میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت میں مسلم جائیدادوں کا انہدام

بھارت میں مسلم جائیدادوں کا انہدام

ویب ڈیسک
اتوار, ۶ اکتوبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں جن میں غیر قانونی حراست، تشدد اور قیدیوں کی جعلی مقابلوں میں ہلاکتیں ، لوگوں پر کھلے عام حملہ کرنے، ان کے ذریعہ معاش اور بہت سے معاملات میں ان کی عبادت گاہوں کے خلاف وسیع پیمانے مداخلت شامل ہے۔ موجودہ مودی حکومت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مزید دبانے کے لیے ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دے رہی ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ جائیدادوں کے انہدام کے متعلق ملک گیر رہنما خطوط جاری کرے گی۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کسی کی جائیدار صرف اس وجہ سے بلڈوز نہیں کی جاسکتی کہ وہ ملزم ہے۔ جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشوا ناتھن ناتھن پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی پنچ نے جائیدادوں کے انہدام سے متعلق کئی عرضداشوں پر سماعت کے دوران کہا کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے ، ہم تمام شہریوں اور تمام اداروں کے لیے رہنما خطوط جاری کریں گے جو کسی ایک مخصوس برادری کیلئے نہیں ہونگے۔ بنچ نے کہا کہ عدالت پہلے ہی یہ کہہ چکی ہے کہ سڑک کے بیچ اگر کوئی مذہی ڈھانچہ ہو چاہے وہ درگاہ ہو یا مندر اسے ہٹانا پڑے گا کیونکہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔ ایک مخصوص مذہب کیلئے الگ قانون نہیں ہوسکتا ، کسی شخص کے محض ملزم ہونے کی بنا پر اسکی جائیداد نہیں ڈھائی جاسکتی۔ انہدام کے حکم اور انہدامی کارروائی کے درمیان کم از کم پندرہ روز کی مہلت دی جانی چاہیے تاکہ متاثرہ شخص متبادل انتظام کر سکے ، عورتوں اور بچوں کو سڑکوں پر لانا اچھا نہیں۔عدالت جمعیت علمائے ہند اور دیگر کی درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 17ستمبر کو اپنے احکام میں کہا تھا کہ اسکی اجازت کے بغیر یکم اکتوبر تک کوئی جائیداد مسمار نہیں کی جائے گی اور یہ حکم معاملے کا تصفیہ ہونے تک جاری رہے گا۔
بھارت میں مودی کے دور میں مسلمان مسلسل تشدد کا شکار ہیں۔ 77 سال بعد بھی بھارت میں مقیم مسلمانوں کو پاکستانی ہونے کے طعنہ دیئے جاتے ہیں۔ مسلمان بلڈوزر مہم کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ بھارت میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک کی ایک ر پورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ چند سالوں میں مودی حکومت کی ظالمانہ بلڈورز مہم کے دوران مسلمانوں کے 153000 مکانات کو مسمار اور 738000 افراد کو بے گھر کیا گیا۔
بھارت کی سپریم کورٹ جلد کو اس سلسلے میں مختلف درخواستوں کی سماعت کرے گی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں اور متاثرہ کمیونیٹیز کو امید ہے کہ اس ظالمانہ عمل پر پابندی لگائی جائے گی۔ مسماری مہم کے دوران جس کو حکام غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی قرار دے کر جواز پیش کر رہے ہیں۔ زیادہ تر مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس کو مسلمانوں کی اجتماعی سزا سمجھا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اگلی سماعت تک اس کی منظوری کے بغیر مسماری مہم کو عارضی طورپر روک دیا ہے۔ انسانی حقوق کے حامیوں کا استدلال ہے کہ یہ کارر وائیاں بغیر مناسب عمل کے اجتماعی سزا کے مترادف ہیں جو انصاف کے بنیادی اصولوں کے منافی ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ سکول میں ٹیچر ہمارے بچوں سے جے شری رام کے نعرے لگواتے ہیں، بھارتی مسلم خاتون کا کہنا ہے کہ ہمارے پورے علاقے میں 10 فیصد سے بھی کم مسلمان خاندان آباد ہیں جنہیں شدیدامتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اونچی ذات کے ہندو مسلمانوں کو نیچ سمجھتے ہیں، انہیں اپنے گھروں میں گھسنے نہیں دیتے جبکہ نچلی ذات کے ہندو ہمارے ساتھ مذہبی تہوار تک مناتے ہیں۔ بھارتی مسلم خاتون کا کہنا ہے کہ ہمارے علاقے میں مندر، گردوارہ اور گرجا گھر تو ہیں مگر مسجد نہیں ہے، ہمیں عید منانے کیلئے اجازت مانگنا پڑتی ہے،ایک مسلم بچے کی والدہ کا کہنا ہے کہ بچوں کو ویڈیو گیمزمیں سننا پڑتا ہے کہ دشمن پاکستانی ہیں اور بھارتی مسلمان بھارت چھوڑ کر چلے جائیں ہمیں تو مسلمان ہونے کی وجہ سے کوئی کرایے پر مکان تک نہیں دیتا کیونکہ ہندو سمجھتے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ہمیں اس بات کی تشویش ہے کہ اگر مسلمانوں پر ظلم و ستم ایسے ہی جاری رہا تو بھارت مسلمانوں کے لیے مزید غیر محفوظ ہو جائے گا، بھارت میں اقلیتیں بالخصوص مسلمان اس قدر غیر محفوظ ہو چکے ہیں کہ اب انہیں اپنے بچوں کا مستقبل بھی تاریک نظر آتا ہے ،انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں حکام نے ایسے قوانین اور پالیسیاں اپنائی ہیں جن کے ذریعے منظم طریقے سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا نشانہ جاتا ہے اور حکومت کے ناقدین کو بدنام کیا جاتا ہے۔ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آزاد اداروں، جیسے کہ پولیس اور عدالتوں میں مداخلت کر رہی ہے اور وہ قوم پرست گروہوں کو مذہبی اقلیتوں کو دھمکیاں دینے، ہراساں کرنے اور ان پر حملے کرنے پر اکساتی ہے۔ حکومت نہ صرف مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو حملوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے بلکہ سیاسی سرپرستی اور تعصب کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔
بی جے پی اور اس کی نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( ار ایس ایس) نے ہندوؤں کو مسلمان اور عیسائی مذہب اختیار کرنے پر خبردار کیا اور بھارت میں ” آبادیاتی عدم توازن” روکنے پر زور دیا۔ اسی وجہ سے بھارت کی آزادی کے بعد سے مسلمانوں کو آئینی تحفظات کے باوجود منظم امتیازی سلوک، تعصب اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔نریندرا مودی کی جماعت بی جے پی کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مسلسل ناروا سلوک کا سامنا ہے حالانکہ بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں تقریبا 15 فیصد مسلمان اور کم و بیش 80 فیصد ہندو ہیں۔ تمام خصوصی قوانین جو برسوں پہلے بنائے گئے تھے ، پولیس کے ہاتھ میں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے اور بغیر کسی سماعت کے برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں