میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شہر قائد میں آتشزدگی کے بڑھتے واقعات۔۔۔لمحہ فکر

شہر قائد میں آتشزدگی کے بڑھتے واقعات۔۔۔لمحہ فکر

منتظم
منگل, ۶ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

yahya-mujahid

یحییٰ مجاہد
پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی میںشاہراہ فیصل پر جناح ہسپتال کے قریب واقع ایک ہوٹل میں ہولناک آتشزدگی کے نتیجے میں 5 ڈاکٹرز، چار خواتین سمیت 12 افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ عمارت سے چھلانگ لگانے اور دھوئیں کے سبب خواتین اور بچوں سمیت 79 افراد زخمی اور متاثر ہوئے آٹھ منزلہ ہوٹل میں آگ اتوار اور پیر کی درمیانی شب تقریباً تین بجے لگی جس پر فائر بریگیڈ کے عملے نے تین گھنٹے کی مسلسل جدوجہد کے بعد قابو پایا۔ ڈی آئی جی ساﺅتھ آزاد خان کا کہنا ہے کہ ہوٹل میں اموات دم گھٹنے سے ہوئیں۔ معلومات کے مطابق تخریب کاری کا واقعہ نہیں لگ رہا۔ چیف فائر آفیسر کا کہنا ہے آگ کچن میں لگی‘ اے سی سسٹم کے ذریعے دھواں کمروں تک پھیل گیا جس کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات ہوئیں۔ہوٹل میں آتشزدگی کے بعد فائر بریگیڈ کے عملے اور فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن کے رضاکاروںنے آگ بجھانے جب کہ چھیپا،ایدھی ویلفیئر اور فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن کے رضاکاروں کے علاوہ پاک فوج کے جوانوں او رنیوی کے اہلکاروں نے امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔قریب واقع فوج کے اسٹیشن ہیڈ کوارٹر اور نیول ہیڈکوارٹر کی سیکورٹی پر مامور گارڈز نے سیٹیاں بجاکر اپنے ساتھیوں کو الرٹ کیاجس کے بعد فوج کے جوان او رنیوی کے اہلکار ہوٹل کی متاثرہ عمارت پر پہنچے اور لکڑی کی سیڑھیوں کی مدد سے ہوٹل کی بالائی منزل پر پھنسے افراد کو کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر نکالا۔آتشزدگی سے متعلق تیار کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہوٹل میں نصب فائر سسٹم ناکارہ تھا جس کی وجہ سے آگ نے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوٹل کے گراو¿نڈ فلور پر موجود کچن میں آگ حادثاتی طور لگی جب کہ ہوٹل میں ایمرجنسی ایگزیٹ گیٹ موجود تھے تاہم ہوٹل میں موجود لوگ افراتفری کے باعث دروازے استعمال نہ کرسکے۔ ہوٹل انتظامیہ کے مطابق ایمرجنسی الارم کام کررہے تھے تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی الارم کی آواز نہیں سنی، ہوٹل میں آگ بجھانے کے آلات تھے لیکن دھواں ختم کرنے والے آلات نہیں تھے لہذا زیادہ تر ہلاکتیں عمارت میں دھواں بھرجانے کے باعث دم گھٹنے سے ہوئیں۔کراچی بندر گاہ فائر بریگیڈ کے انچارج سعید جدون کا کہنا ہے کہ نائٹ ڈیوٹی منیجربابر الیاس نے لوگوں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کی۔ متعلقہ اداروں کو بروقت اطلاع نہیں دی گئی جسکے باعث جانی نقصان زیادہ ہوا۔ایدھی ذرائع کے مطابق واقعہ کے وقت انتظامیہ کا کوئی فرد موجود نہیں تھا، ہنگامی خروج کے حوالے سے آگاہی نہیں تھی جسکے باعث ریسکیو کے کام میں شدید پریشانی کا سامنا ہوا۔ واقعہ کے وقت ہوٹل میں ہنگامی الارم نہیں بجایا گیا، ہم نے میگا فون کے ذریعے لوگوں کو اطلاع دی جبکہ کئی کمروں کے دروازے توڑ کر وہاں سے لاشوں اور زخمیوں کو نکالا گیا۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے حکم دیا ہے کہ تمام ہوٹل ، فیکٹریاں اور ایسے تمام دیگر ادارے حفاظتی اقدامات پرمکمل طریقے سے عملدرآمد نہیں کر ینگے توانکے خلاف سخت کاروائی کی جائیگی۔وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ ہوٹل کے آگ بجھانے کے آلات کا معائنہ سال 2015ءکے آخر میں ہوا تھا ۔اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ ہر تین ماہ کے بعد کیوں نہیں ہوا جبکہ یہ معائنہ ہر تین ماہ کے بعد کرنا لازمی ہے ۔اس پر انہیں بتایا گیا کہ ہوٹل انتظامیہ نے اس سلسلے میں تعاون نہیں کیا تھا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا کہ وہ ایک تفصیلی انکوائری کریں کہ سول ڈ یفنس کا محکمہ آگ بجھانے کے آلات کا معائنہ کرنے میں کیوں ناکام رہا۔ چیف سیکرٹری سندھ، اسسٹنٹ کمشنرز، مختار کار اور کے ایم سی کے فائرآفیسرز،الیکٹریکل انسپکٹرز اور دوسرے متعلقہ افسران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیں جوکہ ہر ایک ہوٹل ، فیکٹری اور ایسی تمام دیگرعمارتوں کا معائنہ کریں کہ وہاں پر ایمرجنسی کی صورت میں حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں کہ نہیں ۔اور اگر رپورٹ منفی آتی ہے تو ان عمارات میں آ گ بجھانے کے آلات ،ایمرجنسی گیٹ کی تنصیب وغیرہ جنگی بنیادوں پر کی جائے۔شہر قائد میں آئے روز آتشزدگی کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ شہر قائد کی معروف ترین شاہراہ کے قریب اس بڑ ے ہوٹل میںلگنے والی آگ پر فی الفور قابو نہ پایا جانا مجرمانہ غفلت کا ثبوت ہے۔شہر میں اس سے قبل بھی آتشزدگی کے ہولناک واقعات رونما ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان واقعات سے نمٹنے کے لیے سرکاری سطح پر کسی قسم کے اقدامات نہ کرنا کھلی بے حسی ہے۔ شہر قائد میں آتشزدگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل بھی آتشزدگی کے واقعات میں درجنوں قیمتی جانوں کا نقصان ہوچکا ہے، بیشترواقعات میں فائربریگیڈ کا عملہ تاخیر سے پہنچا، کہیں پانی ختم ہوا تو کہیں وسائل کی کمی کا رونا رویا گیا۔گیارہ ستمبر2012 بلدیہ فیکٹری میں لگنے والی آگ کو تاریخ کی سب سے بڑی ہولناک آگ قرار دیا گیا، آتشزدگی کے باعث فیکٹری کے ڈھائی سو سے زائد مزدور لقمہ اجل بن گئے تھے۔رواں سال نومبرمیں شپ بریکنگ یارڈ میں لگنے والی آگ میں اکیس مزدور جان سے گئے، نومبر میں ہی کیماڑی آئل ٹرمینل میں لگنے والی آگ پر دو روز بعد قابو پایا گیا، آگ میںتین افراد جھلس کر جاں بحق ہوئے۔اٹھارہ فروری2007 کو پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کی عمارت میں آتشزدگی کے دو بڑے واقعات پیش آئے، تمام ریکارڈ جل کر خاکستر ہوگیا۔نوجنوری 2009 میں نارتھ کراچی میں خالی پلاٹ میں قائم جھگیوں میں لگنے والی آگ میں بائیس بچوں سمیت چالیس افراد جان سے گئے۔پندرہ جنوری 2007 کو سائٹ ای
ریا میں واقع فیکٹری میں لگنے والی آگ میں ریسکیو کے پانچ اہلکار جان سے گئے۔امدادی رضاکاروں کے مطابق کراچی میں آتشزدگی کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر سامنے آرہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق کراچی میں آئے روز آگ لگنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں، محکمہ موسمیات نے آگ پھیلنے کی ایک وجہ موسم سرما کی ہوا میں نمی کے تناسب کی کمی کو قرار دیا ہے۔فائر بریگیڈ حکام کا کہنا ہے کہ سال 2014 ءمیں اکتوبر کے ماہ میں 415 آگ لگنے کی شکایات موصول ہوئیںجبکہ گزشتہ ماہ 3 سو سے زائد واقعات سامنے آئے ہیں۔ آگ صرف ہوا میں نمی کا تناسب کم ہونے کے باعث نہیں پھیلتی، اس میں انسانی غلطیوں کا بھی کافی عمل دخل ہے، اس لیے کچی آبادیوں میں رہنے والے افراد زیادہ احتیاط کریں۔جیسے جیسے سردیاں آئیں گی، آگ لگنے کی وجوہات بھی بڑھتی جائیں گی، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔کراچی،سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جبکہ وفاق میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے۔دونوں حکومتوں کو آپس میں تناﺅ کی بجائے کراچی کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہئے اور تمام تر اختلافات ،رنجشیں ختم کر کے کراچی کو حقیقت میں روشنیوں کا شہر بنانا چاہئے۔کسی بھی آتشزدگی کے واقعے میں آگ کے بجھنے کا انتظار کرنے کی بجائے امدادی ٹیموں کو فوری ریسکیو کرنا چاہئے۔ریسکیو اہلکاروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا فریضہ ادا کریں اور غفلت برتنے والوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں