چھمب جوڑیاں پر قبضہ اور بھارتی فوج کی بدحواسی
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ کہنے کو تو صرف سترہ روز جنگ تھی، لیکن عملاً اس نے ملک کی اقتصادی، سیاسی اور تہذیبی زندگی پر بہت دوررس اثرات مرتب کئے۔ 1965ء میں پاکستان اور بھارت میں کشمیر کے تنا زع پر سخت کشیدگی اور اس قدر تنائو بڑھ گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں براہ راست جھڑپیں ہونے لگیں تو اس دوران بھارت نے رن کچھ کے دلدلی علاقے پر، جہاں ابھی تک سرحد کا تعین نہیں ہو سکا، حسب روایت نہایت چالاکی سے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن پاکستان کی فوج نے بھارتی فوج کا بھرکس نکال کر اسے الٹے ٹائوں واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا ۔ اس خفت اور ہزیمت کو دور کرنے کیلئے بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے تڑی لگائی کہ وہ اس کا بدلہ لینے کیلئے اپنی مرضی کے محاذ کا انتخاب کرینگے۔ اس پر بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے پاکستان کی افواج سرحدوں پر پہنچ گئیں اور فوج کے کچھ دستے چھانگا مانگا جنگل میں بھی خیمہ زن ہو گئے کہ ضرورت پڑنے پر وہ فوری طور پر سرحدوں پر پہنچ سکیں ۔
جنگ ستمبر کی ابتدا یوں ہوئی کہ بھارت نے 1964کے وسط میں پاکستان کے آزاد کشمیر میں پہاڑی اور جنگلات کے مختلف علاقوں میں گوریلا آپریشن کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر دراندازی کی کارروائیاں شروع کر دیں۔ جب اس کا علم وہاں تعینات پاک فوج کو ہو ا تو فوری طور پر فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ اور وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے مشورہ سے بھارتی سازش کے قلع قمع کے لیے جوابی کارروائی کا ایک منصوبہ بنایا جسے آپریشن جبرالٹر کا نام دیا گیا اور اس وقت کے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اس منصوبہ کی منظور ی بھی دے دی۔ اسی منصوبہ کا مقصدنہ صرف بھارت فوج کی پیش قدمی روکنا تھا بلکہ یہ طے پایا کہ چھمب جوڑیاں کے علاقے میں کارروائی کر کے اکھنور پر قبضہ کر لیا جائے جس کے نتیجہ میں بھارت کا مظفر آباد کے علاقہ میں قبضہ کا خواب کو ناکام بنا دیا جائے گا۔
دشمن کے مکروہ عزائم بھانپتے ہوئے افواج پاکستا ن نے چھمب جوڑیاں کے محاذ پر جنگ ستمبر 1965میں جوابی کاروائی کرتے ہوئے دریائے تو ی عبور کرکے چھمب اور جوڑیاں میں قائم بھارتی قلعہ بندیوں کو روند ڈالا۔پاکستانی فوج نے جس جرا ت اور جوانمردی سے بھارتی جارحیت کو ناکام بنایااس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ افواج پاکستان نے نہ صرف دشمن پر کاری ضرب لگائی بلکہ اس پر جوابی وار کرتے ہوئے مشرقی پنجاب کے سرحدی شہر کھیم کرن پر قبضہ کرلیا۔یہ طاقت اور جذبہ ایمانی کے درمیان معرکہ حق وباطل تھا۔جنگ سترہ دنوں پر محیط رہی جس میں افواج پاکستان نے دشمن کے سولہ سو مربع میل پر قبضہ کرلیا۔دشمن کو ہر محاذ پر شکست و ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔جب پاکستان کی افواج چھمب جوڑیاں فتح کرنے کے بعد اکھنور پر مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں رہتے ہوئے حملہ کرنے والی تھیں بھارتی فوجوں نے 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی رات سیالکوٹ اور لاہور کے محاذوں پر جارحیت کا ارتکاب کر دیا۔جب پاکستان نے1965 میں جھمب جوڑیاں پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تب ہندوستانی افواج کے مورال گر چکے تھے اور وہ بد حواسی میں پسپا ہورہی تھی۔
6ستمبر کی صبح کاذب کے وقت رات ڈھائی بجے بھارتی فوجوں نے سیالکوٹ اور لاہور کے محاذوں پر پوری طاقت سے بھرپور حملہ کر دیا اور بھارت کے کمانڈر انچیف جنرل چودھری نے بڑے تکبر سے یہ بڑھک ماری کہ 6 ستمبر کی شام تک لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد وہ جمخانہ کلب لاہور میں فتح کا جشن منانے کیلئے خصوصی شراب کا جام نوش فرمائیں گے۔ پاکستانی بہادر افواج نے واہگہ اور برکی کی سرحدوں پر بھارتی فوجوں کے دانت کھٹے کر دیئے اور جنرل چودھری برطانیہ کی مخصوص سکاچ وسکی کا جام تو نوش نہ کر سکے لیکن برطانیہ کے مشہور نشریاتی ادارہ بی بی سی نے لاہور کے انارکلی بازار میں بھارتی فاتح فوج کو گشت کرنے کی فلم چلا دی جو جلد ہی اس ادارے اور برطانیہ کی سبکی اور شرمندگی کا باعث بن گئی۔
لاہور پر حملہ آور ایک پورا بھارتی ڈویژن تھا لیکن 6 ستمبر سے لیکر 23 ستمبر کی سیز فائر تک پاکستان کی بہادر افواج نے بھارتی حملہ آوروں کو بی آر بی نہر سے آگے بڑھنے نہیں دیا اس دوران نہ صرف فوج کے جوانوں اور دیگر عہدیداروں نے دادِ شجاعت کی کئی داستانیں رقم کیں لیکن سب سے بڑھ کر پاکستان کے عوام کی افواج کے ساتھ یکجہتی اور دن رات دشمن کے ہوائی حملوں اور زمینی گولہ باری کے باوجود فوج کا حوصلہ بڑھانے، رسد کا سامان اور دیگر سٹورز بشمول ایمونیشن خوراک اور دیگر امدادی سٹور فرنٹ لائن تک پہنچانے میں جو کردار ادا کیا وہ سول ملٹری تعاون کا ایک درخشاں باب ہے۔
لاہور محاذ پر پاکستانی فوج کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ سیالکوٹ جموں سیکٹر میں دشمن کے کئی حملوں کو پسپا کر دیا گیا اور انہیں پیچھے ہٹا کر دم لیا۔ ہماری فضائیہ نے امرتسر کے مضافاتی علاقوں کے علاوہ پٹھان کوٹ، آدم پور، جودھپور اور آدم نگرکے ہوائی مرکزوں میں فوجی ٹھکانوں کو خاکستر کر دیا۔ ہر آنے والا دِن بھارتی فوج کو تمام محازوں پر ذلیل و خوار کر رہا تھا 6 ستمبر 1965 ء سے لے کر 23 ستمبر 1965ء تک 17 دن جاری رہنے والی اِس جنگ میں بھارتی فوج کی تاریخی پٹائی ہوئی۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پاکستانی قوم نے مکمل اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور وہ پاک فوج کی پشت پر ڈٹ کر کھڑ ی رہی ہم ہر مشکل اور کڑے وقت میں فتح و نصرت سے ہمکنار رہے۔ آج وطن عزیز کو بھارت کے علاوہ دیگر نام نہاد حلیفوں سے بھی خطرات لاحق ہیں ، جس طرح پاکستان ترقی کی منازل طے کررہا ہے وہ د شمن کو کسی طرح بھی ہضم نہیں ہوپارہا ہے۔ستمبر1965 میں پاکستان کوئی ایٹمی ملک نہیں تھالیکن آج اللہ کے فضل سے پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہونے کے علاوہ دفاعی لحاظ سے انتہائی مضبوط ملک ہے اس کی تینوں مسلح افواج بری، بحری اور فضائیہ جدید اسلحہ سے لیس ہیں اور اس کا قائد اورسپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ جیسا ہردلعزیز جری اور بہادر سپاہی ہے۔ بھارت کو کسی خام خیالی میں نہیں رہنا چاہئے، پاکستان پر کسی قسم کی جارحیت کی صورت میں بھارت کو انتہائی عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔