میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیراعظم کی صوبوں میں وسائل کی یکساں تقسیم کی یقین دہانی

وزیراعظم کی صوبوں میں وسائل کی یکساں تقسیم کی یقین دہانی

ویب ڈیسک
پیر, ۶ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ روز وزیر اعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری سے ملاقات کے دوران میں انہیں یقین دلایاہے کہ تمام صوبوں کووسائل کی یکساں تقسیم ہماری ذمے داری ہے۔ ملاقات کے دوران میں وزیراعلیٰ بلوچستان سردارثنا اللہ زہری نے وزیراعظم نواز شریف کوصوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں پرپیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی صورتحال میں بہتری سے عوامی بہبود کے منصوبوں پرنئے ولولے سے کام جاری ہے اوروفاقی حکومت کے اقدامات سے صوبے کی محرومی کا خاتمہ ہوا ہے جب کہ حکومتی اقدامات کی بدولت سلامتی کی صورتحال میں بھی بہتری آئی ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو یقین دلایا کہ ملکی وسائل تمام صوبوں کی ملکیت ہیں اس لیے ملکی وسائل پرتمام صوبوں کایکساں حق ہے اورتمام ہی صوبوں کووسائل کی یکساں تقسیم یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ فاٹا اور گلگت بلتستان کوبھی ملکی وسائل پریکساں حق دینا چاہتے ہیں جب کہ پاکستان کوترقی یافتہ ریاست میں تبدیل کرنا ہمارا وژن ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان میں جاری منصوبوں اوراسکیموں کی رفتارکی خود نگرانی کررہا ہوں، ملک کی تمام اکائیوں میں یکساں ترقی کے بغیر حکومتی وژن کی تکمیل نہیں ہوسکتی، حکومت کے ترقیاتی اقدامات سے بلوچستان کے عوام بااختیارہوں گے اورحکومتی اقدامات کی بدولت بلوچ عوام کو بہترین زندگی کا ادراک ہوگا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو حقیقی طورپر مضبوط ومستحکم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں یکجہتی اور اتحاد کو یقینی بنایا جائے اور اسے ایک متحد اور منظم قوم کی شکل اسی وقت دی جاسکتی ہے جب پاکستان میں آباد تمام قومیتوں کو بلالحاظ زبان ونسل مساوی حقوق دیے جائیں۔ ملکی وسائل کی مساوی اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور ملکی وسائل خاص طورپر ملازمتوں کے مواقع کی تقسیم میں برتا جانے والا مبینہ امتیاز اور اقربا پروری کاخاتمہ کیاجائے اور کسی علاقے کو ملازمتوں کی فراہمی کے لیے پسندیدہ اور کسی کو ناپسندیدہ ظاہر کرنے کا وطیرہ ترک کیاجائے۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ 2017 کا پاکستان پہلے سے زیادہ محفوظ ، روشن اور معاشی طور پر مضبوط ہے۔ ملک ترقی کی شاہراہ پر چل رہا ہے لیکن ترقی کے اس سفر کو جاری رکھنے اوراسے تیز تر کرنے کے لیے ہرکام کا سہرا اپنے سر باندھنے اور ملک میں شہنشاہیت کاماحول پیدا کرنے کی کوششوں سے گریز کیاجائے اوریہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ ملک کی ترقی کے لیے ”میں“ کی روش ملک اورقوم کے لیے نقصان دہ ہے اور پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے ”ہم“کے راستے پر چلنا ہوگا۔ارباب اختیار کو ہمیشہ ملکی مفادات اور جمہوری اقدار کو مقدم رکھناہوگا اور یکجہتی، اتحاد اور اتفاق کے ذریعے ملک کو آگے لے کرجانے کے لیے دوسروں کودھتکارنے کے بجائے سب کی باتیںکھلے دل کے ساتھ سن کر مخالفین کی قابل عمل تجاویز اور مشوروں کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرنے اور کچھ لو اور دوکی پالیسی کے تحت سب کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی اختیار کرناہوگی ۔
وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ بلوچستان سے بات چیت کے دوران گلگت بلتستان کوبھی ملکی وسائل پریکساں حق دینے کاعندیہ دیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کو پاکستان میں حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی تازہ ترین رپورٹ پر بھی توجہ دینی چاہئے جس میں کہاگیا ہے کہ گلگت بلتستان میں خفیہ اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جائے۔گلگت بلتستان پر جاری ہونے والی اپنی تازہ رپورٹ میں کمیشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان اداروں کی جانب سے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین کے بے جا استعمال کو روکا جائے۔رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن کی سابق سربراہ عاصمہ جہانگیر نے اس رپورٹ کے لیے حقائق جاننے کی خاطر گزشتہ برس اگست میں دورہ کیا تھا۔ اسلام آباد میں اس رپورٹ کو جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ گلگت بلتستان کے جمہوری فورمز کو مزید اختیارات دے، مقامی لوگوں میں سے جج تعینات کرے اور یہاں کے آئی ڈی پیز کے مسائل حل کرے۔عاصمہ جہانگیر کے مطابق گلگت بلتستان میں کوئی ذرا سی بھی تنقید کرے ایجنسیاں انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فوراً گرفتار کر لیتی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت خفیہ اداروں کو اختیارات دے دیے گئے ہیں کہ وہ لوگوں پر نظر رکھیں،ظاہر ہے کہ جب بیس بائیس برس کے نوجوان واچ لسٹ پر ہوں گے تو اس سے خوف کی فضا تو پیدا ہو گی۔ اگر کوئی ذرا سی بھی تنقید کرے ایجنسیاں انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فوراً گرفتار کر لیتی ہیں’۔رپورٹ کے مطابق کئی سو نوجوان اور سیاسی کارکن انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت جیلوں میں ہیں اور گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے اختیارات کی نگرانی کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کمیشن نے الزام عاید کیاہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان راہداری یا سی پیک کے لیے گلگت بلتستان کی حکومت نے مبینہ طور پر مقامی شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انھیں زبردستی گھروں سے نکالا ہے اور ان کی زمینیں ہتھیا لی ہیں جبکہ چیف سیکریٹری نے شہریوں کی زمینیں ریاستی اداروں کو الاٹ کرنے کا نوٹیفیکشن بھی جاری کیا ہے۔اگر ان رپورٹوں میں معمولی سی بھی صداقت ہے تو یہ موجودہ حکومت کے دعووں کی نفی کے مترادف ہے اور جب تک اس طرح کی شکایات کاتدارک نہیں کیاجاتا،ملک میں اتحاد واتفاق کاماحول پیدا کرنا ممکن نہیں ہوسکتا اور سب کو ساتھ لے کر چلنے اور میں کی جگہ ہم کاجذبہ کاپیدا کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔
امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیارخاص طورپر وزیراعظم نواز شریف اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے اور اپنے قول وعمل میں مطابقت پیدا کرنے پر توجہ دیں گے، کیونکہ سب کو ساتھ لے کر چلنے ہی میں خود ان کااپنا مفاد بھی پنہاں ہے جب تک وہ سب کوساتھ لے کر چلنے کی سعی نہیں کریں گے۔ سولو فلائٹ کے ذریعے کرسی کو تومضبوط کرنے کی سعی کی جاسکتی ہے لیکن قوم کو متحد اور منظم کرنا ممکن نہیں ہوسکتااور قوم کومتحد اور منظم کرنے میں ان کی ناکامی اگلے عام انتخابات میں جس میں اب زیادہ دن باقی نہیں ہیں ان کے لیے مسائل کاسبب بن سکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں