کورونا وائرس کی نئی دواکیا سستے داموں دستیاب ہوسکے گی؟
شیئر کریں
دنیا بھر کے تحقیق کار کویڈ2019سے نمٹنے کے لیے نئی تشخیص،تدابیر اور علاج دریافت کرنے کے لیے تند ہی کے ساتھ کام کررہے ہیں تاکہ قیمتی انسانی جانوں کے مزید نقصان سے بچاجاسکے۔یاد رہے کہ اس طرح کے کا م میں قواعد سے استثنیٰ حاصل کرکے تحقیق کا عمل جاری رکھا جاتا۔عوامی مداخلت کی عدم موجودگی او راجارہ داری کے بل پر چلنے والے نظام کی موجودگی میںہم زندگی بچانے والی دوائیں اور ویکسین کی تیاری مکمل ہوجاے کے انتظار پر مجبور ہیں جس سے عوام کا وسیع تر مفاد وابستہ ہے۔چین،فرانس،اٹلی،اسپین ،پرتگال،کنیڈا اور آسٹریلیا میںگزشتہ دو ہفتوں کے دوران کورونا وائرس کے مریضوں کی ہلاکتوں کے رحجان میں کمی کی بنا پر ان ممالک کے سائینسدانوں نے کورونا وائرس کی ویکسین اور ادویات کی تیاری کے لیے کافی حد تک کامیاب ہونے کے دعوے سامنے آئے ہیں۔
یہ امر انتہائی باعث اطمینان ہے کہ طبی پیشہ ور افرادکے عالمی نیٹ ورک نے ایک کورونا وائرس کے تیزی کے ساتھ پھیلنے کا نوٹس لیا ہے اور ویکسین کی جلد تیاری کو اہمیت دے کر اسے تیار کرنے کے لیے فارمولہ اپ ڈیٹ کیا اور پھر اس تحقیق کو دنیا بھر کے تحقیق کاروں کو فراہم کردیا۔مزید یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ کام بغیر کسی دانشورانہ املاک کے تحفظ اور اجارہ دار دوا ساز کمپنیوں کے منافع کو نظر انداز کرتے ہوئے مایوس عوام کا توقعات پر پورا اترنے کے لیے بڑی تندہی کے ساتھ کیا گیا ہے؟۔یہ یو ٹوپئین حسین خیالی کی طرح محسوس کیا جاسکتاہے لیکن درحقیقت ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ گزشتہ 50برس سے فلو ویکسین کس طرح تیار کی جارہی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کے گلوبل انفلوئیزا، سرویلنس اور ریسپانس سسٹم (جی آئی ایس آر ایس) کے توسط سے دنیا بھر سے ماہرین ابھرتے ہوئے فلو کے دباوکے تازہ ترین اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے اور تبادلہ خیال کرنے کے لیے سال میں دوبار اجلاس کرتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ ہرسال کی ویکسین میں کون سے عوامل کو شامل کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ اس کام کے لیے دس ممالک کی لیباریٹریز کے نیٹ ورک کو مالی وسائل حکومتوں کے ذریعے فراہم کئے جاتے ہیں اور جزوی طور مختلف فاوینڈیشنز بھی اس کام میں شامل ہوتی ہیں۔چونکہ جی ایس آئی آر ایس صرف اور صرف منافع کمانے کے بجائے انسانی جانوں کے تحفظ پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے ،وہ ویکسینوںکی نشونما کے لیے قابل عمل معلومات جمع کرنے،اس کی ترسیل اور تقسیم کرنے کی منفرد صلاحیت رکھتی ہے۔اگرچہ اس کا یہ نقطہ نظر بہت پرانا ہے لیکن اس کے فوائید آج بھی ظاہر ہورہے ہیں۔
وبائی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کے سائینس داںوبائی بیماریوں کے ممکنہ علاج کے بارے میں معلومات شئیر کرنے،کلینکل ٹرائیلز کو مضبوط کرنے،شفافیت کے ذریعے نئے ماڈل کی تیاری اور نتائیج کو فوری طور پر شائع کرکے قابل قدر کام کرتے ہیں۔تعاون کے اس ماحول میں یہ بھولنا آسان نہیں ہوگا کہ تجارتی بنیادوں پر کام کرنے والی ادویہ ساز کمپنیوں نے کئی دہائیوں سے غیر ضروری،غیر سنجیدہ یا ثانوی پیٹنٹ کے ذریعے جان بچانے والی ادویات کے بزنس پر قابو پالیا ہے اور لابنگ کرکے علم عامہ کی نجکاری پر تالے لگا رکھے ہیں نیز جنرک ادایات بھی تیار کرتی ہیں۔کویڈ 2019 کی آمد کے ساتھ اب یہ بات تکلیف دہ حد تک واضح ہوچکی ہے کہ طب کے شعبہ میں اس طرح کی اجارہ داری انسانی جانوں کی قیمت پر قائم رہتی ہے۔وائرس کی جانچ کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کنٹرول نے مزید جانچ کرنے والی کٹس کو تیزی کے ساتھ رول آوٹ کو روک دیا ہے۔بالکل اسی طرح جیسے 3M کے پیٹنٹ میں ریسپریٹر یا 5 N9 کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ نئے پروڈیوسرز کو میڈیکل کے شعبہ کے افراد کے لیے چہرے کے ماسک کی تیار زیادہ مشکل ہوجائے۔
اب ہمارے سامنے مستقبل میں دو راستے ہیں،پہلا یہ کہ ہم معمول کے مطابق کام کرتے ہوئے بڑی ادویہ ساز کمپنیوں پر انحصار کریں کہ وہ کویڈ 2019 کے ممکنہ علاج اورطبّی سہولتوں کے لیے کچھ کرسکیں اور یہ توقع کریں کہ کویڈ 2019 کی جانچ اور حفاظت کے لیے دیگر ٹیکنالوجی سامنے لائیں گی، کیا اس بنا پر مستقبل میں پیٹنٹ اور بیشتر ادویات کی تیاری پر اجارہ داری رکھنے والی کمپنیوںکو اس کی ذمہ داری دی جاسکتی ہے؟ ۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس صورتحام میں سپلائیرز ان کی ترسیل میں بے حد زیادہ اضافہ کو دیکھ کر زیادہ قیمت وصول کرینگے۔یہ مسلہ کویڈ2019کی ویکسین کے سلسلے میں بھی درپیش ہوگا،جوناس سالک کے پولیوویکسین کے برخلاف جو فوری طور پر مفت دستیاب کردی گئی تھی ۔کچھ ویکسین زیادہ تر مارکیٹ کے ذریعے بھی فروخت کی جاتی ہیں مشال کے طور پر پی سی وی 13 جوکہ بچوں کو زیادہ شدت کے نمونیہ کے علاج کی ویکسین ہے اس قیمت سینکڑوں ڈالرز میں ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک اجارہ دار دوا ساز کمپنی کی ملکیت ہے۔اگرچہ گیوی ویکسین الائینس جس کو بنانے کے لیے بعض ترقی پذیر ممالک میں حکومت کی جانب سے کچھ سبسڈی دی جاتی ہے لیکن پھر بھی ایک بڑی تعداد میں لوگ اس کی خریداری نہیں کرسکتے ہیں۔بھارت میں ہر سال نمونیہ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زائید ہوتی ہے لیکن اس کی ویکسین بنانے والی کمپنی کو سالانہ پانچ بلین ڈالرز کی آمدنی ہوتی ہے۔
مستقبل کے دوسرے ممکنہ پہلوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہونگے کہ موجودہ نظام ،جس میں نجی اجارہ دار کمپنیاں اپنے علم اور تجربہ سے فائیدہ اٹھاتی ہیں اور بڑے پیمانے پر سرکاری اداروں کے ذریعے فوائد حاصل کرتی ہیں ، ایک اچھے مقصد کے لیے ان کا انتخاب موزوں نہیں ہوگا، اس ضمن میں صحت عامہ کا خیال رکھنے کی اہمیت پر زور دینے والے افراد اور اسکالرز ایک طویل عرصہ سے بحث کرتے چلے آرہے ہیں۔اجارہ دار کمپنیوں نے جان بچانے والی ادویات تک رسائی دینے سے انکار کرکے قتل جیسے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ فلو ویکسین کی سالانہ پیداوار میں سہولیات ایک متبادل نظام کے تحت فراہم کی جاتی ہیں،متبادل نقطہ نظر کے حق میں پہلے ہی سے کچھ تحریک موجود ہیں۔مشال کے طور پر کوسٹاریکا کی حکومت نے حال ہی میں عالمی ادارہ صحت سے مطابہ کیا ہے کہ کویڈ2019 کی وبائی بیماری سے نمٹنے کے لیے ایک رضاکارانہ پول قائم کیا جائے جس سے متعدد مینو فیکچروں کو زیادہ سستی قیمتوں پر نئی ادویات اور تشخیص فراہم کی جاسکیں۔
پیٹنٹ کی پولنگ کوئی نیا خیال نہیں ہے،میڈیسن پیٹنٹ پول کے توسط سے اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت نے کئی برس تک ایچ آئی وی ایڈز،ہیپا ٹائیٹس سی اور تپدق کے علاج کے لیے مدد کی ہے اور اب اس پروگرام میں کویڈ2019کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔پیٹنٹ پول، پرائیزفنڈزاور اسی طرح کے دوسرے نظریات ایک وسیع تر ایجنڈے کا حصہ ہیں جس سے اس بات کی اصلاح کی جاسکتی ہے کہ زندگی بچانے والی ادویات کس طرح تیار کی جاتی ہیں اور انھیں کس طرح دستیاب کیا جاسکتا ہے۔مقصد یہ ہے کہ اجارہ داری کی بنیاد پر چلنے والے نظام کی جگہ تعاون اور مشترکہ مفادات پر مبنی نظام بنایا جائے۔
اس بات کا تعین کرنے کے لیے کچھ لوگ یہ استدلال پیش کرینگے کہ کویڈ 2019کا بحران یکدم سامنے آیا ہے۔یا یہ کہ کویڈ 2019 دوا ساز کمپنیوں کو جاری کئے جانے والے لائیسنس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ جس کے ذریعہ ان کو اچھا برتاو کرنے کی ایک وارننگ ملی ہے۔لیکن فرنٹ لائین کے تحقیق کار وں سے ماورا جو محض قلیل مدتی منافع کی بنا پر متحرک نہیں ہوتے ہیں۔یہ بھی واضح نہیں ہے کہ بڑی دواساز کمپنیاںاپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی ہیں۔ ایک طویل مدت سے ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہیںکہ آج کے دور میں آئی پی کی حکومت ضروری ہے۔جی آئی ایس آر ایس اور اوپن سائینس کے دیگراطلاق کی ثابت قدمی سے پتہ چلا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔کویڈ 2019 میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ہمیں ایک ایسے نظام کے مفادات اور اخلاقیات پر سوال کرنا چاہیے جو لاکھوں انسانوں کو خاموشی سے ہر سال تکلیف اور موت کی سزا دیتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ کسی نئے نقطہ نظر کا محض منافع بخش دوا سازی کمپنیوں کی جدت طرازی کے بجائے ماہرین تعلیم اور پالیسی سازوں کو معاشرتی طور پر مفاد عامہ کی خاطر مختلف تجاویز پیش کرنے کا موقع فراہم کریں اور اب وقت آگیا ہے کہ ان کی تجاویز کو عملی جامعہ پہنانے کا آغاز کیا جائے کیونکہ اگر ایک بار وقت سے نکل جائے تو پھر کبھی واپس نہیں آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔