چارلی چپلن
شیئر کریں
دوستو،کامیڈی کی دنیا کے لیجنڈ چارلی چپلن سے کون واقف نہیں۔۔ خاموشی سے ہنسنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔۔بڑ ے بڑے بوٹ، ڈھیلی پینٹ، تنگ کوٹ، ہٹلر جیسی مونچھیں، موٹی موٹی آنکھیں، گھنگھریالے بال، باولر ہیٹ اور ہاتھ میں چھڑی۔ جی ہاں ،چارلی چیپلن خاموش فلموں کا ایسا کامیڈین تھاجس کے نام سے ہی چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔پانچ سال کی عمر میں اسٹیج پر جلوہ گر ہونے والے اس فنکار کو اپنے ہی ملک برطانیامیں کوئی پہچان نہ ملی تو اس نے مفلسی کی زندگی چھوڑ کر نیویارک میں اپنے فن سے خوب نام کمایا۔انہوں نے تقریباً سو فلموں میں کام کیا72 فلمیں لکھیں،7 ڈائریکٹ کیں جبکہ تقریباً 31 فلمیں پروڈیوس کیں، ان کی بطور ڈائریکٹر اور فلمساز 2 فلمیں گولڈ رش اورسٹی لائٹس دنیا میں اب تک بنائی جانے والی 10 بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہیں۔1929 میں پہلی آسکر ایوارڈ تقریب میں انہیں فلم دا سرکس پر بہترین اداکاری، ہدایتکاری، فلمسازی اور اسکرپٹ میں مہارت پر اسپیشل ایوارڈ سے نوازا گیا،انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی ملا اور حکومت برطانیا نے انہیں’سر‘ کے خطاب سے بھی نوازا۔
دنیا میں جب بولتی فلموں کا زمانہ آیا تو وہ ساؤنڈ فلمیں بھی بنانے لگا‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا‘ وہ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی ہو گیا‘ وہ دنیا کے تمام کونوں میں مشہور بھی ہو گیا‘ یہ شہرت اس کے لیے بدنامی لے کر آئی‘ وہ آئے روز کسی نہ کسی اسکینڈل میں پھنس جاتا تھا‘ چار شادیاں کیں‘ پہلی تین شادیاں بری طرح ناکام ہوئیں۔ایک بیوی جاتے جاتے اس کی ساری دولت بھی لے گئی‘ چوتھی اور آخری شادی اونا اونیل کے ساتھی کی‘ یہ شادی کامیاب رہی‘ چارلی نے اس دوران اپنا اسٹوڈیو اور کمپنی بنائی‘ اس نے 1951ء میں ’’لائم لائیٹ‘‘ بنائی‘ یہ فلم 1952ء کے ابتدائی مہینوں میں سینماؤں میں دکھائی جانے لگی‘ یہ ستمبر 1952ء میں ملکہ الزبتھ کی دعوت پر خاندان سمیت لندن آیا‘ یہ بات بھی یہاں کم دلچسپ نہیں ہو گی چارلی چپلن نے امریکا کی شہریت نہیں لی تھی‘ وہ امریکا میں 28 سال رہنے کے باوجود برطانوی شہری تھا چنانچہ ایف بی آئی نے اس کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی۔
ماں بھوک کی وجہ سے پاگل خانے پہنچ گئی‘ وہ ماں سے ملاقات کے لیے پاگل خانے گیا تو ماں نے اس سے کہا ’’چارلی میں اس دن صرف بھوکی تھی‘ تم اگر مجھے چائے کا ایک کپ لا دیتے تو میں کبھی پاگل نہ ہوتی‘ میں بچ جاتی‘‘ یہ بات اس کے دل میں ترازو ہو گئی‘ وہ جب بھی چائے کا کپ اٹھاتا تھا‘ اسے ماں کی بات یاد آ جاتی تھی اور وہ آنکھوں پر رومال رکھ لیتا تھا‘ شاید یہی وجہ تھی وہ ہمیشہ اکیلے چائے پیتا تھا۔اس کی کوشش ہوتی تھی دنیا کا کوئی شخص دنیا کو ہنسانے والے اس شخص کے آنسو نہ دیکھ سکے‘ وہ آنسو چھپانے کے لیے ہمیشہ بارش میں واک کرتا تھا‘ وہ چلتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ چارلی چپلن کہتے ہیں۔۔ جب میں چھوٹا تھا اپنے بابا کے ساتھ سرکس دیکھنے گیا، ٹکٹس کے لیے ایک لمبی قطار میں کھڑا ہونا پڑا، ہمارے سامنے ایک فیملی تھی چھ بچے اور ماں باپ، غریب گھرانے سے تعلق تھا، ان کے کپڑے پرانے تھے لیکن صاف تھے۔ بچے سرکس کے بارے میں بات کر رہے تھے، بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، جب ان کی باری آئی، ان کا باپ ٹکٹس کے لیے کھڑکی کی طرف بڑھا اور ٹکٹ کی قیمت پوچھی، پھر اپنی بیوی کے کان میں کچھ کہنے لگا، اس کے چہرے پر شرمندگی اور دکھ تھا۔۔ پھر میں نے دیکھا، بابا نے اپنی جیب سے بیس ڈالر نکالے اور زمین پر پھینک دیے، اپنا ہاتھ اس آدمی کے کندھے پر رکھا اور کہا۔۔تمہارے پیسے گر گئے۔۔اس نے بابا کی طرف دیکھا (اس کی آنکھوں میں آنسو تھے) اور کہا۔۔بہت شکریہ۔۔ جب وہ سرکس کے لیے اندر چلے گئے، بابا نے مجھے میرے ہاتھ سے پکڑا اور ہم پیچھے ہٹ آئے۔۔ کیوں کہ بابا کے پاس بس وہی بیس ڈالر تھے جو اس شخص کو دے دیے۔۔!!اور اس دن سے مجھے میرے باپ پہ فخر ہے، وہ میری زندگی کا سب سے پیارا سین تھا، اس سرکس سے بھی پیارا جو میں نہیں دیکھ پایا۔ دنیا کی تمام فلم انڈسٹریز میں بہت سے مزاحیہ فنکار، فلمساز اور بہترین ہدایت کار پیدا ہوئے لیکن دنیا اب تک دوسرا چپلن نہیں دیکھ سکی۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پیسے سے خوشی نہیں خریدی جا سکتی لیکن سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس کے برعکس انکشاف کر ڈالا ہے۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے تحقیق کاروں نے 17لاکھ 25ہزار 994امریکی شہریوں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ کوئی شخص جتنا امیر ہوتا جاتا ہے ان کا خوشی کا لیول بھی اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس حوالے سے امیر ہونے کی کوئی حد نہیں ہے، بلکہ پہلے کی نسبت کسی بھی حد تک مالی حالت بہتر ہونا اسی قدر خوشی کے حصول کا سبب بنتا ہے۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر میتھیو کلنگزورتھ کا کہنا تھا کہ ۔۔ہماری تحقیق میں اس بات کے واضح شواہد میسر آئے ہیں کہ آمدنی اور خوشی میں اضافہ ایک ساتھ چلتے ہیں۔ جوں جوں کسی شخص کی آمدنی بڑھتی جاتی ہے، اس کی خوشی کا لیول بھی اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔قبل ازیں ایک تحقیق میں بتایاگیا تھا کہ 75ہزار ڈالر سالانہ آمدنی تک پہنچ کر ہی آدمی کی خوشی کا لیول بڑھنا شروع ہوتا ہے لیکن ہماری تحقیق میں یہ نتائج غلط ثابت ہوئے ہیں۔ درحقیقت آمدنی میں کسی بھی حد تک اضافہ اسی قدر خوشی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ موضوع چونکہ چارلی چپلن ہے اس لیے چارلی چپلن کے تین ایسی باتیں حاضر ہیں جو دل کو لگتی ہیں۔۔ نمبر ایک۔۔ اس دنیا میں کوئی چیز دائمی نہیں ہے، یہاں تک کہ ہمارے مسائل بھی۔۔چارلی چپلن کہتے ہیں۔۔میں بارش میں چلنا پسند کرتا ہوں تاکہ کوئی بھی میرے آنسو نہ دیکھ سکے۔۔۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ۔۔زندگی میں فضول ترین دن وہ ہے جس دن ہم نسیں نہیں۔ ۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔