میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہم زندہ ہیں اور آپ مرچکے ہیں!

ہم زندہ ہیں اور آپ مرچکے ہیں!

ویب ڈیسک
پیر, ۶ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

معصوم مرادآبادی

صبح جب میں یہ سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو غزہ کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع ہے ۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی خدمات بند کردی گئی ہیں۔ یہی وہ واحد ذریعہ تھا جس کے ذریعہ ہم غزہ میں ہونے والی تاریخ کی بدترین نسل کشی کی دل دہلادینے والی خبریں جان رہے تھے ۔ گزشتہ رات غزہ کے باشندوں پر سب سے زیادہ بھاری گزری ہے ۔ یوں تو 7/اکتوبر کے بعد کا ہردن غزہ کے بے قصور باشندوں پر قیامت سے کم نہیں ہے ، لیکن گزشتہ رات وحشی درندے نے غزہ پر بحری،بری، فضائی اور زمینی چاروں سمتوں سے ‘آکرمن’ کیا ہے ۔ اسرائیلی درندوں نے زمینی کارروائی شروع کردی ہے اور اس کے ساتھ ہی غزہ پر ایسا خوفناک فضائی حملہ کیا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ الجزیرہ کے نامہ نگار کا کہنا ہے ہر طرف جسم کے اعضاء بکھرے پڑے ہیں۔ایک سیکنڈ کے لیے بھی بمباری نہیں رک رہی ہے کہ زخمیوں کو اسپتال لے جائیں۔یوں تو اسرائیل نے 7/ اکتوبر کے بعد ہی غزہ کا مکمل محاصرہ کرلیا تھا۔ وہاں بجلی، پانی، غذا، رسد اور ایندھن کی فراہمی روک دی تھی۔ دواؤں اور طبی آلات کو بھی غزہ میں داخل نہیں ہونے دیا جارہا تھا۔ دنیا چیختی اور چلاتی رہی۔ اقوام متحدہ مسلسل تشویش کا اظہار کرتا رہا۔ مسلم ممالک لگاتار ملاقاتیں اور میٹنگیں کرتے رہے ۔ پوری دنیا میں انسانیت کے خیرخواہ فلک شگاف نعرے لگاتے رہے ، لیکن اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، کیونکہ امریکہ مسلسل اس کی پشت پناہی کررہاہے ۔ دیگر مغربی ممالک بھی غزہ کے خلاف اسرائیل کی وحشت اور درندگی کی حمایت کررہے ہیں۔ کہایہ جارہا ہے کہ یہ سب کچھ حماس کو ملیا میٹ کرنے کے لیے کیا جارہا ہے ، لیکن وہاں لاشیں بے گناہ انسانوں کی بچھی ہوئی ہیں۔ جن میں کمسن بچے ، عورتیں، بوڑھے ، جوان سبھی شامل ہیں۔ہزارہا لوگ زخموں سے کراہ رہے ہیں۔ اسپتالوں میں دواؤں اور طبی آلات کی زبردست قلت ہے ۔اسرائیلی درندگی کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی لاشیں دفن کرنے کے لیے جگہ نہیں ہے ۔ ‘القدس نیوز’نے درست ہی لکھا ہے کہاس وقت غزہ میں اگر آپ شہید نہیں ہوئے ہیں توزخمی ہیں،اگر زخمی نہیں ہیں تو ملبے کے نیچے دبے ہوئے کسی عزیز کو تلاش کررہے ہیں۔اگر تلاش نہیں کررہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ یتیم ہیں۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب ریاض منصور نے گزشتہ روز بلکتے ہوئے غزہ کی صورتحال بیان کی۔ انھوں نے بتایا کہ اسرائیل نے فلسطین کے تین ہزار بچوں اور1700خواتین کو ابدی نیند سلادیا ہے اور اب بھی خوفناک بمباری جاری ہے ۔انھوں نے کہا کہ غزہ میں پورے پورے محلے تباہ ہوگئے ہیں اور خاندانوں کے خاندان ملیا میٹ کردئیے گئے ہیں۔ غزہ میں 1600 بچے اب بھی ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ فلسطینیوں کی تباہی کے بعدواپس جانے کے لیے کوئی گھر نہیں بچا ہے ۔ اسرائیل نے وہاں 14/لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر اور بے در کیا ہے ۔فلسطینی مندوب نے مزید کہا کہ ہر ایک سیکنڈ میں کئی فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے ۔انھوں نے اسرائیل کو عالمی قوتوں کی حمایت اور بے حسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ اسرائیل کے لیے درد محسوس کررہے ہیں اور فلسطین کی تباہی پر خاموش ہیں۔ایسا کیوں ہے ؟یہ مذہبی تعصب ہے ، نسلی امتیاز ہے یا کالے گورے رنگوں کی نفرت انگیز سوچ؟
غزہ میں اب تک ساڑھے سات ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔سترہ ہزار زخمی ہیں۔غزہ کی 23/ لاکھ آبادی کے سامنے غذا،پانی، دواؤں اور ایندھن کی پہلے ہی قلت تھی۔یہاں تک کہ راحت کا سامان پہنچانے والے ٹرکوں کو بھی ایندھن نہیں دیا جارہا تھا۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اگر غزہ کے اندر ٹرکوں کو ایندھن نہیں ملا تو مددجلد ہی بند ہوجائے گی۔غزہ کو یومیہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار لیٹر ایندھن کی ضرورت ہے جبکہ وہاں ایک لیٹر ایندھن بھی موجود نہیں ہے ۔مگر اسرائیل کی ہٹ دھرمی برقرار ہے ۔ اسرائیلی وزیراعظم کے سینئر مشیر کا کہنا ہے کہ ‘حماس سارے یرغمالی چھوڑ دے تب بھی غزہ کو ایندھن کی فراہمی نہیں ہونے دیں گے ۔ ایندھن جانے دیا تو حماس اسے جنگ کے لیے استعمال کرے گا۔غزہ کو یومیہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار لیٹر تیل کی ضرورت ہے جبکہ وہاں ایک لیٹر تیل بھی دستیاب نہیں ہے ۔گزشتہ منگل کوغزہ میں اسرائیل کی سب سے خوفناک بمباری میں سیکڑوں بے گناہ فلسطینی لقمہ اجل بن گئے ۔ ان میں 182بچے اور درجنوں خواتین شامل تھیں۔ دنیا کی سب سے بری جیل کہا جانے والا غزہ اب دنیا کا سب سے بڑا قبرستان نظر آتا ہے ۔ ہرطرف تباہی وبربادی کے ایسے خوفناک مناظر ہیں کہ انھیں پوری طرح الفاظ کی گرفت میں نہیں لیا جاسکتا۔غزہ کے اسپتالوں میں مریضوں کے آپریشن کے دوران انھیں بے ہوش کرنے والے انجکشنوں کی بھی قلت ہے ۔ بے ہوش یا سن کئے بغیر زخمیوں کی پیوند کاری کی جارہی ہے ۔ اسرائیلی بربریت میں زخمی ہونے والا ایک بچہ اپنی ٹانگ کی سرجری کے دوران قرآن مجید کی تلاوت کررہا ہے ۔اس نے ڈاکٹر سے کہا تھا کہآپریشن کے دوران جب میں تلاوت کروں گا تو تکلیف رفع ہوجائے گی۔ غزہ میں والدین نے اسرائیلی بمباری سے شہادت کی صورت میں شناخت کے لیے اپنے بچوں کے جسموں پر ان کے نام لکھنے شروع کردئیے ہیں۔
مغربی دنیا ابھی تک اسرائیل پر ہونے والے حماس کے حملوں کا ماتم کررہی ہے ، لیکن اس کے پاس ان ہزاروں بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کے لیے ہمدردی کے دولفظ بھی نہیں ہیں جو ہرروز اسرائیل کی بدترین دہشت گردی کے نتیجے میں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اب تک اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں غزہ میں جو بچے شہید ہوئے ہیں، انھیں جنگ کا مطلب بھی نہیں معلوم ہے ۔ نہ ہی وہ دنیا کی منافقانہ سیاست کو سمجھتے ہیں۔ سارے منافق ہمدردی جتانے تل ابیب پہنچ رہے ہیں، لیکن ان میں سے ایک بھی انسانی ہمدردی کا ڈھونگ رچانے غزہ نہیں پہنچا ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل پکنک منانے کا ایک محفوظ مقام ہے جبکہ غزہ زمین پر ان ہی کا تخلیق کیا ہوا ایک ایسا جہنم ہے جہاں زندہ رہنے کے امکانات سب سے کم ہیں۔ہسپانوی وزیربرائے سماجی حقوق ایونی پلارا نے درست ہی کہا ہے کہغزہ میں اسرائیل جو کچھ کررہا ہے ، وہ جنگی جرم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی ہے ۔اس نے لاکھوں لوگوں کو بجلی، پانی اور خوراک سے محروم کردیا ہے ، وہ شہریوں کے خلاف بمباری کی کارروائیاں کررہا ہے ، جو کہ اجتماعی سزا اور بین الاوقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔
غزہ پر گزشتہ تین ہفتوں سے جو آگ برس رہی ہے ، اس میں سب سے بڑا المیہ ان بچوں سے پیدا ہوا ہے جو دردناک موت کا شکار ہورہے ہیں۔سوشل میڈیا پر غزہ کے دم توڑتے ہوئے بچو ں کی جو دردناک تصاویرگردش کررہی ہیں، وہ روح کو لرزا دینے اور جسم میں ارتعاش پیدا کرنے والی ہیں۔ دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں غزہ میں ڈھائے جارہے تاریخ کے بدترین مظالم کے خلاف احتجاج نہیں ہورہا ہے ۔ ظاہر ہے یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانیت کی بقاء اور اس کے تسلسل کا مسئلہ بھی ہے ۔ اسی لیے جہاں جہاں انسان بستے ہیں وہ جنگ نہیںکے پلے کارڈ لے کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ خود یہودی بھی اس ظلم وستم پر چیخ اٹھے ہیں۔ مگر اسرائیل کے سرپر جنگی جنون سوار ہے اور وہ حماس کوملیا میٹ کردینے کے نام پر غزہ کو ہی صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا ہواہے ۔اسرائیل کے سرپرست امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ملکوں کے بے شرم لیڈران اب بھی حالات سے آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔ ہاں سابق امریکی صدر اوبامہ نے ضرور زبان کھولی اور کہاہے کہاگرغزہ میں انسانی آبادیوں پر یو نہی بم گرتے رہے تو اسرائیل دنیا میں یکہ وتنہا ہوجائے گا۔لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ وقت کب آئے گا؟
سب سے زیادہ شرمناک صورتحال ان عرب ملکوں کی ہے جنھوں نے اب تک میٹنگوں اور ماتم کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے ۔وہ کربھی کیا سکتے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے تاجوں کی حفاظت کے عوض امریکہ کے ہاتھوں اپنا جو کچھ گروی رکھا ہوہے ، اس میں ان کا مردہ ضمیر بھی شامل ہے ۔وہ خود بھی مردہ ہوچکے ہیں۔ایک ترکی چینل پر سنایا گیا ایک مظلوم فلسطینی کا یہ پیغام آپ بھی سنئے : مسلم ملکوں کو بتادیں کہ وہ فلسطینیوں کی غائبانہ نمازجنازہ ادانہ کریں، ہم زندہ ہیں اور آپ مرچکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں