محکمہ صحت لیاقت آباد اسپتال چہیتے ملازمین کو خلاف ضابطہ ترقیاں دینے کا انکشاف
شیئر کریں
(رپورٹ :جے ایم شاہ) سندھ حکومت سیاسی/ادارتی مافیا تمام تر قواعد و ضوابط سے تاحال بے غم و آزاد سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات سمیت ریاستی رٹ کے برخلاف اقدامات کو من پسند مشغلہ بنالیا۔ محکمہ صحت لیاقت آباد اسپتال من پسند و چہیتے سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے ملازمین کو خلاف ضابطہ ترقیاں دینے کا انکشاف، ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق لگ بھگ 9 ملازمین کو غیرقانونی طور پر ترقیوں سے نوازا گیا، ادھر اسپتال کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ 2013 ء میں گریڈ 3 میں بھرتی ہونے والا انوارالحق کو محض 6 سال میں گریڈ 7 سے نوازا گیا اور اسے اسٹور کیپر بنادیا گیا، جبکہ 2010ء میں گریڈ 1 میں بھرتی ہونے والا نائب قاصد احمد شجاع کو بڑی پرچی و بھاری نذرانے کے عوض 2016ء میں گریڈ 11 کے عہدے سے نوازا گیا اور پرچی کلرک کی سیٹ سے نوازا گیا۔ ادھر 2009 ء میں گریڈ 2 میں بحیثیت وارڈ سرونٹ بھرتی ہونے والا محمد عرفان کو 2017 ء گریڈ 11 سے نوازتے ہوئے جونیئر کلرک کا عہدہ دے دیا گیا، اسی طرح 2009ء میں 2 گریڈ میں بھرتی ہونے والا مسرور احمد کاشف کو 2017 ء میں ڈائریکٹ گریڈ 12 میں کمپوٹر آپریٹر کی سیٹ پر بٹھا دیا گیا، بالکل اسی طرح محمد کمال جو گریڈ 4 میں بحیثیت ڈارک روم اٹینڈنٹ بھرتی ہوا 2012ء میں 12 گریڈ سے نوازتے ہوئے ڈیٹا پروسیسنگ آفیسر کی سیٹ کا حقدار ٹھہرا دیا گیا۔ اسی طرح 2003ء میں 2 گریڈ میں بھرتی ہونے والا وارڈ سرونٹ محمد افضال کو 2012ء میں گریڈ 9 میں ایک سی جی ٹیکنیشن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ ای سی جی ٹیکنیشن کا ڈپلومہ بھی جعلی ہے۔ ادھر 2009ء میں 2 گریڈ میں وارڈ سرونٹ بھرتی ہونے والا طاہر احمد خان کو 2017ء میں گریڈ 4 میں غیرقانونی ترقی دیکر آپریشن تھیٹر اٹینڈنٹ لگا دیا گیا۔ 2009ء میں بھرتی ہونے والا گریڈ 2 کا ملازم وارڈ سرونٹ جہانزیب کو 2016ء میں گریڈ 9 میں ترقی دیکر لیبارٹری ٹیکنیشن، جبکہ 1987ء میں 7 گریڈ میں جونیئر کلرک بھرتی ہونے والا زمان اسلام کو پہلے 2012ء میں گریڈ 12 میں ڈیٹا پروسیسنگ آفیسر پھر 2017ء میں گریڈ 14 میں اکاؤنٹ اسسٹنٹ کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ اس ضمن میں یاد رہے کہ کرمنل اوریجنل پٹیشن نمبر 2011/89 کے فیصلے کے مطابق کسی بھی ملازم کا کیڈر تبدیل نہیں کیا جاسکتا، اس حوالے سے یاد رہے کہ اسپتال کی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مادھوری لاکھانی کا کہنا تھا کہ اسپتال میں نظم و نسق قاعدے قوانین کا شدید فقدان ہے سرکاری رٹ اور عدالتی احکامات کی دھجیاں طاقتور سیاسی و ادارتی مافیا نے بکھیر رکھی ہیں، ملازمین کا سروس ریکارڈ (سروس بکس) ادارے میں موجود نہیں، ملازمین اس اہم سرکاری دستاویز کو غیرقانونی طور پر گھروں پر یا نہ جانے کہاں لے گئے، جو قومی جرم ہے۔ اسکے علاوہ (ان ورڈز/ آؤٹ ورڈز ) رجسٹرڈ کے صفحات بھی غائب ہیں جس کے سبب ریکارڈ دستیاب نہیں، جبکہ انکا مزید کہنا تھا کہ یہ ترقیاں انکی تعیناتی کے دوران نہیں ہوئیں، مگر تحقیقات اور قواعد و ضوابط کے بعد غیرقانونی ترقیوں کو منسوخ کرنے کیساتھ محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائیگی اور غیرقانونی ترقیوں کے بعد سرکاری خزانے سے وصول کی جانے والی تنخواہیں بھی ان سے لیکر قومی خزانے میں جمع کی جائیگی اور ان ترقیوں کے پس منظر میں موجود عناصر کو بھی بے نقاب کرنا تحقیقاتی اداروں کے فرائض کا حصہ ہیں۔ مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ آف پاکستان وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر صحت سندھ سمیت تمام تحقیقاتی اداروں سے اٹھائے گئے حلف اور اپنے فرائض منصبی کے مطابق سخت ترین قانونی و تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔