجہتی کا مسلسل عمل ہے۔ کسی بھی معاشرے میں مختلف تنظیمیں اور بااثر گروہ مختلف رائے رکھتے ہیں۔ اچھی حکمرانی میں ان سب کے درمیان ثالثی کے ذریعے ایسا اتفاق رائے پیدا کیا جاتاہے جو پورے معاشرے کے مفاد میں ہوتا ہے، ان راہوں کی تلاش کی جاتی ہے جس سے اتفاق رائے کی جانب آگے بڑھا جاسکتاہے ۔اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایک طویل المدتی لائحہ عمل تیار کیا جائے جس میں پائیدار انسانی ترقی کو یقینی بنایا جائے ،اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے واضح حکمت عملی اور منصوبہ بندی تیار کی جائے متعلقہ معاشرے کی تاریخ ،ثقافت اور سماجی صورت حال کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد اس سلسلے میں نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔اچھی حکمرانی کی چوتھی خصوصیت مساوات اور شراکت ہے، لوگوں کی خوشحالی اور بہتری کے لیے لازم ہے معاشرے کے تمام افراد کو اس بات احساس ہونا چاہئے کہ ان کے مفادات اس معاشرے سے وابستہ ہیںاور وہ اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ دار ہیں،معاشرے کے تمام طبقات خصوصاًکمزور طبقات میں شراکت اور برابری کا احساس ضروری ہے ۔پانچواں جزمتاثر کن اور موثر کارکردگی ہے ۔اچھی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ ادارے معاشرے کی ضروریات کے مطابق کام کریں اور وسائل کا موثر استعمال کرکے بہتر نتائج حا صل کریںاور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ قدرتی وسائل ضائع نہ ہو ،ماحولیات پر منفی اثرات نہ ہو اورپائیدار ترقی کا عمل جاری رہے ۔
اس سلسلے کا چھٹا حصہ احتساب کا عمل ہے احتساب کسی بھی معاشرے کی خوشحالی کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ عمل سرکاری اداروں اور حکومت تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ نجی اداروں، سول سوسا ئٹی کی کی تمام تنظیموں اور سیاسی جماعتوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ تمام ادارے اورتنظیمیں اپنے عمل کے لیے متعلقہ لوگوں کے سامنے جوابدہ ہوں ساتواں حصہ شفافیت ہے تمام فیصلے اور اس پر عملدرامد قوائد اور ضوابط کے تحت ہواس کی معلومات تک ان لوگوں کی رسائی کو یقینی بنایا جائے جو اس سے متاثر ہو تے ہیںانتہائی آسان زبان میں میڈیا کو بھی معلومات فراہم کی جائے، رپورٹ کے مطابق ذمہ داری اور فرض شناسی اس کا آٹھواں پہلو ہے تمام ادارے ایک مخصوص مدت میں اپنے کاموں کو ذمہ داری اور فرض شناسی سے انجام دیںاو رتمام متعلقہ افراد کے لیے بلا تشخیص خدمات انجام دیں۔ یہ رپورٹ ایک مثالی معاشرے کے پہلوئوں کو اجاگر کرتی ہے، اس پر مکمل عمل درآمد انتہائی مشکل ہے لیکن آج دنیا بھر میں مقابلے کی دوڑ ہے جو ملک اس سے جتنا
استفادہ کرے گا وہ اتنا ہی مضبوط ،مستحکم اور خوشحال ہوگا پاکستان کا موجودہ انتشار،بدعنوانی،لاقانونیت ،بڑھتی ہوئی آبادی اور غیر مستحکم معیشت سمیت بے شمار مسائل اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ معاشرے کے ذمہ داران چاہے وہ کسی بھی شعبے سے ہو وہ حکومت میں ہوں یا نہ ہو ں اچھی حکمرانی کے لئے اس رپورٹ پرغور کریں، اپنا کردار ادا کریں ،پاکستان میں قومی یکجہتی،قانون کی حکمرانی اور بد عنوانی کا خاتمہ انتہائی مشکل اور پیچیدہ عمل ضرور ہے لیکن کب تک ہم حالات کی رو میں بہتے رہیں گے اور آنے والی نسلوں کو مشکلات اور تباہی میں دھکیل دیں گے ۔