میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چورکو پڑگئے مور اربوں روپے کرپشن کرنے والی سیاسی شخصیات کے ساتھ ہاتھ ہوگیا

چورکو پڑگئے مور اربوں روپے کرپشن کرنے والی سیاسی شخصیات کے ساتھ ہاتھ ہوگیا

منتظم
هفته, ۶ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں


مسٹر ٹین پرسنٹ نے سابقہ دور حکومت میں لوٹ مار کرنے والوں کا مال ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے مالک کے ہاتھوں بیرون ملک بھجوانے کا لارا لپا دیااورمبینہ طور پر ہڑپ کرگئے
لانچوں کے پکڑے جانے کے ڈر سے کرنسی جلانے کی کہانی گھڑی گئی،ڈیپارٹمنٹل اسٹور مالک کی وطن واپسی پر ’’متاثرین‘‘نے گھیر لیا،مسٹرٹین پرسنٹ نے بچالیا،ذرائع کا انکشاف
2008ء کے عام انتخابات میں جب ملک بھر میں مجموعی طور پر پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی تو وفاق اور سندھ میں پی پی پی نے حکومت بناڈالی۔ یہ دور1988ء اور1993ء سے مختلف تھا کیونکہ پچھلے ادوار میں بینظیربھٹو وزیراعظم تھیں اور وہ کسی نہ کسی طرح وزراء کی کارکردگی چیک کرتی رہتی تھیں اور پھر جب کسی کے خلاف شکایات آتیں تو وہ اس کا ازالہ بھی کرتیں، غلط کام کرنے والوں کو سزائیں بھی دیتیں ۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بینظیربھٹو نے اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو جرم کرنے پر گرفتار بھی کرایا۔ مگر 2008ء میںسب کچھ بدل گیا ،اب آصف زرداری تھے اور اب سب کو یہ حکم تھا کہ ’’لُٹو۔۔تے پُھٹو‘‘ اور پھر دیکھتے دیکھتے پی پی پی کے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ نے اس مقولے پر دل کھول کر عمل کیا اور جی بھر کر لوٹ مار کی اور جتنا مال وہ جمع کرنا چاہتے تھے انہوں نے جمع کیا اور مال میں سے حصہ بڑے صاحب کو بھی دیا۔ اس دور میں ’’عجب کرپشن کی غضب کہانیاں‘‘ منظر عام پر آئیں تو دنیا حیران رہ گئی۔ لاکھوں اور کروڑوں روپے کی کرپشن کو اب پیچھے دھکیل دیاگیا اور اربوں روپے کی بات کی گئی اور واقعی سب نے اپنی سوچ اور پہنچ کے مطابق اربوں کھربوں روپے لوٹنے کی بھرپور کوشش کی۔ پیرمظہرالحق نے16ہزار نئی نوکریاں دے کر آٹھ دس ارب روپے کمالیے۔ آغا سراج درانی نے بھی13ہزار نوکریاں دیں اور انہوں نے بھی آٹھ نو ارب روپے کمالیے۔ نادر مگسی نے گندم کی خالی بوریاں‘ گندم کی خریداری میں بھی دس ارب روپے سے زائد کمالیے۔ سید مراد علی شاہ ہر سال بجٹ کے 40سے50ارب روپے مسٹر ٹین پرسنٹ اور ان کے قریبی رشتہ دار جوماضی میں دودھ فروش رہے ہیں، اس کے حوالے کرتے رہے۔ اسی انعام کے نتیجہ میں جونیئر ہونے کے باوجود ان کو وزارت اعلیٰ کی کرسی دی گئی۔ ایک اسٹیٹ ایجنسی چلانے والے بروکر شرجیل میمن کو کئی محکمے دیئے گئے ،اس نے بھی 15ارب روپے سے زائد کمالیے۔ اویس مظفرٹپی کو ایک درجن محکمے دیے گئے ،اس نے بھی تیس چالیس ارب روپے کمالیے، بلاول ہاؤس کے اطراف میں تمام گھر اونے پونے داموں میں خرید لیے ، دبئی میں محل خریدے۔ اگرچہ وفاق میں بھی انسانی عقل کو دنگ کردینے والی کرپشن کہانیاں ہیں لیکن سندھ میں سرکاری خزانے کا وہ حشر کیاگیا کہ ناقابل بیان ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ جب سب نے لوٹ مار کرلی تو مسٹر ٹین پرسنٹ نے کراچی کے ایک معروف ڈپارٹمنٹل اسٹور میں ایک آفس قائم کرایا اور سندھ کے اربوں کھربوں روپے کے مالک بننے والے صوبائی وزراء کو بلایا اور کہا کہ ڈپارٹمنٹل اسٹور کا مالک ایک تو ہمیں15فیصد منافع دیگا جبکہ بینک صرف سات فیصد منافع دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ شخص ہمارے پیسے پاکستان سے باہر لے جائے گا پھر آپ لوگوں کو یہ رقم دبئی‘ لندن اور نیویارک میں ملے گی ،وہاں جو کچھ خریدنا ہے خریدلو اور باقی زندگی عیش وعشرت سے گزاردو۔ مسٹرٹین پرسنٹ نے ان سب کو مرعوب کرنے کے لیے اپنے بھی رسید دکھائی کہ میں نے بھی دس ارب روپے اس ڈپارٹمنٹل اسٹور کے مالک کے پاس جمع کرائے ہیں پھر کیا تھا سب نے وہاں رقم جمع کرائی اور ایک اندازے کے مطابق60سے80ارب روپے اس ڈپارٹمنٹل اسٹور کے مالک کے پاس جمع ہوگئے۔پھر کیا ہوا۔۔؟ مسٹرٹین پرسنٹ نے ایک دن کراچی آکر پیسے جمع کرانے والوں کے ساتھ شاندار پارٹی منعقد کی اور خوشخبری سنائی کہ ان کے پیسے لانچوں کے ذریعہ دبئی روانہ کردیئے گئے ہیں اوراگلے دن ان کو پھر ایک پارٹی میں نئی خوشخبری سنائی جائے گی،سب خوش تھے۔ دوسرے دن انکے لیے منحوس خبر بھی ان لوگوں کو سنادی گئی کہ غضب ہوگیا۔ جن لانچوں میں رقم لے جائی جارہی تھی، اس پر کوسٹ گارڈ اور نیوی نے چھاپے مارے اور رقم تو ان کے ہاتھ لگنے نہیں دیاگیا اور یہ رقم جلادی گئی ہے، ثبوت کے طور پر کشتیاں دیکھی جاسکتی ہیں ۔اور نثارمورائی‘ نواب لغاری جیسے افراد بمشکل جان بچاکر کراچی واپس آتے ہیں ۔یہ کہانی سن کر ان افراد کے چہرے لٹک گئے۔ذرائع بتاتے ہیںکہ مسٹر ٹین پرسنٹ نے یہ رقم ماڈل ایان علی اور ان کی ساتھی ماڈلز کے ذریعہ دبئی بھیج چکے تھے اور مذکورہ ڈپارٹمنٹل اسٹور کے مالک کو بھی دبئی میں اپنے محل میں رکھ لیا۔ یوں اپنے عہدے اور اپنی طاقت کے زور پر ان بااثر افراد کو خاموش کرادیا گیااور پھر پانچ سال بعد اب ڈپارٹمنٹل اسٹور کا مالک واپس کراچی پہنچ گیا ہے تو یہ بااثر افراد اس کے پاس جا پہنچے اور تقاضا کیا کہ ان کو رقم واپس دی جائے ۔وہ جب روتا دھوتا مسٹر ٹین پرسنٹ کے پاس جا پہنچا اور کہا کہ حضور میں نے تو ایک روپیہ بھی نہیں کھایا، میں تو صرف رقم یا چیک لے لیتا تھا ،پوری رقم تو آپ کو ایمانداری سے دے دی تھی ،مجھے تو کمیشن بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر دی گئی تھی پھر بھی میں نے خاموشی اختیار کی لیکن اب یہ سارے بااثر افراد میرے پیچھے آئیں گے تو میں ان کے آگے کیاکہ سکوں گا؟ مفت میں ذلیل ہوجائوں گا۔ برائے مہربانی آپ ان کو کنٹرول کریں ،تب مسٹرٹین پرسنٹ آگ بگولہ ہوگئے اور ان تمام افراد کو بلایا اور غصے کے عالم میں کہا کہ آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ یہ بیچارہ مصیبت جھیل کر واپس آیا ہے ،اس کی رقم بھی گئی، ڈپارٹمنٹل اسٹور بھی گیا اور پھران کو طاقتور اداروں نے اٹھالیا اور مسلسل پوچھتے رہے کہ یہ کس کی رقم تھی؟ اس بیچارے نے زبان نہیں کھولی اور پانچ سال تک تشدد برداشت کرتا رہا لیکن آپ لوگوں کا نام نہیں لیا ،اگر یہ نام لے لیتا تو آپ لوگ کیا صفائی پیش کرتے کہ یہ رقم کہاں سے حاصل کی؟ بہتر یہی ہے کہ آپ لوگ خاموش ہوجائیں، ورنہ اس کو تنگ کیا جائے تو یہ جاکر طاقتور اداروں کو آپ کا نام بتا
دے گا اور پھر طاقتور ادارے آپ کے گرد گھیرا تنگ کریں گیب پھر آپ کو ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلے رقم گئی اب الٹا تحقیقات کا بھی منہ دیکھنا پڑے گا، بہتر یہی ہے کہ خاموش ہوجائو۔ اس کے بعد یہ بااثر افراد منہ لٹکائے گھر چلے گئے۔ مسٹرٹین پرسنٹ نے ڈپارٹمنٹل اسٹور کے مالک کو تھپکی دی کہ جاکر اپنا کام کرو ،اب تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ اس کو کہتے ہیں کہ’’ چور کو پڑگئے مور‘‘، اور’’ چور کا مال جب چھن جاتا ہے تو اس کی ماں چھپ کر روتی ہے‘‘۔
الیاس احمد


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں