میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اعلیٰ ترین عدلیہ پرنواز شریف کی تنقید اور طنز کے تیر

اعلیٰ ترین عدلیہ پرنواز شریف کی تنقید اور طنز کے تیر

منتظم
بدھ, ۶ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دئے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ روز لندن روانگی سے قبل ایک دفعہ اپنی نااہلی کے اصل اسباب پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ پر تنقید اور طنز کے تیر برساتے ہوئے کہاہے کہ اس ملک کے عوام اگلے عام انتخابات میں ایک دفعہ پھر ان کو اقتدار سونپ کر مائنس پلس کے کھیل کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیں گے اور مسلم لیگ ن ایک دفعہ پھر بلاشرکت غیر اس ملک پر حکمرانی کرے گی۔
نواز شریف کی ان باتوں سے ظاہرہوتاہے کہ انھیں اپنی دولت کاگھمنڈ ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات میں وہ اپنی دولت کی چمک کے ذریعے ایک دفعہ پھر اس ملک کے عوام کو بیوقوف بنانے اور مختلف علاقوں کے غنڈوں اورطاقتور چوہدریوں پولیس افسران اور انتخابی عملے کی وفاداریاں خرید کر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ،گویا انھوں نے اپنی حکمرانی کی طاقت کچھ بیچارے اور مجبور لوگوں کو سمجھ رکھا ہے جنہیں انتظامیہ اور وڈیروں کے ذریعے ڈرا دھمکا کر پولنگ اسٹیشن پر لاکر من پسند انداز میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیاجاسکتاہے اور اس ملک کے مجبور اور مقہور افرادطوہاً و کرہاً ان کی پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے پر مجبور ہوں گے،نواز شریف نے غالباً یہ بھی فرض کرلیاہے کہ سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد اگرچہ وہ اقتدار کی سنگھاسن سے اتارے جاچکے ہیں لیکن اقتصدار عملی طورپر ان ہی کی پارٹی اور اس طرح ان کے پاس ہی موجود ہے جس کامظاہرہ وہ عدالتوں میں پیشی کے لیے شاہان پروٹوکول کے ساتھ آمدورفت کے ذریعہ کرتے رہتے ہیں ،نواز شریف نے غالباً یہ بھی فرض کرلیا ہے کہ سرکاری اداروں کے تنخواہ دار طبقے کے ووٹ پر تو صرف حکمران وقت کا حق ہوتا ہے۔
جہاں تک جمہوریت کاتعلق ہے تو اس بارے میں علامہ اقبال پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ : جمہوریت وہ طرز حکمرانی ہے جس میں ،بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ،یعنی کھیتوں میں کام کرنے والے ان پڑھ سیدھے سادھے دیہاتی ،ملوں اور کارخانوں ، اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والوں اور ان پڑھ درجہ چہارم کے ملازمین جو کو اپنے ووٹ کی طاقت اور اہمیت کاکوئی اندازہ ہیں نہیں اور جو محض اپنے مالکان کی خوشنودی کے لیے کسی کھمبے کو بھی ووٹ دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور اپنے شعبہ میں اعلیٰ ترین تعلیم کے حامل باشعورفرکاووٹ برابر ہے۔جمہوریت کا ایک اعزاز یہ بھی ہے۔ بیشک ایک طرف دس اعلیٰ تعلیم یافتہ معزز افراد ہوں اور دوسری طرف 11گلو بٹ ہوں تو صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں حکومت تو گلو بٹ ہی بنائیں گے،اور ان گلوبٹوں کوخریدنا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان پر 22 خاندانوں کی حکومت کاشور مچتا رہتا تھا،لیکن ایوب خان نے اپنے آخری دور میں ان 22خاندانوں میں اپنے پورے خاندان کے علاوہ تمام عزیزو اقارب یہاں تک کہ دوست احباب کو بھی اس میں شامل کرکے ان کی تعداد 2200 تک پہنچادی اور اس کے بعد اضافے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیااور اب تو صدر،وزیر اعظم،مرکزی وزیر، وزرائے مملکت، مشیر،ممبران قومی اسمبلی،چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ،صوبائی وزیر،مشیر،مرکزی اور صوبائی بیوروکریسی حتیٰ کہ سرکاری دفاتر کے درجہ چہارم تک کے ملازمین بھی خود کوعوام کا حکمران ہی سمجھتے ہیں اور اقتدار میں اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں،جس کااندازہ کسی صاحب کے دفتر کے باہر کھڑے چپڑاسی یا اردلی سے صاحب کے کمرے میں جانے کی اجازت مانگ کر دیکھ لیں۔
یہ درست ہے کہ ووٹ ایک امانت ہے اوریہ امانت کسی امین وصادق کے ہی سپردکی جانی چاہئے لیکن اب تو الیکشن میں حصہ لینے والے ہر ’’ایرا غیرا نتھوخیرا ‘‘ نودولتیا آپ کے ووٹ پراپنا حق تصور کرتاہے ، اورالیکشن سے قبل چکنی چپڑی باتیں کرکے سہانے خواب دکھاکر کسی نہ کسی طرح آپ کاووٹ ہتھیانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ الیکشن لڑنے والے تو کسی دوسرے ذریعے سے دولت کما کر الیکشن کے دوران اس نیت سے خرچ کرتے ہیں کہ جیتنے کے بعد اصل زر بمع سود مرکب وصول کریں گے،اور سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کے بارے میں یہ فیصلہ آنے کے بعد کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں ان کاپارٹی کی صدارت پر براجمان رہنے اور اپنے خلاف فیصلہ دینے والوں ججوں پر اٹھتے بیٹھتے تبرا بھیجتے رہنے کی روش سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ اب کسی ریاستی عہدہ دار کا صادق اور امین ہونا ضروری ہی نہیں رہا۔
یہ الگ بات ہے کہ مالک کائنات کا حکم ہے ’’تم امانتیں ان کے اہل کو لوٹاؤ۔‘‘اور’’ جب تمہیں لوگوں میں حکمران بنا دیا جائے تو عدل سے حکومت کرو۔‘ لیکن یہاں تو عدل و انصاف کے معیار ہی الگ الگ ہیں۔ عام زبان میں عدل کو اندھا کہا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو عدل صرف کمزور وں کے لیے ہی اندھا ہے۔ طاقتور مجرم توعدل کو بھی بے بس کردہتے ہیں۔فیصلہ ان کے خلاف آ تاہے تو اپنی دولت اور طاقت کے زور پر اپنے چیلے چانٹوں کے لاؤ لشکر لیکر عدلیہ کے خلا ف سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اورمعزز جج صاحبان صبر کے گھونٹ پیتے رہتے ہیں۔ ہر حال میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے وعدہ معاف گواہوں سے بھی رشتے ناطے جوڑ کر انہیں اپنا ہمنوا بنا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
یہ ایسی صورت حال ہے جو اس ملک کے باشعور عوام کے لیے لمحہ فکریہ ہے ، ان کافرض ہے کہ وہ اس ملک کو فصلی بٹیروں کی دست برد سے بچانے کے لیے میدان عمل میں آئیں اور عام انتخابات میں خاموش تماشائی کاکردار ادا کرنے اور کسی کو بھی ووٹ نہ ڈال کر باطل سے نفرت کااظہار کرنے کے بجائے اپنے اردگرد اور قرب وجوار کے لوگوں کوبھی ان کے ووٹ کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کریں اورانھیں بتائیں کہ فصلی بٹیروں کی لگی لپٹی اور چکنی چپڑی باتوں میں آنے کے بجائے اپنے ووٹ کی طاقت سے ان زمینی خداؤں کااس طرح دھڑن تختہ کیاجاسکتا ہے کہ یہ آئندہ ہمارے وسائل کوشیر مادر کی طرح استعمال کرنے کاخواب بھی نہ دیکھ سکیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں