مہنگی بجلی پر غیرمعمولی عوامی ردعمل: کیا وقت پر الیکشن ہو رہے ہیں؟
شیئر کریں
٭جیسے جیسے ملک میں معاشی اور عوامی حالات بدل رہے ہیں،الیکشن کمیشن کی طرف سے بھی مختلف اشارے سامنے آ رہے ہیں،غیر مصدقہ خبروں کے مطابق 28 جنوری کو الیکشن کا اعلان ہو سکتا ہے
٭عوام کا احتجاج اب غصے میں بدلتا جا رہا ہے اس سے منتخب حکومت ہی ڈیل کر سکتی ہے، سیاسی طور پر بھی پرانی سیاسی جماعتوں کے لیے آئینی پابندی سے انحراف ایک بہت بڑا سیاسی طعنہ بن جائے گا
٭آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات دور رس اور کئی شعبوں پر پھیلی ہوئی ہیں،اس بات کا کم ہی امکان ہے نظرآرہا ہے کہ وہ نگراں حکومت کے ساتھ تین یا چار سال کے لیے اصلاحات شروع کریں
٭ایک دفعہ پھر الیکشن کی سرگرمیاں تو نہیں مگر ان کا ذکر ضرور شروع ہو گیا،لندن ایک بار پھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا کئی رہنما لندن میں نواز شریف سے ملاقات کرتے پائے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ نگراں حکومت کی آمد کے بعد یہ تاثر عام ہورہا تھا کہ فی الحال الیکشن نہیں ہونے جارہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات تھیں۔ سب سے اہم مردم شماری کو آخری وقت میں منظور کرکے حلقہ بندیوں کا جواز سامنے لایا گیا۔ نگراں وزیراعظم جس طرح سامنے آئے وہ معاملہ بھی سامنے ہے۔ اس کے بعد نگراں وزراء نے آنے کے بعد طویل مدتی اصلاحات کے راگ الاپنا شروع کردیے۔ پیپلزپارٹی جو حکومت کے خاتمے سے چند دن پہلے تک مل جل کر کھیل رہی تھی اور ہرمنصوبے پر اثبات کے اشارے دے رہی تھی اس نے بھی نگراں وزیراعظم کی نامزدگی پر مبہم انداز میں تحفظات کا اظہار کیا۔ ان تمام اقدامات سے یہ واضح ہورہا تھا کہ الیکشن غیرمعینہ مدت تک کے لیے آگے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد صورتحال میں غیرمعمولی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں اور مہنگائی نے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا اور اس کے نتیجے میں جو ردعمل سامنے آیا اس کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ بجلی، تیل اور چینی کی قیمتوں کو جو پر لگے ہیں ان کی واپسی کی کوئی صورت نہیں۔ ڈالر 325 روپے میں بھی دستیاب نہیں اور اسٹاک مارکیٹ مستقل نیچے جا رہی ہے۔پاکستان کے طول و عرض میں بجلی کے بلوں کی صورت میں لگنے والے ’برقی جھٹکوں‘نے غریب، متوسط اور تنخواہ دار طبقے کی راتوں کی نیندیں اور دن کا چین حرام کر رکھا ہے۔معاشی چیلنجز میں گھرے پاکستان نے جب آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدہ کر کے معیشت کو سہارا دیا تو پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں اور مختلف ٹیکسز کی مد میں اضافے کی صورت میں اس کی بھاری قیمت عوام کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑ رہی ہے۔پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے دور میں بجلی کی قیمت میں اوسط 100 گنا تک اضافہ تو ہو ہی چکا تھا اور اب نگران حکومت نے بھی فی یونٹ قیمت کو آتے ہی مزید بڑھا دیا ہے جس کے بعد اگست کے مہینے میں موصول ہونے والے بجلی کے بلوں نے محدود آمدنی رکھنے والے پاکستانی عوام کے چودہ طبق روشن کر دیے ہیں۔بجلی کے زیادہ بلوں کا مسئلہ صرف گھریلو صارفین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے ہر طبقہ اور شعبہ ہی متاثر ہو رہا ہے۔
ملک کے طول و عرض سے احتجاج سامنے آنے پر سنیچر کے دن نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ انھوں نے بجلی کے بھاری بِلوں کے معاملے پر ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں وزارت بجلی اور تقسیم کار کمپنیوں سے بریفنگ لی جائے گی اور صارفین کو بجلی کے بِلوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔نگران وزیر اعظم کے اعلان نے لوگوں میں امید کی ایک کرن جگائی۔ مگر چار دن گزرنے کے باوجود یہ وعدہ اب تک وفا نہ ہو سکا۔حکومت کے ریلیف دینے کے اعلان کے باوجود اب تک کوئی لائحہ عمل سامنے نہ آ سکا۔ نگران وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ اب تک حکومت ریلیف کا کوئی لائحہ عمل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی مگر وزیر اعظم ہر روز اس پر میٹنگ کر رہے ہیں اورپوری کوشش ہے کہ عوام پر اس کا بوجھ کم سے کم ڈالا جائے۔ مالی ریلیف تو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں ہیں تاہم بلوں کی ادائیگی میں جو بھی آسانی ہو سکتی ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جتنا ممکن ہوا وہ کریں گے۔ نگران وزیر توانائی کے مطابق‘بجلی کی قیمت کے حوالے سے فی الحال کوئی ایسا امکان نہیں ہے کہ یہ بڑھیں گی، لیکن اگر ڈالر میں تبدیلی آتی ہے اور توانائی پیدا کرنے کے ذرائع مہنگے ہوتے ہیں تو یہ ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ ڈالر یا انٹرسٹ ریٹ میں تبدیلی آئی تو اس کی قیمت میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ان کے مطابق‘بجلی کی قیمت بڑھنے کی ایک وجہ ماضی کے کئی فیصلے ہیں دوسرا روپے کی قدر میں کمی اور تیسری وجہ ٹیکسز کے باعث بجلی مہنگی ہونا ہے۔ اس صورتحال میں عوام سیخ پا ہیں۔
اس غیرمعمولی ردعمل کے نتیجے میں بظاہرنگراں حکومت کا اعتماد بھی اسی تیزی کے ساتھ نیچے گیا۔ اس وقت کوئی وزیر بھی نگراں حکومت کے طرف سے اپنے منصوبوں کا اعادہ کرنے کے لیے موجود نہیں ہے۔ جیسے جیسے ملک میں معاشی اور عوامی حالات بدل رہے ہیں اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے بھی مختلف اشارے سامنے آ رہے ہیں۔ حلقہ بندیاں بھی 30 نومبر تک مکمل کرنے کی تاریخ سامنے آئی ہے اور اس کے ساتھ غیر مصدقہ خبروں کے مطابق 28 جنوری کو الیکشن کا اعلان ہو سکتا ہے۔یہ تمام خبریں گزشتہ چنددنوں میں ہی سامنے آئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ایک دفعہ پھر الیکشن کی سرگرمیاں تو نہیں مگر ان کا ذکر ضرور شروع ہو گیا۔لندن ایک بار پھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے اور پنجاب اور سندھ سمیت کئی رہنما لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کرتے پائے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی اکتوبر میں واپسی کا ایک بار پھر اعلان ہو چکا ہے جو جنوری فروری کی مجوزہ تاریخ سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس وقت یعنی آج کے دن حالات نو الیکشن سے ہوتے ہوئے پھر الیکشن کی طرف جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔اس کی وجوہات واضح ہیں۔ عوام کا احتجاج اب غصے میں بدلتا جا رہا ہے،اس سے منتخب حکومت ہی ڈیل کر سکتی ہے۔ سیاسی طور پر بھی پرانی سیاسی جماعتوں کے لیے آئینی پابندی سے انحراف ایک بہت بڑا سیاسی طعنہ بن جائے گا۔ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بھی الیکشن کے التوا کی قبولیت ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گی۔ آئی ایم ایف کی دی گئی مدت کچھ ہی ماہ بعد ختم ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات دور رس اور کئی شعبوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔قانونی جواز اپنی جگہ مگر اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ وہ نگراں حکومت کے ساتھ تین یا چار سال کے لیے اصلاحات شروع کریں۔ سوال یہ بھی ہے اگر الیکشن غیر معینہ مدت کے لیے آگے لے جانے کا منصوبہ تھا تو وہ کن معروضی حالات کے لیے بنایا گیا؟ فی الحال زمینی حالات دیکھیں تو بات پھر الیکشن کی طرف ہی جاتی نظر آ رہی ہے۔ معاشی اور آئینی مسائل سے نکلنے کا ابتدائی راستہ تو ایک آزاد اور منصفانہ الیکشن میں ہی ہے۔
٭٭٭