خوشحالی کاخواب
شیئر کریں
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگرآج تک زراعت کی حقیقی اہمیت کو محسوس نہیں کیا جا سکا ہے ، اسی باعث ہماری زراعت آج بھی روایتی ڈگر پر قائم ہے اور موسمیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل کے باعث شعبہ زراعت زوال پذیر ہے یہی وجہ ہے یہ ملک آج بھی زرعی ان سکا نہ صنعتی ہمیشہ تجربات نے ماضی کے اقذامات کا دھڑن تختہ کرکے رکھ دیا بیجنگ کی ایک جامعہ میں زرعی تحقیق سے وابستہ پاکستانی اسکالر سمیرا اصغر رائے نے زراعت کی اہمیت پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کے دوران چین کی مثال دیتے ہوئے یاادلایاکہ چین آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور یقینا ایک ارب چالیس کروڑ باشندوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں، مگر چین نے خود کو وقت کے ساتھ بدلا ہے۔زراعت میں جدت لائی گئی ہے جس سے فصلوں کی پیداوار میں مسلسل بہتری آتی جا رہی ہے۔آج چین پاکستان کے مقابلہ میں اناج میں خود کفیل ہو چکا ہے اور دنیا میں خوراک کی ضروریات کو بھی پورا کر رہا ہے جبکہ پاکستان آلو،ٹماٹر،ادرک،پیازسمیت کئی سبزیاں امپورٹ کرکے قیمتی زرِمبادلہ صرف کررہاہے جوہماری معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ہے جس کی وجہ سے امریکن ڈالر،برطانوی پونڈ اور پورپین یورو کی قیمتیں کنٹرول نہیں کی جاتیں اور راتوںرا ت پاکستان کے ذمہ غیرملکی قرضوںمیں ہوشربا اضافہ ہوجاتاہے۔چینی حکومت کے نزدیک زراعت اور دیہی علاقے کس قدر اہم ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکیس فروری کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے دو ہزار اکیس کی پہلی دستاویز جاری کی ہے۔حسب معمول پہلی دستاویز زراعت اور دیہی علاقوں کی ترقی پر مرکوز ہے۔مذکورہ دستاویز پانچ حصوں پر مشتمل ہے ، جن میں زراعت اور دیہی ترقی کے مجموعی تقاضے ، دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے نتائج کی تقویت اور دیہی ترقی، زرعی جدت کاری کا فروغ ، دیہی بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر ، دیہات ، زراعت اور کسانوں سے متعلق امور میں بہتری شامل ہیں۔دستاویز میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ دیہی تعمیر کو بھرپور اہمیت دی جائے گی ، دیہی صنعت ، ثقافت اور ماحولیات کو فروغ دیا جائے گا ، ،زراعت اور دیہی علاقوں کی جدت کاری ، دیہات اور شہروں کی ہم آہنگ ترقی اور دیہی علاقوں میں رہائشی ماحول کی بہتری سمیت دیگر امور پر زیادہ سرمایہ کاری کی جائیگی۔
چین کی جانب سے 2021 ء کے لئے زراعت اور دیہی علاقوں سے متعلق اہداف اور کاموں کے ساتھ ساتھ 2025 ء تک کی مدت کے لئے وسیع تر نقطہ نظر اپناتے ہوئے اہم امور کا تعین کیا گیا ہے۔چین کی واضح پالیسی ہے کہ رواں برس بھی زرخیز علاقوں میں فصلوں کی بہتر پیداوار یقینی بنائی جائے گی، اناج کی پیداوار 650 ارب کلوگرام سے تجاوز کرے گی ، زرعی مصنوعات اور خوراک کے تحفظ کے معیار کو مزید بہتر بنایا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کاشتکاروں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہو سکے۔ ملک میں زراعت اور دیہی علاقوں کی جدت کاری کے منصوبے پر عمل درآمد جاری رہے گا ، اور دیہی علاقوں میں اصلاحات کو مزید فروغ دیا جائے گا۔چین سال 2025 تک زراعت اور دیہی علاقوں کی جدت کاری میں خاطر خواہ پیشرفت کا متمنی ہے اور ایک مزید مستحکم زراعت کی بنیاد پر دیہی اور شہری باشندوں کے درمیان آمدنی میں پائے جانے والے خلا کو پر کرنا چاہتا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین نے گزشتہ برس انتہائی غربت سے نجات حاصل کر لی ہے اور انسداد غربت کے کامیاب نتائج کو مزید مستحکم کرنے کے لیے آئندہ پانچ برسوں تک مستقل اقدامات کیے جائیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ غربت کی دلدل سے باہر نکلنے والے افراد کہیں دوبارہ اس کا شکار نہ ہو جائیں۔اس ضمن میں دیہی باشندوں کے مستقل روزگار اور ان کی آمدنی میں اضافے کے لیے ترجیحی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں۔جہاں تک زرعی جدت کاری کا تعلق ہے تو اس میں اناج اور اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ملکی صلاحیت میں مضبوطی حکومتی ترجیح ہے ، اناج کی بہتر پیداوار کے لیے قابل کاشت رقبے میں اضافہ ، جدید کاشتکاری نظام کی تعمیر میں تیزی ،گرین اور پائیدار زراعت اور زرعی مصنوعات کی تجارت کو مزید آسان اور منافع بخش بنانے کے لیے اہم اہداف کا تعین کیا گیا ہے جس میں ای۔کامرس کا بھرپور استعمال بھی شامل ہے۔چین کی کوشش ہے کہ زرعی حیاتیاتی عمل میں بڑے سائنسی اور تکنیکی منصوبوں کے نفاذ کو تیز کیا جائے۔سائنس و ٹیکنالوجی ،زرعی تحقیق اور زرعی آلات میں جدت کے تحت زراعت کو جدید خطوط پر استوار رکھا جائے۔چین آئندہ عرصے میں دیہی تعمیر و ترقی کے لئے ایک جامع ایکشن پلان کو بھرپور طریقے سے نافذ کرے گا ، بہتر دیہی پبلک انفراسٹرکچر اور بنیادی عوامی خدمات کے اہداف کا تعین کرے گا ، دیہی کھپت کی مضبوطی اور کانٹیوں میں ترقی سے مربوط شہری دیہی ترقی کو آگے بڑھایا جائے گا۔یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ عرصے میں پاکستان اور چین نے سی پیک کے تحت زرعی شعبے میں تعاون کا عزم ظاہر کیا ہے جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ چین کے کامیاب زرعی تجربات ،ٹیکنالوجی اور مشینری کا پاکستان کے ساتھ تبادلہ کیا جا سکے گا۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والا ایک بڑا ملک ہے اور فصلوں و اناج کی پیداوار میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔پاکستان اورچین دوستی کا حقیقی تقاضا بھی یہی ہے کہ ایسے مسائل سے مشترکہ طور پر نمٹتے ہوئے دوطرفہ تعاون کو عوامی فلاح و بہبود کے لئے موئثر طور پر استعمال کیا جائے ایسے اقدامات کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اپنی معیشت کو زرعی اور صنعتی تقاضوںسے ہم آہنگ کرنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کریں تاکہ دورِ حاضرکے چیلنجزکامقابلہ جرأت اور دانش مندی سے کرسکیں اسی تناظرمیں کہاجاسکتاہے کہ زراعت سے وابستہ صنعتوںکی ترویج ہی ترقی کا زینہ ہے اس سلسلہ میں دنیا بھرمیںٹیکسائل انڈسٹری کے ساتھ ساتھ چاول ،آم ،کینو جیسی اجناس کی ایکسپورٹ کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل پاکستان کو پوری دنیا میں سربلندکرسکتاہے ،کیونکہ زراعت اورصنعتیں ترقی کریں گی تو ملک آگے بڑھے گا، ملک کی معاشی ترقی میں کاروباری اداروں کا اہم کردار ہے،کاروباری ادارے ملک کی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ لیتے ہیں۔ وزیراعظم کے وژن کے تحت حکومت نے صنعتی انقلاب کے لیے
نمایاں اقدامات کیے، سازگار کاروباری پالیسیوں کے ذریعے سرمایہ کاروں کو ہرممکن سہولیات دے رہے ہیں۔ سابقہ دور میں ڈی انڈسٹرلائزیشن ہو رہی تھی، پی ٹی آئی نے اقتدارمیں آتے ہی ڈی انڈسٹرلائزیشن روکنے کے لیے اقدامات کیے تاکہ ملک میں ملکی اورغیرملکی سرمایہ کاروں اورکاروباروں کو تحفظ حاصل ہوسکے اگر حکومت نے ملک میں صنعتی سرگرمیوں کے فروغ پر بھرپورتوجہ دی تو ملک میں کام کرنے والی کمپنیوں کے منافع میں ریکارڈ اضافہ ہو گا جس سے صنعتی اور زرعی شعبہ میں انقلابی اقدامات سے لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوگا، حکومت کادعویٰ ہے کہ جب سے عمران خان برسرِ اقتدار آئے ہیں 1100 ارب روپے رورل اکانومی سے زرعی شعبہ میں منتقل ہوئے،ملک میں گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور ٹریکٹروں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہواجویقینا خوش آئندہے لیکن جب تلک ترقی کے ثرات سے عام آدمی کو فائدہ نہیں ہوگا حقیقی خوشحالی کا خواب شرمندہ ٔ تعبیرنہیں ہو سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔