بابری مسجد کی شہادت کے 30 برس مکمل
شیئر کریں
بابری مسجد کی شہادت کو30 برس مکمل ہو گئے ہیں جسے 1992 ء میں آج کے دن ہندو توا تنظیموں بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کی قیادت میں ہندو بلوائیوں نے اس وقت کی کانگریس حکومت کی خاموش منظوری کے ساتھ شہید کیا تھا اور اس طرح بھارت کا انتہا پسند چہرہ دنیا بھر کے سامنے بے نقاب ہو گیا۔ کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے اس دن کے حوالے سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ایودھیا میں 16 ویں صدی کی بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوؤں نے 6 دسمبر 1992 کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت سے زیادہ اذیت ناک بات بھارت کی اعلیٰ عدلیہ کا جانبدارانہ کردار ہے جس نے نومبر 2019 میں ہندوؤں کو تاریخی بابری مسجد کے مقام پر مندر بنانے کی اجازت دی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے ہندوتوا نظریے کو ترجیح دی۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت میں ملوث ایل کے ایڈوانی جیسے بی جے پی کے رہنماؤں کو بھی بری کر دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے جانبدارانہ فیصلے نے بھارت کو ہندو ملک میں تبدیل کرنے کے عمل کی توثیق کی ہے جہاں مسلمانوں کا وجود اب ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ ایودھیا کا فیصلہ انصاف کے تمام ضابطوں اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بابری مسجد کیس میں بی جے پی کا من پسند فیصلہ سنانے پر بی جے پی کی بھارتی حکومت نے سپریم کورٹ کے سابق جج چیف جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا کا رکن بنا لیا۔ کے ایم ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں خاص طور پر مودی کے دور میں ہندوتوا قوتیں مسلمانوں کے مذہبی مقامات کومسلسل مندہم کر رہی ہیں اور مسلمانوں کے ناموں سے منسوب علاقوں کے نام تبدیل کر رہی ہیں۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی نے بھارت میں ہزاروں مساجد کو مسمار کرنے اور ان کی جگہ مندر بنانے کی نشاندہی کر رکھی ہے۔ یہاں تک مسلمانوں کے ناموں سے منسوب اداروں، مقامات اور شاہراؤں کے نام بھی ہندوؤں کے ناموں پر رکھے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے حالات اس قدر بدتر ہو چکے ہیں کہ بھارت میں جانوروں کو بھی مسلمانوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ انہیں گائے کا گوشت کھانے اور مویشیوں کی نقل و حمل کے بہانے دن دہاڑے تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس نظریات کی حامل بی جے پی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنا رہی ہے جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے جو پہلے ہی بھارت اورمقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی ممکنہ نسل کشی کے بارے میں خبردار کر چکی ہے۔