میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارتی سیاسی پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ

بھارتی سیاسی پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ

منتظم
اتوار, ۶ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

کنچن چندرا

اب جبکہ اگلے سال بھارت کے صوبہ اترپردیش میںاگلے سال عام انتخابات ہونے والے ہیںاترپردیش میں ملائم سنگھ یادیو کی حکمراںسماج وادی پارٹی مشکلات میں گھری نظر آرہی ہے۔اطلاعات کے مطابق اترپردیش اسمبلی میں یادیو فیملی یعنی یادیو گھرانے کے 20ارکان موجود ہیں جبکہ ہر سطح پر سماج وادی پارٹی ہی چھائی ہوئی ہے۔ ملائم سنگھ یادیو سیاست کے پرانے اور شاطر کھلاڑی کے طورپر پہچانے جاتے ہیں اور وہ اپنے مخالفین کو بھی اپنا ساتھ دینے پر مجبور کردینے کے فن میں ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ملائم سنگھ یادیو ہی سماج وادی پارٹی کے سربراہ ہیں جبکہ ان کابڑا بیٹا اکھیلیش یادیو اترپردیش کی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہے ۔ملائم سنگھ یادیو کے بھائی شیو پال یادیو صوبے میں ایک اہم وزارت سنبھالے ہوئے ہیں،ایوان زیریں میں سماج وادی پارٹی کے تمام دیگر ارکان کا تعلق بھی یادیو فیملی ہی سے ہے یعنی سماج وادی پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام ارکان اسمبلی ملائم سنگھ یادیو کے قریبی عزیز اور رشتہ دار ہیں۔جبکہ اس فیملی کے دیگر ارکان جو اسمبلی تک نہیں پہنچ سکے ہیں اس وقت بلدیاتی اور علاقائی محکموں میں براجمان ہیں۔
اگرچہ بھارت کے دیگر صوبوں میں بھی مختلف گھرانوں کے لوگ ہی سرفہرست ہیں لیکن اتر پردیش اسمبلی میں جس طرح ملائم سنگھ یادیو فیملی نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں کسی اور بھارتی صوبے میں کسی اور سیاسی فیملی کو اتنی رسائی حاصل نہیں ہے۔لیکن اب ملائم سنگھ یادیو فیملی کا یہ اتحاد ٹوٹتا نظر آرہا ہے جس نے بھارت اور خاص طور پر اترپردیش کی سیاست پر حاوی ملائم سنگھ یادیو خود بھی پریشان نظر آرہے ہیں، اترپردیش میں یادیو فیملی میں پھوٹ کے آثار تو بہت پہلے ہی نظر آنا شروع ہوگئے تھے لیکن ملائم سنگھ یادیو نے مخالفین کو بھی ساتھ دینے کی اپنی خداداد صلاحیت سے کام لیتے ہوئے پارٹی اور فیملی میں پڑتی ہوئی ان دراڑوں کو اتنا واضح نہیں ہونے دیاتھاکہ مخالفین اس سے فائدہ اٹھانے کا سوچ سکتے لیکن اب یہ دراڑیں اتنی واضح ہوکر ابھری ہیں کہ ان کو چھپانا ملائم سنگھ یادیو کیلئے بھی مشکل نظر آرہاہے ، اس مرتبہ خود ملائم سنگھ یادیوکے بڑے بیٹے یعنی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اکھیلیش یادیو نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنے چچاسے اختلاف کے بعد تمام سرکاری محکموں میں ان کی سفارش پر تعینات کئے ہوئے افسران کے غیر اہم مقامات پر تبادلے کردئے ہیں بہت سوں کو برطرف کردیاہے یہاں تک اپنے چچا اور کابینہ میں موجود ان کے تمام حامی وزیروں کو بھی فارغ کردیاہے۔بیٹے کے اس عمل پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے ملائم سنگھ یادیو نے اپنے بیٹے کو سماج وادی پارٹی کی صوبائی صدارت سے فارغ کرکے اپنے بھائی شیو پال یادیو کو یہ عہدہ دے دیاہے۔شیو پال یادیو نے پارٹی کی صوبائی صدارت سنبھالتے ہی اپنے بھتیجے یعنی اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے تمام حمایتیوں اور وفادار پارٹی عہدیداروں کو ان کے عہدوں سے ہٹادیاہے جن میں خود ان کے رشتہ داررام گوپال یادیو اور اودے ویر یادیو بھی شامل ہیں۔اب بات یہیں ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ اکھیلیش یادیو کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے فارغ کرنے کی بھی تیاریاں کی جارہی ہیں اور عین ممکن ہے کہ پارٹی کو ٹوٹنے سے بچانے اور صوبے پر اپنی گرفت قائم رکھنے کیلئے خود ملائم سنگھ یادیو یہ منصب سنبھالنے پر مجبور ہوجائیں۔
بھارت کی سیاست میں مختلف گھرانوں کی اجارہ داری کی یہ صرف ایک مثال نہیں ہے بلکہ بھارت کی 31 علاقائی حکومتوں میں سے 31 پر کوئی نہ کوئی سیاسی گھرانا قابض نظر آتاہے یعنی بھارت کی 53 فیصد آبادی پر چند خاندانوں کی حکمرانی بلکہ بادشاہت قائم ہے۔مثال کے طورپر شمالی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کاتعلق حکمراں اکالی دل کے سربراہ کی فیملی سے ہے،اسی طرح وسطی بھارت کی ریاست چتیش گڑھ کے وزیر اعلیٰ کاتعلق بھاریہ جنتا پارٹی کی مرکزی قیادت کے فیملی سے ہے۔اسی طرح راجستھان کے وزیر اعلیٰ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے یسوندھرا راج سندیا ایک ایسے سیاسی گھرانے کے فرد ہیں جس کے تمام اہم افراد سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔میگھالے کے وزیر اعلیٰ مکل سنگما کاتعلق کانگریس سے ہے جبکہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی جن کاتعلق تیرینامول کانگریس سے ہے اور حال ہی میں انھوںنے اپنی کابینہ میں اپنی فیملی کے 2 غیر معروف افراد کوشامل کرکے صوبے کی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے، پارٹی اورحکومت میں ایک ہی خاندانوں کی موجودگی کاایک بڑا فائدہ یہ ہوتاہے کہ متعلقہ حکمراں یاپارٹی سربراہ کو باہر سے کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ رشتہ داریاں سب کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے کیلئے گوند کاکام دیتی ہےں،لیکن جس طرح اترپردیش میں سماج وادی میں پھوٹ پڑی ہے دیگر ریاستوں میں بھی اس طرح کے آثار نمودار ہوتے نظر آرہے ہے اور اس وقت جبکہ انتخابات کو بہت کم وقت رہ گیاہے اس صورت حال میں بھارتی سیاست کے اہم کھلاڑیوں کی راتوں کی نیند حرام کردی ہے۔کیونکہ یہ بات ان کوبھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وقت جبکہ پورا مذہبی جنونیت کا شکار ہے پارٹی کو مستحکم رکھتے ہوئے انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے اورخاندان اور پارٹی میںمعمولی سا بھی اختلاف مذہبی جنونیت سے کھیلنے والے سیاستدانوں کو اپنا کام دکھانے اور برسہا برس سے ان کے خاندانوں کی سیاست پر قائم اجارہ داری کا خاتمہ ہوسکتاہے۔
بھارتی سیاست میں مذہبی جنونیت کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بھارت کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کوچکرا کر رکھ دیاہے ،اور وہ اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کیلئے تدبیریں تلاش کررہے ہیں ،بظاہر اس کا ایک ہی حل نظر آتاہے وہ مذہبی جنونیت اور انتہاپسندی کے خلاف تمام اعتدال پسند سیاسی پارٹیوں کا وسیع تر اتحاد ہے لیکن اس وقت جبکہ تمام پارٹیاں اندرونی ٹو ٹ پھوٹ اور مختلف مسائل کی بنیاد پر انتشار کاشکار ہیں،بھارت کی روایتی سیاست میں اس تبدیلی کی ایک بڑی اوربنیادی وجہ ملک میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہے، اور نوجوان پرانے طرز کی سیاست کو زیادہ پسند نہیں کرتے بھارت کی کم وبیش ایک اورب 25 کروڑ کی آبادی میں نصف سے زیادہ 20 سے35 سال تک عمر کے نوجوانوں کی ہے،جبکہ ملائم سنگھ یادیو کی عمر کم وبیش77سال بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی کی عمر 60 سال سے کچھ زیادہ اورکانگریس کی شیلاڈکشٹ کی عمر 80 سال کے قریب پہنچ چکی ہے۔ظاہر کہ یہ عمر رسیدہ قیادت نوجوانوں کے جذبات کونہ تو صحیح طرح سمجھ سکتی ہے اور نہ ہی ان کی ترجمانی کرسکتی ہے ،بھارت میں مذہبی جنونیت میں اضافے اور ابھارکا بنیادی سبب بھی سیاست میں نوجوانوں کی دلچسپی ہے مذہبی انتہاپسندوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور مذہب کے نام پر نوجوانوں کو اشتعال دلانے اور اکسانے میں کامیاب ہوگئے جس کے نتیجے میں اس گروپ کو اپنے مفادات کے حصول کا موقع مل گیا لیکن پوری دنیا میں بھارت کا نام بھی ایک انتہاپسندی کی راہ پر گامزن ملک کی حیثیت سے سامنے آگیا۔
یہ صورتحال تمام سیاسی جماعتوں بلکہ خو د ان جماعتوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو نوجوانوں کے جذبات غلط طورپر برانگیختہ کرکے اپنے مقاصد حاصل کررہی ہیں یا اس کی کوشش کررہی ہیں، ایسا کرنے والی پارٹیوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری راہ سے ہٹا کر انھیں تخریب کاری اور دہشت گردی کی راہ پر ڈال کر خود انھیں کیاحاصل ہوسکتاہے اور کیا کسی بھی وقت خود ان کی تیار کردہ یہ مہار طاقت ان کے اپنے سنگھاسن کیلئے خطرہ نہیں بن سکتی۔
بھارت کی موجودہ دگرگوں سیاسی صورتحال کاتقاضہ ہے کہ تمام اہم سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ایک لائحہ عمل طے کریں اپنی پالیسی سازی میں نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ شریک کرنے کے ساتھ ہی ان کی رائے کو اہمیت دینے اور ان پر غور کرنے پر توجہ دیں اور انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت پر بند باندھنے کیلئے عوام کیلئے آگہی مہم شروع کریں وہ بھارت کے عوام اور خاص طورپر نوجوانوں کو جنونیت اور انتہاپسندی کے بھیانک نتائج سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں اور آپ میں لڑنے کے بجائے متحدہو کر انتہاپسندانہ خیالات کا پرچار کرکے ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کا مقابلہ کریں تاکہ ان پارٹیوں کے رہنما بھی اپنی انتہا پسندانہ پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں