بریت سے قبل ملزم کا انتقال؛ ارباب اختیار کے منہ پر طمانچہ
شیئر کریں
اخباری اطلاعات کے مطابق قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانے والے سید رسول کی لاہور ہائیکورٹ سے بریت کا فیصلہ آنے کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ بری ہونے والے ملزم کا2سال قبل جیل میں انتقال ہو گیا تھا۔یہ انکشاف ملزم سید رسول کے وکیل نثار اے کوثر نے کیا۔ ان کے بقول اپیل کے فیصلے سے پہلے ہی ان کا موکل سید رسول نومبر 2014 میں جیل میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا تھا۔
اس مقدمے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ضلع سرگودھا کے علاقے بھیرا کے سید رسول کو قتل کے مقدمے میں ماتحت عدالت نے 2013 میں موت کی سزا سنائی تھی اور اسی سال سزا کے خلاف جیل اپیل دائر کی گئی۔ گزشتہ برس دسمبر میں لاہور ہائیکورٹ کے 2 رکنی خصوصی بینچ نے ملزم کا وکیل نہ ہونے پرنثار اے کوثر ایڈووکیٹ کو ملزم کی پیروی کے لیے مقرر کیا تھا۔ماہرین قانون کے مطابق جیل اپیل ایک ایسی سہولت ہے جو اس ملزم کو فراہم کی جاتی ہے جس کا کوئی وکیل نہ ہو، اس سہولت کے تحت جیل انتظامیہ کی جانب سے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل دائر کی جاتی ہے۔سید رسول کے وکیل نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے2 رکنی بینچ نے عدم ثبوت اور ناقص تفتیش پر اپیل منظور کرلی۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں2 رکنی بینچ نے گزشتہ دنوں سید رسول کی سزا کو کالعدم قرار دیکر اسے بری کرنے کا حکم دیا۔ جنوری 2017 میں اپیل منظور ہونے کے بعد ملزم کو اس کی رہائی کی اطلاع دینے کے لیے جیل سے رجوع کیا گیا، لیکن کوئی رابطہ نہ ہوسکا، سید رسول کے گھر والوں سے رابطے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ سید رسول آٹھ نومبر 2014 کو شاہ پور جیل میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا تھا۔
کسی ملزم کی عدالت سے بریت کے فیصلے سے قبل ہی اس کے انتقال کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس حوالے سے مختلف مواقع پر کافی مباحثے ہوچکے ہیں اور ہمیشہ تان عدالتی طریقہ کار پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ا س طرح کے واقعات کے انکشاف پر یقینا ایسے ملزمان کی بریت کافیصلہ سنانے والے جج حضرات کو افسوس بھی ہوتاہوگا اور اپنے عدالتی طریقہ کار کی پیچیدگیوں پر ان کا دل بھی ضرور کڑھتاہوگا، لیکن کسی بے قصورکے طویل عرصے تک ناکردہ گناہوںکی سزا کاٹنے کے بعد بے بسی کے عالم میں جیل میں ہی دم توڑدینے کے بعد اس طرح کے تاسف کاکسی کو کیافائدہ ہوسکتاہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا اس طرح کے واقعات ہمارے عدالتی نظام کی اصلاحات اور انصاف لوگوں کی دہلیز تک پہنچانے کے دعوے کرنے والوں کے منہ پر بھرپور طمانچہ نہیں ہے؟ کیا ہمارے ارباب اقتدار خاص طورپروزارت انصاف کی اعلیٰ مسند پر براجمان اور لوگوں کو ناانصافیوں سے نجات دلانے کے دعوے کرنے والوں نے اس طرح کے واقعات کے بعد کبھی اس کے اسباب پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی ؟کیاانصاف میںتاخیر کی اس صورتحال کے سدباب اور لوگوں کو بروقت انصاف کی فراہمی کے لیے کسی بھی حلقے کی جانب سے کوئی مثبت پیش رفت کی گئی ؟ یقینا ً اس کاجواب نفی میں ہی ملے گا۔ اس صورتحال میں ایک بے قصور ثابت ہونے والے شخص کادوران اسیری اپنے خالق حقیقی سے جاملنا ان ارباب اختیار کے لےے لمحہ فکریہ ہے جو اٹھتے بیٹھتے خود کو عوام کا خادم بلکہ خادم اعلیٰ ہونے کادعویٰ کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو دیگر معاملات کی طرح اس واقعے کا بھی از خود نوٹس لینا چاہئے،اور اس طرح کے واقعات کے ذمہ دار حلقوں کاتعین کرکے ان سے باز پرس کرنی چاہئے۔اگر اس صورتحال کا سبب ہمارے عدالتی نظام کی پیچیدگیاں ہیں تو ان پیچیدگیوں کو فی الفور دور کرنے کے لےے ہنگامی بنیادوں پر اقدام کےے جانے چاہئیں، ہماری عدالتوں کے جج صاحبان کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ اسلام میں عدل کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف قرار دی جاتی ہے، اگر ایک شخص کی اپنی سزا کے خلاف اپیل کے فیصلے میں تین سال کا طویل عرصہ لگ سکتاہے تو اصل مقدمے کے فیصلے میں کتنا وقت درکار ہوگا؟
امید کی جاتی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان جو ملک میں انصاف کی بالادستی کے لےے کوشاں ہیں اس صورتحال کاسنجیدگی سے جائزہ لیں گے اور کوئی ایسا طریقہ کار اور لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش کریں گے کہ کسی بھی بے قصورشخص کو محض عدالتی پیچیدگیوں کے سبب دوران اسیری ہی جان سے ہاتھ نہ دھونا پڑیں۔