میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نواز شریف کے سینے میں دفن راز

نواز شریف کے سینے میں دفن راز

منتظم
اتوار, ۷ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

شریف برادران کی اچانک سعودی عرب روانگی اور سعودی ولی عہد کے ساتھ ان کی مبینہ ملاقات نے ملک میں طویل عرصے سے جاری سیاسی ڈرامے کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ واضح طور پر یہ ایک معمول کا سرکاری دورہ نہیں تھا؛ چنانچہ یہ حیران کن نہیں ہے کہ اس پر اتنی چہ می گوئیاں کیوں ہوئی ہیں۔ پاکستان کی داخلی سیاست میں سعودی مداخلت نئی نہیں ہے، وہاں اِس کی بھی کوئی مثال نہیں کہ سیاسی رہنماؤں کو ملک کے مکمل طور پر داخلی سیاسی معاملے پر گفتگو کے لیے سعودی عرب بلایا گیا ہو۔ اِس کی وجہ یقیناً نوجوان سعودی ولی عہد کا سخت رویہ ہے جو کہ اب حقیقی طور پر سعودی عرب کے حکمراں ہیں۔ واقعات کے تسلسل نے بھی اِس پورے معاملے سے منسلک تجسس کو بہت بڑھا دیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی حکومت نے شہباز شریف کو ریاض لانے کے لیے ایک خصوصی طیارہ بھیجا جہاں انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے آنے سے پہلے سینیئر سعودی حکام کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ نواز شریف کو یہی پروٹوکول نہیں دیا گیا اور انہیں سعودی ولی عہد سے ملاقات کے لیے انتظار کرنا پڑا۔ پارٹی رہنماؤں کے متضاد بیانات کی وجہ سے شک کے سائے مزید گہرے ہوجاتے ہیں۔اس صورت حال سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سعودی حکمرانوں نے شہباز شریف کی مکمل حمایت کردی ہے پاکستانی سیاست ، خاص طور پر شریف خاندان پر سعودی عرب کے اثر و رسوخ کو کم نہیں سمجھنا چاہیے، مگر اِس اثر کے باوجود کوئی بھی منصوبہ تھوپنا آسان نہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کی قید سے چھڑانا اور جلاوطنی کے دوران پناہ دینا سعودی عرب کا شریف خاندان پر بہت بڑا احسان ہے، مگر جب شریف حکومت نے سعودی عرب کی درخواست پر پاکستانی فوجی یمن بھیجنے سے انکار کیا تو یہ تعلق تناؤ کا شکار ہوگیا۔ سعودی عرب میں شاہ عبداللہ کی وفات اور سلمان بن عبدالعزیز اور اْن کے بیٹے محمد بن سلمان کے اقتدار میں پہنچنے سے بھی اِس قریبی تعلق پر اثر پڑا ہے۔سعودی حکمرانوں اورشریف گھرانے کے درمیان تعلقات میں اِس سرد مہری کا عکس اس وقت دکھائی دیا جب مبینہ طور پر سعودی حکومت نے جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران شریف خاندان کی مدد کو آنے سے انکار کردیا۔ شریف خاندان کی سعودی عرب میں قائم اسٹیل مل کی جلاوطنی کے دوران فروخت بیرونِ ملک جائیدادوں کی خریداری کے لیے رقم کے ذریعے کے طور پر تصور کی جارہی تھی مگر سعودی حکمرانوں نے اِس فروخت کے ریکارڈ کی تصدیق نہیںکی۔اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہے کہ سعودی بادشاہوں کا پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ قریبی تعلق رہا ہے۔ تمام فوجی حکمرانوں کے سعودی سلطنت کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات رہے ہیں ۔ ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف نے عوامی سطح پر اقرار کیا ہے کہ اقتدار چھوڑنے کے بعد اْنہیں شاہ عبداللہ نے دبئی اور لندن میں جائیدادیں خریدنے کے لیے لاکھوں ڈالر دیے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کے باوجود سعودی حکومت کے پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات کمزور نہیں ہوئے ہیں۔ اِس قریبی تعلق کی ایک مثال جنرل (ر) راحیل شریف کی اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ کے طور پر تقرری ہے۔ اطلاعات کے مطابق شریف برادران کو بلانے کا مقصد اْنہیں تصادم کے بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دینا تھا۔ یہ بھی واضح ہے کہ ریاض کے لیے سب سے اچھا انتخاب شہباز شریف کی زیرِ قیادت مسلم لیگ (ن) ہے۔

سعودی ولی عہد نے نواز شریف کو کیا مشورے دئے اس حوالے سے قیاس آرائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس اور قابل اعتبار بات سامنے نہیں آجاتی۔ تاہم موجودہ صورت حال میں شریف خاندان کو اپنی دولت بچانے کے لیے سعودی عرب کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے اورغالباً سعودی ولی عہد سے ملاقات کے بعد نواز شریف کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں مل سکاہے،یہی وجہ ہے کہ نا اہل قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سعودی عرب کے پراسرار دورے سے واپس آ کر بھی اپنی اس روش پر قائم ہیں جو انہوں نے جولائی 2017 میں عدالتی فیصلے کے بعد سے اپنا رکھی ہے۔ سعودی عرب کے دورے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ میرا وہاں جانا کوئی عجوبہ نہیں، سعودی عرب پاکستان سے محبت کرنے والا دوست ملک ہے سعودی عرب کے حوالے سے میاں نواز شریف نے جو کچھ کہا وہ صحیح ہے یا غلط لیکن یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ وہاں جانے کو عجوبہ اور بے پر کی اڑانے کا موقع خود میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی نے فراہم کیا۔ کیوں کہ نہ تو نواز شریف اور نہ ہی مسلم لیگ ن کی طرف سے ان کے دورہ سعودی عرب کے بارے میں کچھ بتایا گیا کہ وہ کیا کرنے گئے تھے اور اب بھی یہ نہیں معلوم کہ کیاکر آئے۔ اب وہ وزیر اعظم تو ہیں نہیں کہ ان کے دورے کو سرکاری سمجھا جائے چنانچہ افواہیں پھیلنا لازم تھا۔ وہ ایسے حالات میں گئے جب ان پر پاکستان میں مقدمات چل رہے ہیں اور انہیں نااہل، غیر صادق اور غیر امین قرار دیا جا چکا ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا کچھ زیادہ غلط نہیں کہ وہ اپنے لیے سعودی حکمرانوں کی مدد مانگنے گئے تھے۔ سعودی عرب کسی فرد کا نہیں پاکستان کا دوست اور پاکستان سے محبت کرنے والا ملک ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی عرب ماضی میں بھی میاں نواز شریف کی مدد کے لیے آچکا ہے۔ اس بار سلمان بن عبدالعزیز نے بھی میاں نواز شریف کو شرف ملاقات عطا نہیں کیا۔نوازشریف کیاامیدیں اور توقعات لے کر سعودی عرب گئے تھے یہ تو وہ خود ہی بہتر طورپر جانتے ہوں گے اورجیسا کہ ہم نے اوپر لکھا کہ جب تک وہ خود اس بارے میں زبان نہیں کھولتے اس دورے پر اسرار کے پردے تو پڑے رہیں گے لیکن سعودی عرب سے واپسی کے بعد نواز شریف کے لہجے کی تلخی میں ہونے والا اضافہ اس بات کی چغلی کھارہاہے کہ نواز شریف سعودی عرب سے بے نیل ومرام واپس لوٹے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب انھوں نے بیوائوں کی طرح دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں کہ اگر تم نے مجھے ہاتھ لگایا تو تمہاری پول کھول دوں گا، راز اگل دوں گا، سرعام بے عزت کردوں گا وغیرہ وغیرہ،جس کا اندازہ گزشتہ بدھ کو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ان کی گفتگو اور پریس کانفرنس سے لگایاجاسکتاہے جس میں انہوں نے وہی پرانا راگ الاپا کہ مجھے کیوں نکالا اور یہ کہ ’’ لاڈلے‘‘ کا راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔ لاڈلے سے ان کی مراد عمران خان ہے۔ میاں صاحب کے خیر خواہوں نے ان کو یہ نہیں سمجھایا کہ وہ عمران خان پر اٹھتے بیٹھتے جو تنقید کرتے ہیں اس سے تحریک انصاف کے بارے میں ان کا خوف ظاہر ہوتا ہے۔ شاید یہ خوف بجابھی ہو کہ پنجاب میں ابھی تک پیپلز پارٹی تو نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکی لیکن تحریک انصاف خطرہ بن سکتی ہے۔ میاں صاحب عمران خان کو لاڈلا کہہ کر درحقیقت عدلیہ پر طنز فرما رہے ہیں لیکن عمران خان کے حمایتی جواب میں کہتے ہیں کہ ہاں، وہ عوام کا لاڈلا ہے۔ نواز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’’ مسلم لیگ ن کے عوامی مینڈیٹ کو روند کر مسترد شدہ عناصر کو اقتدار میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘۔ اگر ن لیگ کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے تو پریشانی کی کوئی بات ہی نہیں۔ چند ماہ بعد مینڈیٹ سامنے آجائیگا۔ لیکن یہ مسترد شدہ عناصر کون سے ہیں ؟ اس کی وضاحت میاں صاحب نے نہیں کی۔ کیا یہ تحریک انصاف ہے یا پیپلز پارٹی ہے یا کوئی اور جماعت؟ ان عناصر کو کس نے مسترد کیا اور انہیں کون اقتدار میں لانے کی کوشش کررہا ہے۔ میاں صاحب نے بار بار کچھ قوتوں کا ذکر کیا ہے کہ ’’ یہ قوتیں کبھی کسی جماعت کا راستہ روک لیتی ہیں اور کبھی کسی جماعت کو عوام پر مسلط کردیتی ہیں، ماضی میں بھی انہی قوتوں نے عوامی مینڈیٹ اور عوامی رائے کو بدلنے کی کوشش کی‘‘۔ اب یہ سمجھنا تو مشکل نہیں کہ میاں صاحب کا اشارہ پاک فوج کی طرف ہے کیوں کہ اورکوئی قوت وہ کارنامے نہیں دکھا سکتی جن کا ذکر میاں صاحب نے کیا ہے۔ تو پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ کیا ن لیگ کو بھی اسی قوت نے عوام پر مسلط کیا اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مذکورہ قوت ناکام رہی۔ نوازشریف کی اس گفتگو میں حسب معمول عدلیہ اور قوتیں نشانہ بنی ہیں۔ اسی سے ان کے پرخلوص ساتھی میاں صاحب کو روکتے رہے ہیں لیکن میاں صاحب کو اب تک اس کے نقصان کا اندازہ نہیں ہوا یا اگر ہے تو وہ کسی سوچے سمجھے منصوبے پر عمل کررہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جارحانہ رویہ ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ پھر انہوں نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ ’’ اقتدار نہ ملا تو تمام پول کھول دوں گا ، اسی اسلام آباد میں چاروں صوبوں کے قائدین کو جمع کر کے سارے راز فاش کردوں گا ،تین بار وزیر اعظم رہ چکا ہوں، سب جانتا ہوں‘‘۔ میاں صاحب، جس پرپاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید، شیخ رشید ، ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان سمیت تقریباً تمام اہم رہنمائوں نے نواز شریف سے مطالبہ کیاہے کہ وہ اب ہمت کر کے تمام پول کھول ہی دیں، کب تک اپنے دل پر بوجھ رکھیں گے،طاہر القادری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نواز شریف اب راز فاش کرہی دیں ورنہ کہیں ان کو دل کادورہ نہ پڑجائے ،جہاں تک راز افشا کرنے کی دھمکی کاتعلق ہے تو نواز شریف اس سے پہلے بھی راز افشا کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں مگر اس سے آگے بڑھتے ہی نہیں۔ ان کا کہناہے کہ ان کے خلاف پس پردہ کارروائیاں ہو رہی ہیں جو نہ رکیں تو گزشتہ چار سال کے حقائق عوام کو بتادیں گے۔نواز شریف کچھ بتائیں نہ بتائیں کم ازکم اتنا ہی بتا دیں کہ ان کے خلاف پس پردہ کیا کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ اور یہ بھی کہ کیا یہ سارے انکشافات ان پر جولائی 2017کے بعد ہوئے ہیں جب ان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیایا اس سے قبل بھی یہ راز ان کے سینے میں دفن تھے،اگر یہ راز پہلے بھی ان کے دل میں دفن تھے تو انھیں اسی وقت وہ راز افشا کردینا چاہئے تھے جب وہ اقتدار میں تھے تین بار وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد اب تو ان کا خوف نکل جانا چاہیے تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ راز ، راز ہی رہیں گے۔ان کے مخالفین نے تو یہ بھی کہا ہے کہ نواز شریف راز منکشف کرنے چلے ہیں توانھیں اس کی ابتدا جنرل ضیا الحق (مرحوم) سے کرنی چاہئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں