گورنر سندھ کی خدمت میں چند گزارشات
شیئر کریں
گورنر سندھ محمد زبیر نے گزشتہ روز کراچی میںایک نجی یونیورسٹی کے کانوکیشن سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی آپریشن کامیابی سے جاری ہے، نیا پاکستان تیزی سے ترقی کررہا ہے ، تین سال پہلے اورآج کے پاکستان میں بہت فرق ہے،ایک وقت تھا کہ دس منٹ کے نوٹس پر شہر بند ہوتا تھا، جلاﺅ گھیراﺅ اور ہڑتال کراچی کی پہچان تھے۔
گورنر سندھ کے اس خیال سے اختلاف نہیں کیاجاسکتا کہ گزشتہ 3سال کے دوران بہت کچھ تبدیل ہوچکاہے، تین سال پہلے اورآج کے پاکستان میں بہت فرق ہے،پہلے10 منٹ کے نوٹس پر شہر بند ہوجاتا تھا، جلاﺅ گھیراﺅ اور ہڑتال کی وجہ سے کراچی کے غریب اور روزانہ کما کر اپنے گھر کا چولھا جلانے والوں کو فاقہ کشی پر مجبور ہونا پڑتاتھا یہی نہیں بلکہ ہڑتالوں کی وجہ سے کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں کو لگنے والے دھچکے کی وجہ سے اس شہر کے محنت کش طبقے میں بیروزگاری پھیل رہی تھی اور متوسط درجے کے کاروباری محنت کش طبقے کی صف میں شامل ہوکر رہ گئے تھے۔نئے گورنر سندھ کا یہ کہنا بھی اپنی جگہ درست ہے کہ چائنا کٹنگ اور منفی خبریں کراچی میں تجارتی ماحول کے لیے اچھی خبریں نہیں ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے جب شہر ترقی نہیں کرتا تو ملک آگے نہیں بڑھتا ۔اس شہر میں ایک دن کی پہیہ جام ہڑتال سے ملک کو اربوں روپے کانقصان ہوتاہے، کاروباری سرگرمیاں ماند پڑنے کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی آگئی تھی، سرمایہ کار صرف یہ پوچھتا ہے کہ حالات کتنے پر امن ہیں ؟
کراچی کے ماضی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے اگر گورنر سندھ یہ اعتراف بھی کرلیتے کہ کراچی کو ان حالات سے دوچار کرنے میں ان کی اپنی پارٹی اور اس کے سربراہ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں ،تو اچھا ہوتا۔کیا یہ درست نہیں ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نے مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے کراچی کو ان حالات سے دوچار کرنے والی ایک جماعت سے پس پردہ گٹھ جوڑ کرکے اس کے سربراہ کو راتوں رات اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کردیاتھا اور اس کے عوض اس پارٹی کے سربراہ اور پارٹی کے کارکنوں کو کراچی کے عوام کو خون میں نہلانے اور لوٹ مار کابازار گرم کرنے کی کھلی چھوٹ دیدی تھی ؟کیا گورنر سندھ اس حقیقت سے روگردانی کرسکتے ہیں کہ ان کی پارٹی نے اپنے پورے دور اقتدار میںکراچی کے شہریوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا او ر اس دور میں کراچی کے شہریوں کی سہولت کاکوئی ایک بھی قابل ذکر منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا؟
سندھ کے نئے گورنر کو حقائق تسلیم کرتے ہوئے یہ ماننا چاہئے کہ 3سال قبل شہر کے حالات میں بگاڑ کا بنیادی سبب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس شہر کے لوگوں کے مسائل سے چشم پوشی اور اس شہر کے عوام کو روزگار، تعلیم، علاج معالجے، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی جیسی سہولتوں سے بھی محروم رکھا جانا تھا، ابن الوقت اور مفاد پرست طبقے نے عوام کی اس محرومی کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور اس شہر کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کردیا، گورنر سندھ کو کراچی کے حالات میں بہتری کا سہرا اپنے اور اپنی پارٹی کے سربراہ کے سر پر سجانے کے بجائے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ کراچی کے حالات بہتر بنانے کا تمام تر کریڈٹ ہماری مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سر جاتاہے ، اگر پاک فوج کراچی میں بلا تخصیص آپریشن پر اصرار نہ کرتی تو اس شہر میں کبھی بھی امن بحال نہیں ہوسکتا تھا اور جرائم پیشہ اورعوام دشمن عناصر یوں ہی دندناتے رہتے اور عوام کی محرومیوں کے نام پر ان کو اشتعال دلاکر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہتے ۔
گورنر سندھ کو یہ بات بھی اچھی طرح نوٹ کرلینی چاہئے کہ فوج یا رینجرز ہمیشہ اس صوبے یا شہر میں نہیں رہ سکتی ان کو ملک کے دفاع کی عظیم ترین ذمہ داریاں بھی پوری کرنی ہیں ،ہمارے دشمن کی تو پوری کوشش یہی ہوگی کہ وہ پاک فوج کو کسی نہ کسی بہانے شہروں اور دیہات میں الجھائے رکھے تاکہ اسے سرحدو ں پر اچانک کسی طرح کی کارروائی کاموقع میسر آسکے، اس لئے فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جتنی جلد شہروںکی ذمہ داریوں سے فارغ کردیاجائے اتناہی ملک وقوم کے لیے بہتر ہوگا۔
گورنر سندھ کو اس حوالے سے اس شہر کے لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کرنی چاہئے اوراس شہر کے لوگوں ،اس شہر کے نوجوانوں کے ساتھ اب تک روا رکھی گئی زیادتیوں کاازالہ کرنا چاہئے ، اس حوالے سے وہ اس شہر کے منتخب میئر کو ان کے اختیارات واپس کرواکرپہلاقدم اٹھاسکتے ہیں۔گورنر سندھ کو اس صوبے کے وزیر اعلیٰ کو یہ سمجھانا چاہئے کہ میئر کے اختیارات میئرکے پاس ہی ہونے چاہئیں ۔ انھیں وزیراعلیٰ سندھ کو یہ سمجھانا چاہئے کہ آپ خاموشی سے بیٹھ کر صرف نگرانی کریں،کراچی کے میئر کو ان کا کام کرنے دیں، ہاں اگر حکومت کی جانب سے فراہم کردہ رقم کاغلط استعمال نظر آئے تو اس کے خلاف فوری کارروائی ان کاحق ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔ نالوں کی صفائی کرانا، پرائمری اسکول کی تعلیم دیکھنا ، اسپتالوں میں ڈسپنسری دیکھنا شہر یوں کے منتخب کردہ میئر کاکام ہے ،یہ کام انھیں کرنے دیاجائے تو عوام کے دلوں سے احساس محرومی میں کسی حد تک کمی آسکتی ہے ۔اور اگر ایسا ہوجائے تو پھر کوئی طالع آزما عوام کے جذبات سے کھیلنے اور اس شہر کو آگ وخون میں ڈبونے اور مقتل بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔لیکن جس شہر کے لوگ قومی خزانے کو ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی کا کم وبیش 70فیصد حصہ ادا کررہے ہوں ،انھیں اگر پینے کا صاف پانی میسر نہ آئے، ان کی شاہراہیں اورگلیاں گندے پانی کے جوہڑ کامنظر پیش کرتی رہیں تو صرف طاقت کے زور پر شہر میںتادیر امن قائم رکھنا ممکن نہیں ہوسکے گا۔
امید کی جاتی ہے کہ گورنر کے منصب پر فائز ہونے کے بعد جناب محمد زبیر ان حقائق کاادراک کرنے پر توجہ دیں گے تاکہ ان کانام اس صوبے کے ایک انصاف پسند سربراہ کے طورپر یاد رکھا جاسکے۔