میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیراعلیٰ اور آئی جی سندھ پولیس میں صلح… کیا پھر وزیراعلیٰ سے پارٹی قیادت ناراض ہوجائے گی؟

وزیراعلیٰ اور آئی جی سندھ پولیس میں صلح… کیا پھر وزیراعلیٰ سے پارٹی قیادت ناراض ہوجائے گی؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۶ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

پیپلزپارٹی کی قیادت نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ناراض ہو کر سہیل انور سیال کو وزیر داخلہ بناکر آئی جی سندھ سے لڑنے کا ٹاسک دیاتھا
عیدالفطر کے تیسرے روز آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ سی ایم ہائوس چلے گئے اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے گلے ملے
الیاس احمد
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو وزارت اعلیٰ کے 6 ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ پارٹی قیادت نے 19 دسمبر 2016ء کو ان کو حکم دیا کہ آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو جبری چھٹی پر بھیجا جائے لیکن 2 جنوری 2017ء کو ایپیکس کمیٹی سندھ کا اجلاس بلایا گیا تو مجبوراً آئی جی سندھ پولیس کو بھی بلانا پڑا۔ معاملہ کچھ عرصہ کے لئے ٹھنڈا ہوگیا پھر 3 اپریل 2017 کو دوبارہ آئی جی سندھ پولیس کی خدمات وفاقی حکومت کے حوالے کرکے سردار عبدالمجید دستی کو آئی جی سندھ پولیس کا چارج دے دیا لیکن دو روز بعد سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ پولیس کو بحال کردیا اور اس وقت سے لے کر اب تک سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناعی دے رکھا ہے کہ آئی جی سندھ پولیس کو موجودہ حالات میں نہ ہٹایا جائے۔
ایک ماہ قبل صور ت ِ حال سے تنگ آکر آئی جی سندھ پولیس نے خود ہی سندھ ہائی کورٹ میں حلف نامہ جمع کرایا کہ ان کے حق میں دیا گیا حکم امتناعی ختم کیا جائے اور ان کو وفاقی حکومت میں جانے کی اجازت دی جائے کیونکہ ان کو کام نہیں کرنے دیا جارہا ہے۔ اس کے دوسرے دن وزیراعلیٰ ہائوس میں اعلیٰ سطح کاایک اجلاس بلایا گیا جس میں وزیراعلیٰ نے آئی جی سندھ پولیس کو بھی بلالیا ۔اس پر پی پی قیادت سخت ناراض ہوئی اور وزیراعلیٰ سندھ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے سہیل انور سیال کو وزیر داخلہ بنادیا اور ان کو ٹاسک دے دیا کہ وہ آئی جی سے لڑائی لڑیں۔ سہیل انور سیال نے سب سے پہلے پولیس افسران کو روکا کہ آئی جی سندھ کے اجلاس میں شرکت نہ کریں اور آئی جی سندھ پولیس اگر ہیڈ کوارٹر چھوڑیں تو اس کے لیے پیشگی اجازت لیں اور پھر آخر میں انوکھی فرمائش کر ڈالی کہ انہیں پولیس ہیڈ آفس میں دفتر دیا جائے کیونکہ باہر ان کے جو دفاتر ہیں وہ سب غیر محفوظ ہیں۔ اس پر آئی جی نے انہیں یہ جواب ارسال کیا کہ کراچی میں تین ایسے دفاتر ہیں جہاں پولیس کی ہمہ وقت 24 گھنٹے سخت سیکورٹی ہوتی ہے۔ اگر وزیر داخلہ چاہیں تو ان کے لیے وہاں دفتر کا انتظام کیا جاسکتا ہے مگر پولیس ہیڈ آفس میں ان کو دفتر نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہاں اسپیشل برانچ اور کائونٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کے دفاتر ہیں جہاں ہر وقت حساس معاملات زیر بحث رہتے ہیں اور حساس نوعیت کی دستاویزات رہتی ہیں۔ وزیر داخلہ سیاسی ہیں ان کے پاس سیاسی لوگ آتے رہتے ہیں اس لیے وہاں حساس معلومات اور حساس دستاویزات غیر محفوظ ہوجائیں گی۔ اس جواب کے بعد وزیر داخلہ نے بھی خاموشی اختیار کرلی اور معاملہ چند روز کے اندر ہی ٹھنڈا ہوگیا۔
آصف علی زرداری ایک طرف کھل کر کہتے رہے کہ ہم آئی جی کو اس لیے ہٹانا چاہتے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت عام انتخابات سے قبل دھاندلی کے منصوبے بنارہی ہے مگر آئی جی سندھ پولیس نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ،بلکہ دو تین انٹرویو دے کر واضح کیا کہ ان کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ وہ ایک پروفیشنل افسر ہیں اس لیے وہ حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولیں گے۔ وہ نجی محفلوں میں بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ ایک افسر حکومت سے بھلا کیوں لڑے گا؟ ان کی بات بھی کسی حد تک ٹھیک تھی کیونکہ غیر سرکاری شخص انور مجید نے یہ لڑائی شروع کی تھی اور آئی جی سندھ پولیس سے مطالبہ کیا کہ جو 25 ہزار نئی بھرتیاں کرنی ہیں ان میں میریٹ کو بالائے طاق رکھ کر انور مجید کی تیار کی گئی فہرست کے مطابق بھرتیاں کی جائیں۔ ظاہر بات ہے کہ آئی جی سندھ پولیس کا جب کوئی مفاد نہیں تھا تو وہ انکار ہی کرتے اور پھر انور مجید نے اس بات کو انا کا مسئلہ بنالیا کیونکہ یہ ساڑھے 12 ارب روپے کی بات تھی۔ اگر بھرتیاں انور مجید کے کہنے پر کی جاتیں تو ساڑھے 12 ارب روپے مل جاتے اور جب یہ بھرتیاں میریٹ پر کی گئیں تو ساڑھے 12 ارب روپے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ سہیل انور سیال کو جب پتہ چلا کہ وہ بے معنی لڑائی لڑرہے ہیں تو وہ بھی خاموش ہوگئے۔ اب عام انتخابات سر پر ہیں تو پی پی کی قیادت کو بھی یہ بات سمجھ آگئی کہ آئی جی سندھ سے لڑائی میں پی پی کو نقصان ہوگا۔ اس لیے فی الحال خاموش رہا جائے، پی پی قیادت نے غیر اعلانیہ طورپر آئی جی سندھ سے لڑائی ختم کردی تو آئی جی سندھ نے بھی خوش دلی سے خیر مقدم کیا پھر عیدالفطر کے تیسرے روز آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ سی ایم ہائوس چلے گئے اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے گلے ملے۔ وزیراعلیٰ نے ان کی خاطر تواضع مٹھائی، سویاں، شیر خورما، کسٹر، جیلی اور لذیذ پکوانوں سے کی اور اس موقع پر صوبہ کی امن وامان کی تازہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی پی قیادت پھر وزیراعلیٰ سے ناراض تو نہیں ہوجائے گی؟سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس پورے معاملے میں نظرثانی کرنے کا ذہن تو نہیں بنا لیا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی جانب سے یہ معاملہ تنہا پرواز لینے کے ذمرے میں آئے گا۔جو پی پی قیادت کی ناراضی کا باعث بن سکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں