ایٹمی ری ایکٹر سمندر میں گرگیا
شیئر کریں
تابکاری سے جاپان کی آدھی آبادی ختم ہونے کا خدشہ
530 سیورٹس کے مساوی تابکاری فی گھنٹہ کی شرح سے خارج ہورہی ہے
8 سیورٹس تابکاری سے متاثرہ جسم ناقابل علاج اور موت یقینی ہوجاتی ہے
عدل طباطبائی
جاپان کے علاقے فوکو شیما ڈائی چی میں نصب ناکارہ ایٹمی ری ایکٹر نمبر 2 میں سوراخ ہونے اور اس کے سمندر میں گرنے کے خطرے کے پیش نظر اب جاپان میں ہنگامی حالت کااعلان کردیاگیا ہے اور جاپانی سائنسداں تابکاری کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سائنسدانوں نے جائے وقوع کے معائنے کے بعد علاقے میں خطرناک قسم کی تابکاری کی اطلاع دی ہے ۔آر ٹی ڈاٹ کام کی رپورٹس کے مطابق سائنسدانوں کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ مائع ایٹمی ایندھن کی وجہ سے ری ایکٹر میں ایک سوراخ ہوگیاہے جس سے تابکاری خارج ہونا شروع ہوگئی ہے۔
سائنسدانوں نے ری ایکٹر سے خارج ہونے والی تابکاری کی سطح 530 سیورٹس فی گھنٹہ بتائی ہے،جاپانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ری ایکٹر آپریٹ کرنے والی ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی نے بتایاہے کہ2011 میں آنے والے زلزلے اور سونامی کی وجہ سے اس ری ایکٹر کو شدید نقصان پہنچاتھا اور یہ قابل استعمال نہیں رہاتھا ۔
سائنسدانوں کا کہناہے کہ اس وقت ری ایکٹر سے 530 سیورٹس کے مساوی تابکاری فی گھنٹہ کی شرح سے خارج ہورہی ہے جبکہ صرف 8 سیورٹس تابکاری انسانی جسم میں پہنچ جائے تو متاثرہ انسان ناقابل علاج ہوجاتاہے اور اس کی موت یقینی ہوجاتی ہے۔
ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کے سائنسدانوںنے ری ایکٹر کے معائنے کے بعد بتایاہے کہ ری ایکٹر کے پریشر ویژل کی تہہ میں ایک مربع میٹر چوڑا چھیدہوگیاہے ۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ چھید ری ایکٹر میں موجود ایٹمی فیول یا ایندھن کی وجہ سے ہوا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس ری ایکٹر کے گرد لگی ہوئی آہنی جالی 1500 کے درجہ حرارت پر گل سکتی ہے ، ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس بات کاخدشہ ہے کہ ایٹمی ایندھن کا فضلہ اس میں گر پڑے اور اس چھید کو جلادے،سائنسدانوں نے ایٹمی ایندھن کے ایسے فضلے کا ری ایکٹر کی تہہ میں پریشر ویژل کے قریب ہونے والے چھید کے عین اوپرہونے کا پتہ چلایاہے۔
ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کے ماہرین کاکہناہے کہ ری ایکٹر کے حوالے سے تازہ ترین اطلاعات اور معلومات ری ایکٹر کے اندر ڈالے گئے ایک خودکار ریموٹ کنٹرولڈکیمرے کے ذریعے حاصل کی گئی ہےں ،ان کیمروں کے ذریعے ری ایکٹر کے اندر ،جہاں پہنچنا ممکن نہیں ہوتا،وہاں سے حاصل کی گئی تصاویر سے ظاہرہوتاہے کہ اس کے اندر تابکار ایٹمی مادہ ابھی موجود ہے ،یہ مادہ اتنا زیادہ ہلاکت خیز ہے کہ اس کے معائنے کے لیے پانی کے نیچے بجلی گھرکی تہہ میں گہرائی میں کام کرنے کے لیے خصوصی طورپر تیار کردہ روبوٹ بھیجے گئے تو وہ بھی اس سے خارج ہونے والی تابکار ی مڑ تڑ کر بند ہوگئے۔ تاہم ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی مزید خودکار روبوٹ اس کی تہہ میں بھیج کر خراب ری ایکٹر کا تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کررہی ہے۔
رواں ہفتے کے اوائل ہی میںپلانٹ آپریٹرز کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ ایٹمی ایندھن کے فضلے کا ایک جزو تابکاری پیدا کررہاہے ،فوکوشیما کی اچھی طرح صفائی کی امید ظاہر کی گئی تھی۔ سائنسدانوں کاخیال ہے کہ فوکوشیما ڈائی چی کے ایٹمی پلانٹ سے نکلنے والی تابکاری سے ابتدائی اندازے سے کہیں زیادہ لوگ ہلاک ہوسکتے ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیولوجیکل سائنسز کی رپورٹ کے مطابق صرف4 سیورٹس کے مساوی تابکاری جاپان کی 50 فیصد آبادی کی ہلاکت کاسبب بن سکتی ہے۔ جبکہ سائنسدانوں نے ری ایکٹر سے خارج ہونے والی تابکاری کی سطح 530 سیورٹس فی گھنٹہ بتائی ہے جو کہ اس ہلاکت خیزی کی شرح سے 132 فیصد زیادہ ہے۔نیوسر ڈاٹ کام کی رپورٹس کے مطابق ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کے سائنسدانوںنے ری ایکٹر کے معائنے کے بعد بتایاہے کہ ری ایکٹرسے 530 سیورٹس کے مساوی تابکاری فی گھنٹہ کی شرح سے خارج ہورہی ہے اور تابکاری کے اخراج کی اس شرح پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا ۔ایک ماہر کے مطابق مارچ 2011 میں اس ری ایکٹر کو پہنچنے والے نقصان کے بعد سے اس میں سے 73 سیورٹس فی گھنٹہ کی شرح سے تابکاری خارج ہورہی تھی ،اب اس ری ایکٹر کی تہہ میں ہونے والے چھید کی اصل جگہ کا پتہ لگانے اور اس کی نشاندہی کے لیے 5 روبوٹ بھیجے گئے تھے لیکن وہ تابکاری کی وجہ سے واپس نہیں آسکے ہیں۔ اب ایک ہزار سیورٹس تک تابکاری برداشت کرنے والے خصوصی روبوٹ تیار کئے جارہے ہیں تاکہ وہ خرابی کاپوری طرح اندازہ لگا کر صحیح رپورٹ دے سکیں۔
گارڈین نے اپنی رپورٹ میں اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ ری ایکٹر کی تہہ میں پریشرویژل کے قرب جمع ایٹمی ایندھن کو بحفاظت وہاں سے صاف کرنا ایک ایسا چیلنج ہے جس کی ایٹمی بجلی کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی، تاہم اس پر قابو پانا ضروری ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس خراب اور ناکارہ ری ایکٹر میں موجود ایٹمی ایندھن کو صاف کرنے کا کام 2018 تک مکمل ہوسکے گا عملہ اس پر کام کررہاہے اور اس پر 187 بلین ڈالر کا تخمینہ لگایاگیاہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جاپانی انجینئر اچانک ٹوٹ پڑنے والی اس افتاد پر کنٹرول اور جاپان اور ارد گرد کے جزائر پر موجود انسانوں کو ہلاکت خیز تابکاری سے بچانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اور وہ کب تک اور کس حد تک اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکیں گے، یہ چونکہ تابکاری کے اخراج کا اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے اس لیے پوری دنیا کی نظریں اب جاپانی سائنسدانوں پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ وہ اس مصیبت سے نمٹنے کے لیے جو بھی طریقہ کار اور لائحہ عمل اختیار کریں گے وہ مستقبل میں دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں پیش آنے والے اس طرح کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک مثال ثابت ہوگا ۔