میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کہاں کی خارجہ پالیسی، کیسی سفارتکاری؟

کہاں کی خارجہ پالیسی، کیسی سفارتکاری؟

منتظم
منگل, ۶ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

sehra-ba-sehra-1

محمد انیس الرحمن
امرتسرمیں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے واپسی پر مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے آتے ہی ایک پریس کانفرنس داغ دی جس میں انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا نے پاکستان پر دباو¿ ڈالنے کے لیے دہشتگردی کا شوشہ چھوڑا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اشرف غنی کا بیان ناقابل فہم اور قابل مذمت ہے۔ہارٹ آف ایشیا کانفرنس افغانستان سے متعلق تھی اور ہماری خواہش تھی کہ پاک بھارت تعلقات افغانستان میں قیام امن کو متاثر نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا نے پاکستان پر دباو¿ ڈالنے کے لیے دہشتگردی کا شوشہ چھوڑا۔ اشرف غنی کا بیان ناقابل فہم اور قابل مذمت ہے۔ اشرف غنی نے بھارت کو خوش کرنے کے لیے بیان دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری اشرف غنی سے بھی ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کی خواہش رکھتا ہے۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز گئے بھی بڑی عجلت میں تھے اور آئے بھی کافی جلدی میں۔ باقی بھارت میں جو کچھ ہوا اس کا اندازہ پہلے ہی تھا کہ وہاں ہونے کیا جارہا ہے۔لیکن اس سارے معاملے میں روس کا رویہ انتہائی خوشگوار رہا ۔ اس حوالے سے روس نے پاکستان کے حق میں مثبت کردار انجام دیا ہے۔ روس نے بھارت اور افغانستان کی جانب سے پاکستان پر لگائے الزامات کو غلطی قرار دیدیا۔ روسی نمائندے کا کہنا تھا کہ ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کا ایجنڈا ہائی جیک نہیں ہوا، الزامات کا کھیل نہیں ہونا چاہیے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سارک کانفرنس اسلام آباد میں نہ ہوسکی تو پاکستان کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں جاکر کتنے نفلوں کا ثواب ملنا تھا۔ حالانکہ سارک کا پلیٹ فارم بے اثر ہوچکا اور اسے بے اثر کرنے میں بھارت کے خطے میں جارحانہ عزائم ہیں، اس لیے ایسے پلیٹ فارم کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا ۔ اس کے علاوہ سب جانتے ہیں کہ امریکا میں انتقال اقتدار کا مرحلہ ہے ،یہ مرحلہ مزید ایک ماہ تک مکمل ہوگا ۔ لیکن ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ یہ تبدیلیاں وائٹ ہاﺅس تک محدود ہیں امریکی اسٹیبلشمنٹ جو اصل حکمران ہے وہ اپنا کام اسی یکسوئی سے کررہی ہے جس طرح وہ پہلے کرتی تھی۔ انتقال اقتدار کے دوران نئے آنے والے صدر کو امریکا کی جاری رہنے والی پالیسی پر اعتماد میں لیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وائٹ ہاﺅ س درحقیقت دنیا کے سامنے امریکی اسٹیبلشمنٹ کا چہرہ ہوتا ہے، دنیا کے سامنے اس کا یہ کردار 90 کی دہائی کے بعد سے مزید کھل کر سامنے آچکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں امریکی سی آئی اے کی ”بریفنگ“ مکمل ہوئی ہے جس کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ بیانات نے نیا موڑ لے لیا ہے۔ کس ملک اور کس خطے میں امریکی صدر کو کیا کرنا ہے یہ بات ڈونلڈ ٹرمپ کو اچھی طرح سمجھا دی گئی ہے۔۔۔ اس حوالے سے افغانستان کی پالیسی میں بھی امریکا کے کردار میں کوئی تبدیلی دیکھنا خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس جس میں علاقائی ممالک کے نمائندے شریک ہوئے ہیں، اس میں کابل کی اشرف غنی انتظامیہ کو پورے افغانستان کا نمائندہ بناکر پیش کیا گیا ہے جو حسب عادت بلکہ منصوبے کے مطابق پاکستان کو ہی الزامات کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے اس کانفرنس میں شرکت کرنا ہی مطلوب تھی تو سفارتی اور خارجی سطح پر بھرپور تیاری کی جاتی۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری تھا کہ یہ کانفرنس ہوکس ملک میں رہی ہے ۔ وہ ملک جو لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے خلاف مسلسل جارحیت کررہا ہے، نریندرا مودی مسلسل پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس حوالے سے تو پاکستان کو انتہائی جارحانہ پالیسی ترتیب دے کر امرتسر میں جاکر بھارت کو شٹ اپ کال دینی چاہئے تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اشرف غنی کو باور کرایا جانا چاہئے تھا کہ وہ کابل میں بیٹھ کر افغانوں کے مفادات کا خیال کرے نہ کہ بھارت کے مفادات کے لیے بیان بازی کرے۔لیکن وزارت خارجہ کے ذرائع سے معلوم کیا جائے تو وہ بتائیں گے کہ اس کانفرنس کے لیے کوئی تیاری نہیں تھی اور نہ عالمی سطح پر اس کانفرنس میں شرکت سے پہلے کوئی فضا ہموار کی گئی تھی۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کرکے لڈیاں ڈالنے والے اسے ہی اپنی سب سے بڑی فتح سے تعبیر کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ذرائع کے مطابق سرتاج عزیز کو امرتسر بھیجنا بھی واشنگٹن کی ہدایت پر تھا، جبکہ وزیر اعظم نواز شریف جنہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان بھی اپنی جیب میں رکھا ہوا ہے اعلی عداتوں میں چلنے والے کرپشن کے معاملات پر اپنے خلاف مقدمات میں مصروف دکھائی دیتے ہیں نہ صرف وہ بلکہ پوری حکومتی مشنری اسی ”ضروری کام“ پر لگی ہوئی ہے، وہ مشیر جن کا کام حکمران وقت کو ملک اور قوم کے حوالے سے صائب مشوروں سے نوازنا ہوتا ہے وہ اسی ایک کام پر لگے ہوئے ہیں کہ حکمران خاندان کو کرپشن کے مقدمات سے کیسے خلاصی دلائی جائے۔ جہاں صورتحال یہ ہو تو پھر کونسی سفارتکاری اور کہاں کی خارجہ پالیسی۔۔۔۔ ؟؟
ذرائع کے مطابق اشرف غنی سے ملاقات کے دوران مشیرخارجہ سرتاج عزیزنے انہیں پاکستان کی جانب سے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کی آفر کی تھی لیکن دوسری جانب سے جواب تھا کہ یہ پیسے آپ اپنے پاس رکھیں اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ختم کریں۔اس موقع پر سرتاج عزیز کو چاہئے تھا کہ وہ تمام عالمی برادری کے سامنے یہ موقف اختیار کرتے کہ آج پاکستان کے اندر جس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کہا جارہا ہے وہ شروع کس وجہ سے ہوئی تھی؟ کیا امریکا اور کابل میں بیٹھائی جانے والی امریکا نواز انتظامیہ اس کی ذمے دار نہیں ہے؟ کیا بھارت کا اپنی اوقات سے بڑھ کر افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے عزائم اس کی وجہ نہیں ہیں ؟ کیا کلبھوشن یادیو برازیل کا جاسوس تھا جسے ایران سے پاکستان میں داخلے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا ؟اور اس کے اعترافات کیا ثابت کرتے ہیں؟ لیکن سرتاج عزیز جیسا شریف النفس انسان ایسی بات منہ سے کیسے نکال دے جبکہ اس کے اوپر ایک اور ”شریف“ مسلط ہو جس نے جانے ”کس“ کو یقین دہانی کرارکھی ہے کہ دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے پر میں بھارت کے خلاف زبان نہیں کھولوں گا۔ نواز شریف کی جانب سے وزارت خارجہ کا قلمدان اپنی جیب میں رکھنے کا سبب پوری طرح سمجھ میں آتا ہے۔۔۔ ان کا بس چلتا تو وہ وزارت داخلہ کا قلمدان بھی اپنے پاس ہی رکھتے تاکہ عسکری اور معاشی دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی ناک جیسے چاہیں موڑ دیں۔۔۔
ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ افغانستان کے حوالے سے خطے میں جتنی بھی کانفرنسیں ہوں گی وہ تمام کی تمام امریکا اور اس کے بعد بھارت کے مفادات کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی جائیں گی۔ اس سارے معاملے میں پاکستان سب سے اہم فریق ہے لیکن اس کی اہمیت کو جمہوریت کے نام پر سیاستدانوں نے گرہن لگا دیا ہے۔ ان تمام ”خدمات“ کا صلہ مغرب میں پوشیدہ لوٹی ہوئی دولت کے تحفظ کی یقین دہانی ہے۔ یہ سلسلے خدانخواستہ اسی طرح چلتے رہے تو ملک وقوم کو بھارت کے ہاتھوں ذلیل کروا کر سی پیک کے ثمرات بھی حاصل نہیں کئے جاسکیں گے۔ چین کے بعد روس کا پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونا قدرت کی جانب سے ایک خوشگوار اشارہ ہے، اس سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ایک نئے انداز میں دنیا کے سامنے جنوری کے آخر تک وارد ہوجائے گا۔ مشرق وسطی کی صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ ترکی اس بات کو سمجھ چکا ہے کہ داعش کا بہانہ بناکر امریکا اور اسرائیل خطے میں ایک آزاد کُرد ریاست کی تشکیل کا منصوبہ تیار کرچکے ہیں۔مقبوضہ بیت المقدس میں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصی شدید خطرات سے دوچار ہونے والی ہے ۔عالمی صہیونیت نے اس کی جگہ ”دجالی ہیکل سلیمانی“ کی تعمیر کا مکمل بندوبست کررکھا ہے۔ خاکم بدہن یہ منصوبہ شروع ہوا تو جنگ کی آگ صرف مشرق وسطی تک محدود نہیں رہے گی ۔ پاکستان کا کردار بہت زیادہ بڑھنے والا ہے، ایسی صورتحال پیدا ہونے سے قبل وطن عزیز میں استحکام کی خاطر عسکری دہشت گردی کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردوں کا مکمل صفایا انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں