یوم دفاع بھرپور اتحاد اور یکجہتی کا متقاضی ہے!
شیئر کریں
آج وطن عزیز کا یومِ دفاع ہے۔ قوم ہر سال6/ ستمبرکو ملی جوش و جذبے اور ملک کی بقا و سلامتی کی خصوصی دعاؤں کے ساتھ یومِ دفاع مناتی ہے اور اس سلسلے میں ہونے والی سرکاری تقریبات میں مسلح افواج کی پریڈ کے ساتھ ساتھ جدید اسلحہ اور دوسرے جنگی سازوسامان کی نمائش کرکے دشمن پر اپنی عسکری برتری کی دھاک بٹھائی جاتی ہے۔ اس بار بھی قوم یومِ دفاع منا تو رہی ہے اور مختلف سرکاری اور نجی ادارے آج اس حوالے سے تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں لیکن ملک کو درپیش سنجیدہ اقتصادی و سیاسی مسائل نے عوام کو ایک عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے جو ان کی وطنِ عزیز سے محبت کو بھی گہنا رہا ہے۔ روایتی طور پر آج دن کا آغاز مساجد میں نماز فجر کے بعد شہدائے جنگ ستمبر کے لیے قرآن خوانی اور ملک و قوم کی سلامتی و استحکام کی خصوصی دعاؤں سے ہوگا جبکہ دفاع وطن کے لیے جانیں نچھاور کرنے والے پاک فوج کے جوانوں اور افسران کی قبور اور یادگاروں پر پھول چڑھانے کی تقاریب کا انعقاد ہوگا اور شہداء کے لیے فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ اس حوالے سے آج سول و فوجی حکام، سیاسی قائدین اور عوام شہداکی یادگا پر حاضری دیں گے، جہاں وطن کے دفاع کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہیدوں کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں گی اور فاتحہ خوانی کی جائے گی۔
آج یومِ دفاع کی اہمیت اہلِ پاکستان کے لیے اس حوالے سے بھی دوچند ہوگئی ہے کہ ہمارے شاطر و مکار دشمن بھارت کی مودی حکومت نے 5 اگست 2019 کو بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35اے کو ختم کرکے اپنے ناجائز زیرتسلط کشمیر کو مستقل طور پر بھارت کا حصہ بنانے کے یکطرفہ اعلان کے بعد اب بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ بڑھکیں مار رہی ہے کہ کشمیر کا باب ختم ہوچکا۔ اس لئے اب اس حوالے سے پاکستان سے بات چیت کا باب بھی بند ہوچکاہے،اس کے ساتھ مودی حکومت نے پوری دنیا سے اکٹھا کئے گئے اسلحہ کے زعم میں پاکستان کی سلامتی کو بھی کھلا چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کے خلاف مودی حکومت کی بڑھکوں سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ وہ موقع کے انتظار میں ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان پر ضرب لگانے کی منصوبہ کررہاہے،بلوچستان میں شورش اور خیبر پختونخوا کے واقعات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ اس نے پاک فوج کو دوطرف سے گھیرنے کیلئے ملک کے اندر شورش برپا کرنے کے ساتھ ہی افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ بھی اندرون خانہ سازش کررکھی ہے اور بھارت کے اس چڑھاوے کی بنیاد پر افغان حکومت بڑھ چڑھ کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سے باز نہیں آرہی ہے۔ یہ صورتحال پوری قوم کے اپنی جری و بہادر افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیواربن کر کھڑے ہونے کی متقاضی ہے۔تاکہ مسلح افواج مکمل طور پر یکسوئی کے ساتھ اپنی توجہ دفاع وطن کی ذمہ داریوں پر مرکوز رکھ سکے،اس وقت پاک فوج کو جس قدر یکسوئی کی ضرورت ہے، اس سے پہلے شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ پاک فوج کو ملک کے اندرونی معاملات میں الجھانے سے حتی الامکان گریز کیا جائے، اس کے ساتھ ہی ہمیں سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی بین الاقوامی برادری کو بھارت کے مذموم عزائم سے آگاہ رکھنے کے ساتھ ہی عالمی برادری کو لے کر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت چند مہینے پہلے اپنے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جی ٹوئنٹی اجلاس کرا چکا ہے۔ ایسی سرگرمیوں کے ذریعے بھارت دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ مقبوضہ وادی متنازع علاقہ نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے۔ یہ صورتحال اقوامِ متحدہ سمیت ہر اس عالمی ادارے کے لیے چیلنج ہے جو یہ تسلیم کرتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اسے صرف ایک صورت میں ہی غیر متنازع قرار دیا جاسکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے اور پھر ان کی طرف سے جو فیصلہ ہو اسے مان لیا جائے۔
جہاں تک دفاعِ وطن کی بات ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلح افواج سے وابستہ ہر فرد حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے اور دفاع وطن کا ہر تقاضا نبھانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ آج ہمارا مکار دشمن بھارت جن گھناؤنی سازشوں کے تحت پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے اس کے پیش نظر قوم کی جانب سے عساکر پاکستان کے حوصلے بڑھائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ دفاع وطن کیلئے قوم کا ہر فرد، ہر ادارہ اور ہر شعبہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور اقوام عالم میں اس کا تشخص خراب کرنے کی بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا رہا ہے۔
یوم دفاع کے موقع پر ہمیں اپنے سے 10 گنا بڑے دشمن کو خاک چٹوانے میں کامیابی کا جشن مناتے وقت اپنے اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی سلامتی کی جانب اٹھنے والی اس کی میلی آنکھ پھوڑ دی جائے گی۔ قوم کا یہی جذبہ 65 کی جنگ میں عساکر پاکستان کے شامل حال تھا جو بھارت کی جانب سے ہم پر مسلط کی گئی تھی۔ اس جنگ میں بے شک افواج پاکستان نے ہر محاذ پر دفاع وطن کے تقاضے نبھاتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کیے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرتے ہوئے مکار دشمن کی افواج کو زمینی، فضائی اور بحری محاذوں پر منہ توڑ جواب دے کر قربانیوں کی نئی اور لازوال داستانیں رقم کیں جبکہ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت و پاسبانی کے تقاضے نبھاتی رہی۔ اس جنگ نے ہی قوم میں ’پاک فوج کو سلام‘ کا بے پایاں جذبہ پیدا کیا تھا جس کے نتیجے میں ملک کی مسلح افواج نے اپنے سے10گنا زیادہ دفاعی صلاحیتوں کے حامل مکار دشمن بھارت کی فوجوں کو پچھاڑ کر انھیں پسپائی پر مجبور کیا اور بھارتی لیڈران اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دیتے نظر آئے۔
اہل وطن دفاع وطن کے اس جذبے کو تازہ رکھنے اور نئے عزم و تدبر کی صف بندی کے لیے ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں جو حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے۔اس برس یوم دفاع کی اہمیت اس لیے زیادہ ہو گئی ہے کہ آج بھارت نے عملاً جنگ کی فضا پیدا کر رکھی ہے جو ہماری سلامتی کے بھی درپے ہے اور ہمیں دنیا میں تنہاکرنے کی سازشوں میں بھی مصروف ہے وہ اب پاکستان کے خلاف سازشوں کے نئے جال بن رہا ہے۔ اس صورتحال میں ہر پاکستانی کو اپنے حصے کا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے وطنِ عزیز کے مضبوط اور مستحکم بنانا چاہیے اور ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو مایوسی پھیلا کر نئی نسل کو ملک سے متنفر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ محض اپنا اقتدار قائم رکھنے یا اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے مخالفین کو نت نئے مقدمات میں پھنساکر پابند سلاسل رکھنے کی حکمت عملی کو تبدیل کرے،اور اظہار خیر سگالی کے طورپرتمام سیاسی قیدیوں کو غیر مشروط طورپر رہا کرے، اس کے ساتھ ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو فوری ریلیف مہیا کرنے کیلئے ایوان صدر، ایوان وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے اخراجات میں اضافے کا فیصلہ نہ صرف واپس لے بلکہ ان تمام اداروں کے اخراجات میں کم از کم 25 فیصد کٹوتی کرکے یہ رقم عوام کو بجلی اور گیس کے بلوں میں ریلیف دینے پر صرف کرے اور تمام اعلیٰ سول اور فوجی افسران سے لگژری گاڑیاں فوری طور پر واپس لے کر انھیں زیادہ سے زیادہ1000 سی سی گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور کرے اور ان گاڑیوں کی دیکھ بھال،مرمت اور پیٹرول کے اخراجات بھی متعلق افسران کو اپنی جیب سے ادا کرنے کا پابند بنائے تاکہ عام آدمی کو محسوس ہو کہ حکومت ان کو ریلیف دینے کیلئے اپنے آرام وآسائش میں کٹوتی کررہی ہے، کیونکہ اگر ملک کی غالب اکثریت اقتصادی مسائل میں الجھ کر پریشانیوں کا شکار رہے گی تو اس سے یقینا اس کا ریاست اور اس کے اداروں پر اعتماد متزلزل ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے انھیں مل جل کر حل کرنے کے لیے فوری طور پر عام صاف،شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں جن کے نتائج پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے اور عوام کی اکثریت جسے منتخب کرے بلاتامل حکومت اس کے حوالے کی جائے تاکہ حقیقی عوامی مینڈیٹ سے بننے والی ایک مستقل حکومت اقتدار میں آ کر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کرسکے۔
ہمارے حکمرانوں کو تاریخ کو سامنے رکھ کر اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے،ارباب اختیار کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ ہمارے اس مکار دشمن بھارت نے 65 کی جنگ میں پاک فوج کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی ہزیمت کا 71ء کی جنگ میں بدلہ چکانے کی سازش کی اور سانحہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں اس ارض وطن کو دولخت کردیا۔ اس وقت بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے یہ بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے جبکہ ہندو جنونیت نے عملاً دو قومی نظریے کو مزید اجاگر کردیا۔ بھارت نے باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ ختم کرنے کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کی تو پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت سے ہزار سال تک جنگ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے لیے ایٹمی قوت کے حصول کا عزم بھی باندھ لیا جس کے لیے بعد میں آنے والے تمام حکمرانوں نے ملکی دفاع کے تقاضوں کے مطابق اپنا اپنا حصہ ڈالا اور جب مئی 1998 میں بھارت نے دوسری بار ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے تین بھارتی دھماکوں کے جواب میں پانچ دھماکے کرکے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا اور دنیا کو باور کرایا کہ ہم خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کا ڈٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
ہمارے ایٹمی قوت بن جانے کی وجہ سے اس مکار دشمن کو اب تک پاکستان پر 65 اور 71 جیسی جارحیت مسلط کرنے کی تو جرأت نہیں ہو سکی مگر وہ دوسرے محاذوں پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف گھناؤنی سازشوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ بھارت ہی کی مکاری ہے جس کے تحت پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی سازش کی جاتی ہے اور دوسری جانب دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اسے اقوام عالم میں تنہا کرنے کی سازشی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالنا اسی سازش کا حصہ تھا جبکہ بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈلوانے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہا۔ یہ سلسلہ ابھی بھی نہیں رکا اور پاکستان کے خلاف بھارت کی گھناؤنی سازشیں اب بھی جاری ہیں جن پر نظر رکھنے اور ہر موقع پر ان کا بھرپور قوت سے جواب دینے کی
ضرورت ہے۔ آج کا یوم دفاع قومی، سیاسی، عسکری قیادتوں اور پوری قوم سے اس امر کا ہی متقاضی ہے کہ اتحاد و یکجہتی کے تحت دفاع وطن کے تقاضے نبھائے جائیں تاکہ دشمن کو ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ ہوسکے۔