شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے؟
شیئر کریں
(آخری قسط)
ماحول کو تلخ اور باہمی الزام تراشی کی جانب مڑتا دیکھ کر ایک صاحب کہنے لگے کہ یہ تو سمجھ آتی ہے کہ سابق حکمران خاندان اس قانون میں تبدیلی اور اپنے اقتدار کو فرعون ایسا دوام بخشنے کے لیے ایسے اوچھے حربے استعمال کررہا تھا مگر نبی ﷺ کے ماننے والے تو اسمبلی میں بیٹھے تھے انہوں نے اس کو منظور ہونے سے کیوں نہ روکا؟اگرا ٓئین پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھانے والے ان ممبران کی اسمبلی کی ایک سیٹ نبی ﷺ کی محبت پر بھاری ہے تویہ ممبران قادیانیوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔اس پرپورٹ پر ٹگ بوٹ چلانے والے اور حال میں ریٹائر ہونے والے ایک صاحب بولے کہ دھرنے کے آغاز سے اختتام پر رٹ آف دی اسٹیٹ کہیں نظر نہیں آئی۔پہلے ڈی سی صاحب کی عدالتی حیثیت کی وجہ سے تو احتجاج کی نیت سے لے کر اس کے نمٹنے تک ہر مرحلے پر اسٹیٹ کی رٹ نظر آتی تھی۔انگریز ڈپٹی کمشنر کو Government on Two Legs کہتا تھا۔جب سے ڈپٹی کمشنر کے پاس سے عدالت کے اختیارات لے لیے گئے۔اب سرکار کی جانب سے مظاہرین سے بات چیت یا تو وزیر کرے یا ڈنڈا ، گولی۔یہ بہت ہی برا قدم اٹھایا گیا ہے۔
ایک صاحب اس بات پر تو مدح سرا تھے کہ فوج کی مداخلت سے ملک ایک بڑے فتنے سے بچ گیا اوردشمن کے عزائم ناکام ہوئے۔ دھرنے والوں نے بھی جو وزارت داخلہ کا 26 ؍نومبر والا اعلامیہ جاری ہونے پرلالو کھیت والوں کے لب و لہجے میں کہنے میں ایسی دھماچوکڑی مچائی جیسی عید کی صبح کبھی کبھار نماز پڑھنے والے ازار بند کی تلاش کے وقت مچاتے ہیں۔کہنے لگے ’’ ارے جانی اپنے پنجاب والے رینجر بھا ئی آرہے ہیں، جلدی سے سسرے بسترے کو لپیٹ کر سوزوکی میں پھینک،کرتہ بدل لے۔ ابے شلوار کی بہن دی سری یہ کون سی سیلفی میں آوے گی۔ سیلفی ضرور بنوانی ہے،اماں دیکھ کر خوش ہووے گی ‘‘ اس پر وہی ایم کیو ایم والے حضرت بولے بھیا ادھر کوئی سیلفی نہ کھنچاوے،ادھر تو گھر میں گھستے ہی دے مار ساڑھے چار ہوجاتی ہے۔ـ‘ ایک مہینے تک تو چھورے کا پتہ ہی نہ چلے کہ رائو انوار کے پاس ہے کہ موساد کے پاس ‘ وہی صاحب جو اس فوجی مداخلت کے بہت حامی تھے وہ اس بات سے شاکی تھے کہ رینجرز نے کام بہت بچکانہ اور غیر افسرانہ انداز سے کیا۔اس سے نہ صرف ان کا ’آسینے لا لگ جا ٹھا کرکے‘ قسم کا طرز عمل کئی شبہات اور تعصبات کو ہوا دے گیا بلکہ ان کی سیلفیوں اور رقم کی تقسیم پر بہت تضحیک ہوئی۔
جونا چاول کامریڈ جان محمد اس موقع پر دور کی کوڑی لایا۔وہ کہنے لگا کہ جنرل راحیل شریف کو ایکسٹینشن دلوانے کے چکر میں آئی ایس پی آر اتنا سرگرم ہوگیا تھا کہ مجھے لگنے لگا تھا یہاں اب اگلا افسر کوئی فیلڈ مارشل لگے گا۔ جنرل ضیا کے دور میں جس کام کو ایک کرنل اور ایک بریگڈیئر کیا کرتے تھے وہاں اب بہت بڑے افسر بہت چھوٹے کام کرتے اور بعد میں ٹوئیٹرڈیلیٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ رینجرز کے وہ غازی، وہ سادہ دل افسر جو لفافے تھامے مظاہرین میں پہنچے ان کا پبلک ڈیلنگ کاتجربہ بہت محدود اور ناپختہ لگتا ہے،لگتا ہے وہ میڈیا پر نمایاں نظر آنے کے شوق میں وہ کام کرنے پہنچ گئے جو عام حالات میں ایک تحصیل دار یا اے سی کا ہوتا ہے۔ان کی نیت عمدہ اور ان کا طریقہ کار بوداتھا۔وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ میڈیا تو بہت بڑاDe-Mystifier ہے۔جو اس مہلک ہتھیار کے سہارے جیتے ہیں وہ اسی کی وجہ سے مرتے ہیں۔۔یہ طاقت اور کشش کے دعوؤں کو بہت جلد جھٹلانے لگتا ہے ۔اس کے مستقل ہیرو کوئی نہیں ہوتے ۔رینجرز کے وہ اعلیٰ افسر لفافے تھامے فسادیوں میں نہ پہنچ جاتے تو اچھا تھا۔ان کی سیلفیوں اورTotal Surrender سے سندھ اور بلوچستان میں بہت غلط تاثر قائم ہوا ۔
دراصل لاکھ پیشہ ورانہ صلاحیت رکھنے پر کوئی فوجی افسر اپنے ادارے سے جڑا ہونے کے بعد یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ عوام اور میڈیا کو سمجھتا ہے۔وہ مشن اور Tenure(پوسٹنگ کا مختص دورانیہ )کے حساب سے اپنی ملازمت کو برتنے کا عادی ہوتا ہے۔ایک خاص لیول پر پہنچنے کے بعد اس کا کوئی عوامی یا عدالتی محاسبہ بھی نہیں ہوتا یوں بطور فرد اور ادارے کے اسے اپنی غلطیاں درست کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ مظاہرین رقم پکڑ کرپتلی گلی سے اپنے گھر چلے گئے نوٹیفیکشن کے احکاماتی تقاضے پورے ہوئے۔مشن پورا ہوا اور وہ جو خون خاک نشیناں تھا سور زق خاک ہوا!
اس موقع پر اردو کالج میں سندھی زبان کے ایک ریٹائرڈ استاد کہنے لگے کہ یہ جو اب ہماری پانچ۔ کور کا ہیڈ کوارٹر ہے ۔یہ سندھ پتح(فتح) ہونے کے بعد 1845میں نواب بادشاہ سر چارلس نیپیئر نے ہی پہلی عمارت بنائی تھی۔یہ افسر لوگوں کو رٹ آف اسٹیٹ قائم کرنی ہو تو اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ہندوستان میں جب یہ بمبئی سندھ کا گورنر بنا تو یہاں اعلیٰ ذات کے راجپوتوں اور برہمنوں میں ستی کی رسم مروج تھی ۔مرنے والے کی بیوہ چتا روشن ہوتے ہی آگ میں دھکیل دی جاتی تھی۔ چارلس نیپیئر کے نزدیک یہ قانون کی نظر میں قتل تھا۔اس نے پابندی لگا دی۔اس سے جب ایک وفد شکایت کے لیے ملنے آنے والا تھا تو شہر بھر کے ترکھانوں کو جمع کرکے باغ میں پھانسیاں بنواکر نصب کردی گئیں۔یہ نظارہ وفد کے لیے بہت بڑی چیتاونی تھا۔جب وفد نے شکایت کی وہ کون ہوتا ہے جو کسی سماجی رسم پر پابندی لگائے جو صدیوں سے ان کے ہاں مروج ہے۔ اس نے جواب “Be it so. بیوہ عورت کو جلانا تمہاری رسم ہے،سو تم الائو بھڑکا کر بیوہ جلائو۔میں ایک ایسے قانون کا رکھوالا ہوں جو اس کو قتل سمجھتا ہے تم اپنی رسم پوری کرو ،میں نے قانون پر عمل درآمد کے لیے اضافی پھانسیاں تیار کرالی ہیں۔ساری پنچایت کو لٹکا دوں گا اور جائیداد بھی بحق سرکار ضبط ہوجائے گی۔
چارلس نیپئر 1853 میں جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔ اس پابندی کو پورے 164 برس ہونے کو آئے اب ہندوستان میں بڑے بڑے گرو رکھشک( رام رکھوالے) اور ہندوتوا کے ماننے والے موجود ہیں مگر ستی کی رسم کا دوبارہ اجراء کرنے کی ہمت کسی میں نہیں دکھائی دیتی۔سندھی کے استاد جو سندھ کی لاقانونیت کو طاق نسیاں پر سجا کر نیپئر والی مردانگی کے مظاہرے کے اسلام آباد کی حد تک زیادہ ہی دل دادہ نکلے ۔وہ کہنے لگے نواب بہادر چارلس نیپئر فرماتے تھے کہ’’ کسی بھی بستی کو اگر سیدھا کرنا ہو تو اسے پہلے ٹھیک سے جوتے مارو اور پھر عمدہ طریقے سے اس پر مہربانیاں کرو۔رینجرز نے توڑ پھوڑ کا کوئی حساب نہ مانگا اور رقم بانٹ دی جو لوگ مرے جن کی املاک جلی وہ کس سے انصاف مانگیں گے۔جنہوں نے انہیں اسلام آباد تک آنے دیا ان کا محاسبہ کون کرے گا۔اس پر باپو کہنے لگا اگر اتنے ہی عاشق رسول تھے تو اسمبلی ممبران جنہوں نے یہ بل پاس کیا ان کے گھروں کے سامنے دھرنا دیتے۔ان کو تو کچھ نہیں ہوا بچے بوڑھے غریبوں کے مرے نقصان غریب کا ہوا۔
اگلے دن کامریڈ جان محمد نے جب اسے بتایا کہ تیرے مشورے پر یہ مظاہرین چوہدری نثار اور رانا ثنا اللہ کے گھر پہنچ گئے اور ایک ممبر کا سر پھاڑ ڈالا تو باپو نے دونوں ہاتھ اٹھا کر ایسے اللہ کا با آواز بلند شکر اداکیا جیسے احمد شہزاد بمشکل پچاس رنزمکمل ہونے پرمیدان میںکرتا ہے۔دفتر میں چند دن بعد کامریڈ نے اسے مومن آباد میں ایک شادی شدہ جوڑے کے جرگے کے ہاتھوں قتل ہوجانے کی خبر پڑھائی، تو باپوHysterical ہوکر کہنے لگا کہ’’ چلو مان لیا جوڑے نے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی مگر یہاں تو ان کی قوم بھی ایک تھی، مسلمان بھی تھے۔یہ کیسے ماں باپ ہیں ،یہ کس طرح کے بھائی ہیں۔یہ کس صدی میں جی رہے ہیں۔دین میں یہ کہاں سکھایا گیا ہے کہ مرضی کے خلاف شادی کرنے والوں کو ہلاک کرو۔یہ منبرپر خطبہ دینے والے مولوی کا فرض ہے کہ ہر وقت وہ حوروں کا سراپا بیان کرنے کی بجائے اسلام کی روشنی میں سماجی رویوں کے درست کرنے کا اہتمام کریں۔حوروں کا بیان پورے قرآن عظیم میں صرف چار دفعہ ہی آیا ہے۔ اور نرمی،رواداری اور حسن اخلاق کا ہر پارے میں۔ سورہ واقعہ کی آیات اکسٹھ اور باسٹھ واضح طور پر بتادیتی ہیں کہ جنت کی زندگی کا تمہیں بس اتنا ہی اندازاہے جتنا یہاں آنے سے پہلے اس زندگی کا تھا۔جنت بہتات،فراوانی،سلامتی اور تقدیس کا نام ہے۔اس کو خواتین کے سراپے سے موازنے میں لپیٹ کر اس کی تقدیس اور عظمت کو مت باعث تضحیک بنائو۔‘‘
اس چیخنے چلانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیٹھ صاحب کمرے سے باہر آگئے جس پر باپو مدثر نے اپنا Traumatic Brain Injury(TBI) کا سوانگ رچالیا اور ایک کونے میں دیوار کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔سیٹھ نے جب پوچھ گچھ کی تو بتایا گیا کہ اس کو جرگے والی خبر کامریڈ نے پڑھائی تھی جس سے یہ ڈسٹرب ہوگیا ہے۔سیٹھ نے کہا تم لوگوں کو لاکھ مرتبہ منع کیا ہے اس کو وائلینس والی خبریں مت پڑھایا کرو تم لوگ گدھیڑی (گدھی کے بچے )کے سمجھتے کیوں نہیں۔اس پر کامریڈ کہنے لگا کہ ام (ہم)نے اس کو میرا کے حق میں کورٹ نے شادی کتم(ختم) کرنے کی خبر کے لیے بلایا تھا ۔ام کو کیا پتہ تھا کہ اس کا ایم کیو ایم والا گسہ (غصہ)میرا کی بجائے جرگے پر نکلے گا۔سیٹھ یہ کہہ کر واپس مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں داخل ہوگئے کہ میرا کا معاملہ بھی کچھ کم وائلنٹ نہیں ۔
(ختم شد)