سینیٹ کی قرارداد کا سبق اور انتخابات کو التواء میں ڈالنے کی سازشیں
شیئر کریں
ملک کے ممکنہ بارہویں انتخابات کے واضح نظام الاوقات کے سامنے آنے کے باوجود اس کے خلاف سازشوں کا سلسلہ رک نہیں رہا۔ عام انتخابات میں اب صرف ایک ماہ ہی رہ گیا ہے تو سینیٹ میں گزشتہ روز کچھ خاموش اور بے چہرہ لوگوں کے پراسرار اور پریشان کن اقدام نے پورے ملک میں افواہوں کا ایک بازار گرم کر دیا۔ ایک غیر معروف سینیٹر نے انتہائی غیر متوقع ماحول میں، جب پاکستان بھر کی نظریں عدالت عظمی میں جاری مختلف مقدمات پر مرکوز تھیں، اچانک ملک بھر میں جاری سردی کا احساس دلا کر ایک قرارداد پیش کرنے کی گرمجوشی دکھائی جس میں سردی اور سلامتی کے منفی ماحول کو بنیاد بناتے ہوئے انتخابات کے التواء پر زور دیا گیا تھا۔یہ قرارداد شرمناک طور پر منظور کر لی گئی۔ اس قرارداد کے پس منظر اور پیش منظر کا پورا ماحول پراسرار اور شر انگیز تھا۔ اس بھید بھری سرگرمی کا پہلا حیران کن مظاہرہ تو یہ ہے کہ 97 کے ایوان میں سے صرف 14 سینیٹرز کی حاضری کے دوران جب کورم پورا نہ ہونے کے باعث اس ایوان کے چلنے کا ہی کوئی جواز نہ تھا، اچانک یہ قرارداد پیش کی گئی۔اس حوالے سے حیران کن رویہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا تھا۔ پاکستان کے مخصوص ماحول میں اُبھرنے، وفاداریوں کے نقد سودے کرنے ا ور سورج مکھی کے کھیت سے محبت کرنے والے یہ صاحب اپنی کرسی پر انتہائی سکون سے براجمان رہے۔ وہ اس”قرارداد“ کی منظوری کے تماشے کاحصہ بنے رہے۔ بعدازاں یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس پراسرار سرگرمی کے تانے باتے تو خود اُن کے دفتر سے جاملتے ہیں، کیونکہ قرار داد پیش کرنے سے قبل یہ مٹھی بھر قانون ساز اُن کے دفتر میں موجود تھے۔ جہاں ممکنہ طور پر اس سرگرمی کی تفصیلات طے کی گئیں۔اس حوالے سے مزید حیرت افزا پہلو یہ ہے کہ سینیٹر محمد اسحق ڈار بھی ایوان میں موجود نہ ہونے کے باوجود وہیں کہیں آس پاس تھے۔ اُنہوں نے نماز جمعہ پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد میں دیگر ارکان کے ساتھ ادا کی۔ وہ کیسے نہیں جان سکتے کہ سینیٹ میں کیا کھیل کھیلا گیا ہے؟چیئرمین سینیٹ نے قرارداد پیش کرنے کے اضافی ایجنڈے کی منظوری بھی معمول سے ہٹ کر خفیہ دی تھی، پھر نماز جمعہ سے پہلے اجلاس کو اس طرح غیر معمولی طور پر موخر کیا کہ یہ بہت خال خال ہوتا ہے۔ یوں اس کے متوازی دوسری قرارداد لانے کا دروازہ بھی بند کردیا۔ یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہاں سینیٹر اسحق ڈار موجود ہونے کے باوجود سینیٹ کیوں نہیں آئے؟ اور ان کا اس کھیل میں کیا کردارتھا؟ ابھی تک اسحق ڈار کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی!تاہم یہاں چیئرمین سینیٹ کا کردار تو بالکل عیاں ہے۔تحریک انصاف کی حکومت سے لے کر پی ڈی ایم کے سولہ ماہ کی حکومت تک چیئرمین سینیٹ طاقت کے اصل مراکز کے کھیل کی تمام گھمن گھیریوں کا حصہ رہے۔ اُن کی ہمت اب اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ وہ نئے بندوبست میں بلوچستان میں ایک کردار کے خواہاں ہیں اور ابھی مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے کی شادی میں زرداری پر”بھاری“ پڑتے ہوئے اُنہیں طاقت ور افراد کے ریٹائر ہوجانے پر نئی راہوں کی مشکلات پر طعنہ دیتے نظر آئے۔ اس پس منظر میں 100 کے ایوان میں سے14 سینیٹرز کی اس پراسرار سرگرمی کے کھیل کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔چیئرمین سینیٹ کے علاوہ ان 14 سینیٹرز کی بھی ماضی کی سرگرمیوں کو ٹٹولنے سے ان کی تازہ شرارت کے سرپرست ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ میں یہ سرگرمی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب عدالت عظمی میں زیر سماعت ایک کیس میں صرف ایک روز پہلے ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ ریمارکس دیے تھے کہ کیا پانچ جنٹلمین کی رائے کو ایوان پر ترجیح دی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف وہ انتخابات کے 8/ فروری کے انتخابات پر کسی قسم کا شک ڈالنے پر کارروائی کا حکم بھی سنا چکے ہیں اور انتخابات کے عدم انعقاد کے حوالے سے افواہیں پھیلانے کے دروازے کو بند کر چکے ہیں۔ا س طرح چیف جسٹس کے لیے بھی یہ ایک مشکل پیدا ہو گئی ہے کہ وہ ایوان کی رائے کا احترام کریں یا پھر اپنے ہی فیصلے کی خلاف ورزی کا یہ تماشا خاموشی سے دیکھیں۔ کچھ لوگوں نے اس پر یہ رائے بھی ظاہر کی ہے کہ سینیٹ میں یہ ”شرارت“ اسی لیے کی گئی ہے کہ چیف جسٹس کے”اِصرار“ کو نرم کرنے کی کوئی گنجائش نکالی جا سکے۔ نیز اس سرگرمی سے عوامی اور فعال طبقات سمیت عدالت عظمیٰ کے ردِعمل کا بھی جائزہ لیا جا سکے۔
سینیٹ کی اس شرانگیزاور پراسرار سرگرمی کے محرکات کچھ بھی ہوں، بہرحال یہاں مسلم لیگ نون کے ایک سینیٹر افنان اللہ خان بھی موجود تھے جنہوں نے انتخابات میں تاخیر کے حق میں پیش کی گئی اس قرارداد کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ظاہر ہے جمہوری معاشروں میں انتخابات کی اہمیت و افادیت خارج از بحث ہے۔ کیونکہ جمہوریت میں انتخابات کو ایک عقیدے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں جنگ زدہ ماحول اور نامہربان موسم کی انتہائی مشکل صورتِ حال میں بھی کبھی انتخابات کو التوا میں ڈالنے کا سوچا بھی نہیں جاتا۔ چنانچہ اس حوالے سے موجود مثالوں کی جگالی سینیٹر افنان اللہ خان کی زبان سے بھی ہوئی۔ مگر جب وہ یہ الفاظ بول رہے تھے تو چند ماہ پہلے کے حالات اور اپنی جماعت کی سیاسی پوزیشن کو بھول گئے۔ ابھی جو سینیٹرز قرارداد کے حق میں دلائل دے رہے تھے، وہی دلائل صوبہ پنجاب او رخیبر پختونخواہ میں انتخابات نہ کرانے کے حوالے سے خود نون لیگ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کے دوران دے رہی تھی۔ دروغ گو کے حافظے نہیں ہوتے۔ اسی طرح نون لیگ کے تمام سیاسی موقف اُلٹ پھیر کے شکار ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ سینیٹر افنان اللہ کی جانب سے اس قرارداد کی مخالفت پر بھی شک کیا گیا کہ وہ اس قرار داد کو روکنے کے لیے ہی بروئے کار کیوں نہیں آئے؟ اُنہوں نے اس کی راہ میں رکاؤٹ پیدا کرنے کے لیے کورم کی نشاندہی سے لے کر جو دوسرے روایتی راستے اختیار کیے جاتے ہیں وہ کیوں نہیں کیے۔ یہی نہیں، اُنہوں نے صرف مخالفت پر کیوں اکتفا کیا۔ اُنہوں نے انتخابات 8/فروری کو شیڈول کے مطابق کرانے کے حوالے سے ایک متوازی قرارداد کے ساتھ سامنے آنے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟ یہ تمام پہلو دراصل قرارد اد کے پیش منظر اور پس ِ منظر کے حوالے سے موجود اُن شکوک کوتقویت دیتے ہیں۔ جس میں خود نون لیگ کے متعلق بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ انتخابات کے التوا کی ذمہ داری لیے بغیر اس کا التواء چاہتی ہے۔ اسی لیے نون لیگ نے مذکورہ قرارداد کو روکنے کے بجائے محض اس کی مخالفت کرکے جان چھڑائی ہے۔ سیاسی جماعتیں ابھی بھی غلطی پر ہیں۔ وہ رفتہ رفتہ ایک سیاسی حکومت اور جمہوری ثقافت سے مکمل دستبردار ہو کر طاقت کے ایک ایسے کھیل کا حصہ بن چکی ہے جس میں صرف حکومت کے تقریباتی کروفر کو قبول کرکے اصل اقتدار سے دستبردار ہوجانا ہے۔ یوں نون لیگ کا اور نعرہ ”اقتدار نہیں اختیار“ بھی محض ایک دھوکا ہی ثابت ہوا ہے۔نون لیگ سمیت باقی تمام سیاسی جماعتوں نے صرف تحریک انصاف کو اکھاڑنے کے انتہائی ذاتی ہدف کے لیے پورے ریاستی ڈھانچے کو ضعف پہنچانے کے مجرمانہ کردار کو قبول کر لیا ہے۔اس دوران اپنی سیاسی نامقبولیت اور عوامی نفرت کے باعث یہ حاشیہ بردار ی کے کردار میں اب فدویانہ انداز اختیار کر چکے ہیں۔ یعنی نون لیگ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام میں ایک دوڑ لگی ہے جو ہر وقت ”اب پہلے سے بھی زیادہ“ کی تلاش میں ہیں۔ان سیاسی کمزور اور تیزی سے عوام میں تحلیل ہوتی منتشر جماعتوں کے لیے انتخابات ایک ڈراؤنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ سینیٹ کی اس قرار داد کے پیچھے جو قوتیں بھی کارگزار ہیں وہ جانب دار الیکشن کمیشن کے اندر موجود انتخابات کو التواء میں ڈالنے کی خواہش یا دباؤکو راستہ دینے کی کوششوں میں ہیں۔ نیز سیاسی طفیلیوں کی ناکامی کے باعث اپنے مخصوص سیاسی اہداف کو یافت کرنے کے حوالے سے اندیشوں کی شکار ہیں۔ سیاسی طفیلیوں اور ان قوتوں کو سردی سے زیادہ اس گرمی کو محسوس کرنا چاہئے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اگر آئینی اسکیم سے نکل جائے تو پھر جمہوریت کا مستقبل ہی اندیشوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اگر اس شرانگیز کارروائی کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف تنبیہ کی جا چکی ہے اور انتخابات کے التوا کو سپریم کورٹ سے منوانے کی راہ ہموار کی جائے تو یہی کچھ کافی نہیں ہوگا۔ اس کے لیے پہلے سے سپریم کورٹ پر موجود سوالات میں اس پر مکمل عدم اعتماد کا خطرہ مول لیتے ہوئے عالمی برادری میں پزیرائی کی دھند بھی شامل کر لیں۔ یاد رکھیں کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان میں انتخابات کے منتظر ہیں اور معیشت کا پہیہ براہ راست سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ امدادی ٹیکوں سے معیشت کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی پرانی عادتیں اس لیے بدل لینی چاہئے کہ گزشتہ چند ماہ سے امداد اور رقم آنے کی جتنی امیدیں جتنی بڑی سطح سے دلائی گئی تھیں وہ پانی پر بنائی تصویریں ثابت ہوئیں۔ عوام کا تازہ اور غیرمتنازع مینڈیٹ ہی معیشت کے پہیے کو حرکت دے سکتا ہے اور ہمیں معاشی خود انحصار ی کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ ان حقیقی خطرات کے درمیان مسلم لیگ نون کو سمجھنا چاہئے کہ اُن کے خلاف تاریخ کا پہیہ حرکت میں آچکا ہے۔ وہ اِسے وقتی اقدامات سے ٹالنے کی سکت نہیں رکھتی۔ ابہام سے پاک اور ٹھوس سیاسی پوزیشن کے ذریعے ہی وہ اپنے مقام کی بحالی کی آرزو پال سکتی ہے۔ اس کے لیے اُسے خود پر انحصار کرکے عوام کو اپنے اوپر اعتماد دلانا چاہئے۔ تاریکیوں میں فیصلے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ خفیہ حمایتیں، سیاسی آزادی کے سودے پر ملتی ہیں۔ نون لیگ کو سوچنا چاہئے کہ اُن کے ایک سینیٹر کو سینیٹ میں وہ دلائل دینے پڑے ہیں جو کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف دے رہی تھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل وہ اُس انجام سے دوچار ہو جائے جس سے آج تحریک انصاف گزر رہی ہے۔ تاریخ خود کو دُہراتی ہے۔ اور یہ یقینی ہوتا ہے کہ اگر وہ خود کو ایک بار دُہرا لے اور سبق نہ لیا جائے تو پھر یہ خود کو بار بار دُہراتی ہے۔ نون لیگ نے جونظیر پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت میں قائم کی تھی، وہی نظیر تاریخ کے پہیہ گھوم کر خود کو دُہرانے کا اندیشہ پیدا کر چکی ہے۔ تحریک انصاف نے تب جو دلائل دیے تھے وہی نون لیگ کی زبان سے جاری ہیں۔ معلوم نہیں مستقبل میں مزید کون سے سبق اعادے کے منتظر ہیں۔ یاد رکھیں!سبق وقت پر نہ لیا جائے تو وہ سبق نہیں ذلت کی ٹھوکر سے لگنے والازخم ہوتا ہے جو مندمل نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔