میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جھیل کے پرندے کبھی اس کنارے، کبھی اُس کنارے <br>(دیر سویر/ الطاف مجاہد)

جھیل کے پرندے کبھی اس کنارے، کبھی اُس کنارے
(دیر سویر/ الطاف مجاہد)

ویب ڈیسک
اتوار, ۶ اکتوبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

اردو یا سندھی ہی نہیں سرائیکی ، بلوچی، براہوی اور پشتو و کشمیری زبانوں میں بھی انگریزی فارسی اور لاطینی کی طرح منافقت، تضاد بیانی، لوٹا کریسی پر درجنوں ضرب الامثال اور محاورے موجود ہیں۔ بالی وڈ کی معروف و ممتاز اداکارہ ریکھا کے بارے میں بھارت کے صحافی یاسر عثمان نے "Rekha: the untold story” میں بیان کیا ہے کہ کانونٹ اسکول مدراس میں بچے ریکھا کو ’’لوٹا، لوٹا‘‘ پکارتے تھے جس کے معنیٰ دنیا کی قدیم ترین زبان تامل میں ناجائز اولاد کے لئے جاتے ہیں۔ برصغیر کا پہلا لوٹا کون تھا یوپی کے حافظ ابراہیم یا لاہور کے ڈاکٹر عالم اس پر متضاد آرا موجود ہیں کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عالم جماعت اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پر الیکشن جیتنے کے بعد مسلم لیگ اور اسے تیاگ کر کانگریس سے جاملے تھے۔ راوی اس کے معروف لکھاری خالد احمد ہیں ایسا ہی حافظ ابراہیم کے بارے میں سنا کہ ان کی مسلم لیگ و کانگریس سمیت کئی جماعتوں میں آوت جاوت لگی رہتی تھی۔
خان بہادر اﷲ بخش گبول نے سندھ میں ٹوٹتی بنتی حکومتوں اور سیاستدانوں کی آئے روز کی قلا بازیوں پر کہا تھا کہ ’’رخ بدلتے دریائے سندھ کا پانی پینے والے وڈیرے بھی موقف بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ حالانکہ جنب گزاریم جن سین جلد اول میں سائیں جی ایم سید نے موصوف کا جو طرز سیاست بیان کیا ہے وہ بھی وڈیروں جیسا ہی ہے۔ 1936ء کی پہلی سندھ اسمبلی سے 2018ء کے ایوان تک صوبے کی سیاسی اشرافیہ نے سندھ اتحاد پارٹی، سندھ پولیٹکل پارٹی، مسلم لیگ، ری پبلکن پارٹی، کنونشن لیگ ، پیپلزپارٹی، ضیاء لیگ، جونیجو لیگ، فدا لیگ، نواز لیگ، مسلم لیگ ق اور ہم خیالوں سمیت کسی کو مایوس نہ کیا۔ ایک سابق بیوروکریٹ اور سفارت کار نے جو نوازشریف ، بے نظیر حکومتوں کا حصہ رہے کہا تھا : ’’مجھے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ’’بیربل بنوں یا ملا دو پیازہ‘‘بس دربار میں موجودگی ضروری ہے‘‘ دو عشرے قبل پنجاب اسمبلی میں غلام حیدر وائیں کے حق میں قرارداد منظور کرنے والے ارکان اگلے ہی روز میاں منظور وٹو کے حق میں ہاتھ اٹھارہے تھے اور ان سے دل بھرجانے کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کے دست پر بیعت کرتے نظر آئے تھے۔
لوٹے کی دراصل بناوٹ ہی ایسی ہے کہ اگر بے پیندے کا ہو تو جلد ہی لوٹ پوٹ ہوجاتا ہے، پرانی لغات میں بھی لوٹے کے لڑھکنے کو پہلو بدلنا یا دائرے و چکر میں گردش کرنا بیان کیا گیا ہے البتہ پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں کے پارلیمانی لیڈروں کے اختیار وسیع کئے گئے ہیں اور انہیں آئینی حق دیا ہے جس کے تحت وہ وفاداریاں تبدیل کرنے والے ارکان کے خلاف اسپیکر کے ذریعے ریفرنسز ارسال کرنے کا اختیار رکھتے ہیں کوئی بھی رکن اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوئے بغیر کسی دوسری جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا الیکشن کمیشن فلور کراسنگ کی کاروائی کا آئینی طور پر مجاز ہے الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت چیف الیکشن کمیشن کے اختیارات کسی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کئے جاسکتے۔ ماضی قریب میں جام مدد علی اور امتیاز شیخ نے فنکشنل لیگ سے علیحدگی اختیار کی تو سندھ اسمبلی کی رکنیت سے بھی مستعفی ہوئے اور پھر ضمنی الیکشن لڑا۔بلاشبہ طاقت کے حقیقی مراکز سے واسطے داری کے بغیر حکومت سازی ممکن نہیں۔ جام صادق ہوں یا مرحوم علی محمد مہر حتیٰ کہ نوازشریف یا عمران خان سب کو بادل نخواستہ سہی جانا وہاں ہی پڑتا ہے جہاں تقسیم اقتدار کے فیصلے ہوتے ہیں۔ سلیکٹڈ یا ریجیکٹڈ کی بحث میں جائے بغیر ایک سندھی کہاوت کا لطف لے لیں ؎
جھیل کے پرندے کبھی اس کنارے کبھی اُس کنارے
سینٹ میں کیا ہوا؟ کچھ کہتے ہیں ایک سیاسی جماعت اور مقتدر قوتوں میں ڈیل ہوئی، دوسروں کا موقف ہے کہ ہمیشہ کے لوٹے اس بار بھی لڑھک گئے، ویسے رئیس امروہوی مرحوم نے 1955ء میں لکھا تھا ؎

یہ نصیحت گرہ میں، رئیس آخرش
باندھ لی، باندھ لی، باندھ لی، باندھ لی
کامیابی کی صورت، جہاں میں فقط!
دھاندلی، دھاندلی، دھاندلی، دھاندلی

اب ذرا تصور کریں کہ 55ء میں یہ حال تھا تو 64 برس بعد صورت حال کتنی مثبت ہوگی۔ پیر علی محمد راشدی نے اپنے اخباری کالموں کے مجموعے روداد چمن میں تحریر کیا ہے حکومتوں اور سیاسی قیادتوں کو نوکر شاہی نے جان بوجھ کر سازشوں کے ذریعے ناکام بنایا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشا یہاں تک بھی ہوا کہ ایوب دور میں ہر ڈپٹی کمشنر کو پانچ سو صفحے کی ایک کتاب بھیجی گئی جس میں ان کے اختیارات درج تھے نتیجتاً رشوت، لاقانونیت کی ابتدا ہوئی اور عام آدمی سماجی انصاف سے محروم ہوا جب طاقت کے حقیقی مراکز نے ہی فیصلے کرنے ہیں اور ان کی سفارش پر جنرل الیکشن میں ٹکٹ ملنے ہیں یا پھر سینٹ انتخاب میں نامزدگی ہونی ہے تو مشکل وقت میں وہاں کے اشارہ ابرو پر اگر وفاداریاں تبدیل ہوجائیں تو کیا عجب ہے۔ سوشل میڈیا پر طوفان اٹھا۔ راحیلہ مگسی اور اسد جونیجو ن لیگ میں آنے اور سینیٹر بننے سے پہلے کس جماعت میں تھے؟ امام الدین شوقین اور اسلام الدین شیخ نے کس کس گھاٹ کا پانی نہیں پیا؟ حلقہ انتخاب نہ ہو تو نامزدگی کے عمل سے ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچنے والا ’’سرپرستوں‘‘ کو ہی آقا و مولیٰ ، ملجاوماویٰ مانے گا یہ آسان ہدف تھے الزام لگادیا گیا کچھ طاقتور بھی مشتبہ تھے لیکن کسی نے اشارہ نہ کیا۔

اقوام ہوں یا معاشرے ان کی تباہی اور زوال تضاد بیانی اور منافقت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ 14 سو برس قبل ہادی عالمؐ نے کہا تھا کہ پہلے کی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ وہ انصاف نہیں کرتی تھیں۔ آج بھی قانون کو مکڑی کے جالے سے تشبیہہ دی جاتی ہے جس میں مکھی پھنستی ہے اور طاقتور اسے توڑ کر نکل جاتا ہے۔ رئیل پالیٹکس کو اقتدار کی سیاست سمجھا جاتا ہے اور اسے ہم نے گھوٹکی الیکشن میں بھی دیکھا کہ جمعیت علمائے اسلام سمیت بہت سی جماعتیں جو پی پی کے خلاف تھیں اس کی ہمنوا بن گئیں اورجاگیردارانہ نظام کے مخالف سرداروں، رئیسوں، بھوتاروں اور موجیریوں کے لئے تالیاں بجارہے تھے بلاشبہ تبدیلی آئی ہے نصف صدی قبل تک رئیس وڈے کی پرچی اور درگاہ شریف کے حکم پر عوام ٹھپہ لگانے وگھروں سے نکلتے تھے اب پیر اور وڈیرے گائوں گائوں آکر حکمیہ ووٹ مانگتے ہیں نتیجہ وہی ہے جو پانچ چھ عشروں قبل تھا۔ عوام کا شعور کب بیدار ہوگا؟ اس پر تفصیلی مکالمہ ممکن ہے۔ رہ گئے شہری باشندے تو دیہات کی طرح انہوں نے بھی جبر کا ایک دور سہا ہے جب ٹھپوں کے ذریعے جیتنے والے ان کی نمائندگی کے دعویدار تھے لاشوں کی سیاست اور نفرت انگیز نعروں نے ان کو ہر قومیت سے لڑادیا تھا، دلچسپ بات یہ تھی کہ تین دہائیوں میں وہ سب کے محبوب و مطلوب بھی رہے۔ وفاق، صوبہ، مقتدر حلقے اور تمام سیاسی جماعتیں سب نے ان سے تعلق قابل فخر گردانا۔ کسی نے عوام کے بیچ موجود اختلافات کی خلیج پاٹنے کی ضرورت تک محسوس نہ کی۔

بات لوٹا کریسی سے شروع ہوئی تھی اور پہنچی سیاسی قیادتوں کے جبر اور عوام پر مرضی مسلط کرنے تک۔ ایک نقطہ نظریہ بھی ہے کہ کیا کوئی ممبر پارلیمنٹ اپنی قیادت کے مسلط کردہ ڈسپلن کا اتنا غلام ہوسکتا ہے کہ فیصلہ سازی کے وقت روبوٹ بن جائے اور اپنے ضمیر کی آواز کو نہ سنے۔ بات بڑی معقول ہے لیکن اگر وہ رکن کسی پارٹی کی عطا کردہ امانت واپس کرکے دوبارہ اپنے طور پر ایوان میں پہنچے اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہے تو بات مناسب ہے ورنہ گھر، خاندان، قبیلے اور معاشرے یا مذہب کی عائد کردہ پابندیوں اور روایات کو اپنانا ہی پڑتا ہے کچھ لوگ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی چھانگا مانگا اور مری کی میزبانیوں کا حوالہ دے کر اس لوٹا کریسی کو جائز قرار دینا چاہ رہے ہیں حالانکہ یہ کوئی جواز نہیں بن جاتا انگریزی محاورے ’’دو منفی کبھی ایک مثبت نہیں ہوسکتے‘‘ کو سامنے رکھیں تو بھی بہت سے نئے پہلو سامنے آتے ہیں اس لئے کہ کسی مرحلے پر پنجاب یا خیبر پی کے ارکان اسمبلی کا ضمیر جاگ اٹھے تو کیا ان کا فیصلہ مبنی برحق قرار پائے گا یقیناً تحریک انصاف اور ان کے حامی اسے غلط قرار دیں گے تو آج کیوں نہ صحیح اور غلط کی بحث کو ہمیشہ کے لئے نمٹادیا جائے۔ حرف آخر یہ کہ معاشرہ ہو یا افراد ان پر مشکل حالات یا کٹھن دور آہی جاتا ہے اس وقت کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے یا بگلے کی طرح مٹی میں گردن چھپالینے سے طوفان کی شدت کم نہیں ہوتی، تیرگی میں چراغ جلانے سے ہی دلوں کو حوصلہ ملتا ہے یہ کام جاری رکھنا چاہئے۔ یہ چراغ سچائی ،علم و آگہی کے ہونے چاہئیں یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی ؎


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں