وفاق اور صوبوں کی کشمکش
شیئر کریں
پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے جس میں چار صوبے ہیں۔ ان صوبوں کی مزید تقسیم کے لیے عموماً تحریکات چلتی رہی ہیں لیکن اتنی ہی شدت سے اس کی مخالفت بھی کی گئی ہے۔ 1973ءکے دستور میں 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے چھوٹے صوبوں کی اشک شوئی کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اب بھی سندھ کا شکوہ ہے کہ پنجاب اس کے حصے کا پانی پی رہا ہے اور مقررہ مقدار کے مطابق پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے یہ امر مسلمہ ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان توازن کا قائم رہنا بہت ضروری ہے تاکہ نظام مملکت چلتا رہے اور سابقہ مشرقی پاکستان جیسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ معروف قانون دان اور دانشور مائیکل اسٹین کا کہنا ہے کہ”متوازن باہمی شعور اور سماجی و معاشی معاملات میں توازن بھی مختلف طبقات کو وفاق تشکیل دینے پر مائل کرسکتے ہیں قومی اور علاقائی ذیلی نظاموں میں انحصار باہمی کے ذریعے متصادم قوتوں میں اتحاد اور توازن قائم کیا جاسکتا ہے قیام پاکستان کے بعد صوبوں اور مرکز کی لڑائی اور الزامات کی بوچھاڑ تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے حالانکہ اس سلسلے میں بھارت اور نائیجیریا جلسے ملکوں کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکتا تھا۔ نائیجیریا نے 1967ءمیں کثیر لسانی اور قبائلی معاشرے میں وفاقی توازن کے لیے چار علاقوں کی سرحدوں میں تبدیلی کرکے 12وفاقی یونٹس تشکیل دیے(موجودہ پاکستان میں بھی چار صوبے ہیں) بھارت نے 1956ءمیں چند صوبوں کی لسانی بنیادوں پر نئی تنظیم کی۔ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور یہ عمل دوسرے کئی علاقوں میں اب بھی جاری ہے برصغیر کی تقسیم کے وقت بھارت کے 9صوبے تھے جن کی تعداد اب 32ہوچکی ہے۔ پاکستان میں بھی وقتاً فوقتاً صوبوں اور وفاق کے درمیان توازن کے لیے نئے صوبوں کی تشکیل کا مطالبہ ہوتا رہا ہے۔ جنرل ضیاءالحق مرحوم نے ممتاز عالم دین اور سیاسی شخصیت مولانا ظفر احمد انصاری کی سربراہی میں ”انصاری کمیشن“ تشکیل دیا تھا جس نے پاکستان میں 22صوبوں کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے 22ڈویژنوں کو صوبہ بنادیا جائے۔اس کمیشن کی تجاویز تاریخ کے کچرے دان میں دفن ہوچکی ہیں اور عملدرآمد سے محروم ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار‘ مہاجر اتحاد تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم حیدر کی تحریکوں کا بنیادی مطالبہ نئے صوبوں کی تشکیل ہے۔ سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے لیے بھی ایک طاقتور تحریک موجود ہے سرائیکی صوبہ تحریک کے سربراہ تاج محمد لنگاہ کی صاحبزادی نخبہ لنگاہ نے تو ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جس دن بنگلہ دیش بنا‘ سرائیکی صوبہ کی بنیاد بھی اسی دن پڑ گئی تھی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان نسلی اور لسانی اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ کراچی کے منتخب میئر وسیم اختر کا تعلق ایم کیو ایم پاکستان سے ہے۔ وہ کراچی میں آباد ایک وسیع لسانی اکثریت کے نمائندہ ہیں لیکن ان کا شکوہ ہے کہ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والی سندھ سرکار نے ان کے اختیارات سلب کرلیے ہیں۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کردیا گیا۔ کراچی واٹر بورڈ پر بھی سندھ حکومت قابض ہے۔ بلدیہ کراچی کی وسیع و عریض عمارت”سوک سینٹر“ سے بلدیہ کے ملازمین کو بے دخل کرکے ایم اے جناح روڈ پر واقع پرانے دفتر پہنچا دیا گیا۔ حالانکہ ماسوائے صوبہ خیبر پختونخواہ‘ کوئی صوبہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ مکمل طور پر کسی ایک نسلی گروہ کا صوبہ ہے۔ پنجاب کے شہری علاقوں میں عموماً اردو اور دیہی پنجاب میں پنجابی زبان بولی جاتی ہے۔ سندھ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بلوچستان میں بلوچ آبادی 50فیصد سے بھی کم ہے لیکن بعض سردار”بلوچوں کے حقوق“ کا نعرہ لگا کر دوسری بڑی لسانی اکثریت پختونوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔ یہاں سبّی اور لسبیلہ کے علاقے میں سندھی اور سرائیکی زبان بھی بولی جاتی ہے۔ اب جبکہ ملک بھر میں نئی مردم شماری کے شیڈول کا اعلان بھی ہوچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں آباد ہر لسانی آبادی کو اس کے ثقافتی‘ لسانی اور تہذیبی حقوق کے اعتبار سے اس کا حق دیا جائے۔ انتظامی حکمرانی کا اختیار بھی دیا جائے تاکہ پاکستان حقیقی معنوں میں ایک وفاقی ریاست کا درجہ حاصل کرسکے۔
٭٭