اونچی دکان ،پھیکا پکوان ....ریجنٹ پلازہ آتشزدگی ،زیادہ ہلاکتیں ناقص انتظامات کے سبب ہوئیں
شیئر کریں
نہ فائرواسموک الارم بجا ،نہ آگ لگنے پر ائر کنڈیشن کا ڈک بند کیا گیا ، مہمانوں کو تب پتا چلا جب دھویں سے دم گھٹنے لگا،رہائش پذیر کرکٹرز نے بھی ریسکیو سرگرمی میں حصہ لیا
لوگوں نے کھڑکیوں سے چھلانگ لگا کر یا پردوں کی رسی بنا کر اپنی مدد آپ کے تحت جان بچائی ،داخلے کے راستے پر بیرئیر ،ریسکیو عملے کے داخلے میں بھی مشکلات پیش آئیں
وحید ملک
کراچی میں شارع فیصل پر جناح اسپتال کے قریب واقع ریجنٹ پلازہہوٹل میں آگ گیارہ زندگیاں نگل گئی ۔رات تین بجے نیند کی حالت میں آگ نے مصیبت بن کر گھیرا ۔ کسی کا دم گھٹ گیا تو کسی کو راستہ سجھائی نہ دیا۔ لوگ بالائی منزلوں سے مدد کو پکارتے رہے ۔ بعض گھبراہٹ میں اونچائی سے کود گئے ۔ کچھ نے چادر کو سہارا بنایا، مرنیوالوں میں چار ڈاکٹرز اورچار خواتین شامل ہیں جبکہ متاثرہ افراد میں غیر ملکی اور کرکٹرز بھی شامل ہیں۔
وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کمشنر کراچی کو ہوٹل میں آتشزدگی کا معاملہ خود دیکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کمشنر سے رپورٹ بھی مانگ لی ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ تمام ہوٹل اور اہم عمارتوں میں ایمرجنسی گیٹ ہیں یا نہیں ، ہوٹل میں آگ بجھانے کا بندوبست تھا یا نہیں ۔ وزیر اعلی سندھ نے مزید کہا ہے کہ معائنہ ٹیم میں ہوم ، لیبر اور کے ایم سی کے لوگوں کو شامل کیا جائے ۔ہوٹل میں لگی آگ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ ایس ایس پی کی نگرانی میں قائم کمیٹی نے حادثہ کی جگہ سے نمونے جمع کرلیے ۔ڈی آئی جی ساو¿تھ آزاد خان کا کہنا ہے کہ ہوٹل میں اموات دم گھٹنے سے ہوئیں ۔شواہد جمع کر کے تحقیقات کی جائے گی ۔شواہد اور لواحقین سے حاصل معلومات کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا جائےگا ۔انہوں نے بتایا کہ ہوٹل میں فائر ایگزٹ 2ہیں ،فائر ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات کریں گے۔فائر ڈپارٹمنٹ بتائے گا کہ آگ کے وقت فائر الارم بجا یا نہیں۔ڈی آئی جی ساو¿تھ کے مطابق اب تک کی معلومات کے مطابق تخریب کاری کا واقعہ نہیں لگ رہا۔چیف فائر آفیسر کا کہناہے کہ آگ کچن میں لگی ۔ اے سی سسٹم کے ذریعے دھواں کمروں تک پھیل گیا۔ امدادی کارروائیوں میں مشکلات ہوئی ۔ اسنارکل کی عمارت تک رسائی میں رکاوٹیں آئیں ۔ آگ بجھانے کی کوششوں میں شامل کے پی ٹی کے چیف فائر آفیسر سعید جدون نے بتایا کہ آگ بجھانے کا عمل ساڑھے تین گھنٹے میں مکمل کیا گیا ، تمام امدادی اور رضاکار ٹیمیں بروقت موقع پر پہنچ گئی تھیں ، ہوٹل کے ڈیوٹی افسرنے جان دے کر آگ کو پھیلنے سے بچایا ۔آگ سے اٹھنے والا دھواں سینٹرل اے سی نظام کے باعث کچھ ہی منٹوں میں بالائی منزل پر موجو د کمروں میں پہنچ گیا ۔پولیس حکام کے مطابق زیادہ اموات کی وجہ بھی اسی پلانٹ کے ذریعے پھیلنے والا دھواں تھا جس نے سوئے ہوئے افراد کوکمروں سے نکلنے کاموقع نہ دیا۔ ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر کلیم شیخ کے مطابق کراچی کے ہوٹل میں آگ لگنے کے واقعے میں گیارہ جاں بحق افراد کی لاشیں اسپتال لائی گئیں، جاں بحق افراد میں 7مرد اور 4خواتین شامل ہیں،7مردوں میں سے 6کی شناخت کرلی گئی،جاں بحق افراد میں 4ڈاکٹرز، ہوٹل کا نائٹ منیجر ، دکاندار شامل ہیں ۔ جاں بحق دکانداروقاص اوراسکی اہلیہ شازیہ کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے،4خواتین میں سے 2کی شناخت کرلی گئی۔68 زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد جناح اسپتال سے فارغ کردیا گیا یا وہ نجی اسپتالوں میں شفٹ ہوگئے۔ترجمان پی آئی اے کا کہنا ہے کہ کراچی کے نجی ہوٹل میں آگ لگنے کے واقعے میں 16کیبن کریو ممبر زخمی ہوئے،زخمی ہونے والے پی آئی اے اسٹاف کا تعلق اسلام آباد اور پشاور سے ہے ۔ پی آئی اے کے عملے کے کئی ارکان کو طبی امداد دے کر اسپتال سے فارغ کردیا گیا تاہم عملے کے کچھ لوگ اب بھی زیر علاج ہیں۔ہوٹل میں مقیم ایک بچی کا کہنا ہے وہ اور اس کے گھر والے سورہے تھے کہ اچانک امی ،ابو نے دھواں محسوس کیا ، کرکٹرز اور دیگر لوگوں نے انہیں ہوٹل سے باہر نکلنے میں مدد کی۔
ہوٹل میں قومی ٹیم کے کرکٹرز بھی قیام پذیر تھے جو حادثے سے متاثر ہوئے،آگ لگنے کے وقت صہیب مقصود ، عمر امین اور حماد اعظم سمیت کئی کھلاڑی موجود تھے ،کرکٹر یاسم مرتضی نے جان بچانے کے لیے دوسری منزل سے چھلانگ لگادی جسکے باعث ان کے پاو¿ں میں فریکچر آیا ۔کرکٹر کرامت علی معمولی زخمی ہیں، بیشتر کھلاڑی آگ سے خوفزدہ ہوگئے تھے ۔صہیب مقصود ، عمرامین ، حماد اعظم محفوظ رہے ، جس کے بعد وہ امدادی کاموں میں بھی شریک ہوگئے اور آگ میں پھنسے لوگوں کی جان بچانے میں بھی مدد کی جن میں چینی شہری بھی شامل تھے ۔پی سی بی میچ ریفری کا کہنا ہے کہ قائد اعظم ٹرافی،یو ابی ایل اور ایچ بی ایل کے درمیان جاری میچ میں تیسرے دن کا کھیل ملتوی کردیا گیا ہے۔ یو بی ایل ٹیم کے کھلاڑی زخمی ہونے کی وجہ سے آج کا کھیل ملتوی کیا گیا جس کی یو بی ایل ٹیم کے منیجر نے درخواست کی تھی۔ امدادی کارروائی میں فائرڈپارٹمنٹ کے علاوہ ایدھی رضاکاروں اور پاک بحریہ نے بھی بھرپور حصہ لیا ۔ فیصل ایدھی کے مطابق امدادی سرگرمیوں کے دوران غیر ملکیوں کو ریسکیوکرنے میں زبان کا مسئلہ بھی سامنے آیا۔آگ لگنے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو حکام سمیت میئرکراچی بھی جائے وقوع پہنچے اور میڈیا کوصورتحال سے آگاہ کیا۔
کراچی کے نجی ہوٹل میں لگنے والی آگ اوراس سے قبل بھی شہر میں ہونےوالے آتشزدگی کے واقعات مسلسل فائرڈپارٹمنٹ کی استعداد بڑھانے کا تقاضہ کررہے ہیں ۔ چیف فائر آفیسر فیصل صدیقی کے مطابق 15سے زائد فائر بریگیڈ کی گاڑیوں اور 2 اسنار کل نے 4 گھنٹے بعد آگ پر قابو پایا اور ہوٹل میں پھنسے افراد کو بھی باہر نکالا گیا۔فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ہوٹل میں سیفٹی الارم اور سموک الارم کی سہولیات موجود تھیں لیکن انہیں استعمال نہیں کیا گیا جب کہ کئی بار کہنے کے باوجود ایئر کنڈیشننگ سسٹم کو بند نہیں کیا گیا جس کے باعث دھواں ڈک کے ذریعے پورے ہوٹل میں پھیل گیا۔ اس کے علاوہ ہوٹل کے انٹری گیٹ پر بیرئیر لگے ہونے کی وجہ سے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو ایگزٹ گیٹ سے داخل ہونا پڑا جس کی وجہ سے ریسکیو حکام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔جناح اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے 11لاشوں اور 70زخمیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر ہلاکتیں دم گھٹنے سے ہوئیں۔
ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں رہائش پذیر افراد نے الزام عائد کیا ہے آگ لگنے کے بعد پرس ، موبائل فون اور دیگر قیمتی دستی سامان غائب ہو گیا ۔ کسٹمرز کا کہنا ہے ہوٹل انتظامیہ ایڈوانس لی گئی رقم بھی واپس نہیں کر رہی ۔ ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں ہنگامی راستہ تھا نہ فائر الارم بجا ۔ آگ سے متاثر ایک شخص نے بتایا کہ ریسکیو کا کوئی معقول انتظام تھا نہ انتظامیہ نے آگ لگنے کا بتایا ۔ فائر آفیسر تحسین صدیقی کا کہنا ہے فائر الارم سسٹم نے بالکل کام نہیں کیا ۔ متاثرین نے بات کرتے ہوئے کہا انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جان بچائی ۔ ہوٹل انتظامیہ کہیں نظر نہیں آئی ۔ ہوٹل میں آگ لگنے کے بعد ایک طرف موت رقصاں تھی تو دوسری جانب لوگوں کا قیمتی سامان غائب ہو گیا ۔ زخمیوں کے علاج کے لئے ہوٹل انتظامیہ خاموش اور انشورنس کا کوئی نظام نہیں ۔
٭٭٭
وزیراعلی سندھ نے کمشنر سے رپورٹ طلب کی ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ تمام ہوٹل اور اہم عمارتوں میں ایمرجنسی گیٹ ہیں یا نہیں ، ہوٹل میں آگ بجھانے کا بندوبست تھا یا نہیں۔کراچی کے نجی ہوٹل میں لگنے والی آگ اوراس سے قبل بھی شہر میں ہونےوالے آتشزدگی کے واقعات مسلسل فائر ڈپارٹمنٹ کی استعداد بڑھانے کا تقاضہ کررہے ہیں۔متاثرین نے بات کرتے ہوئے کہا انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جان بچائی ۔ ہوٹل انتظامیہ کہیں نظر نہیں آئی ۔ ہوٹل میں آگ لگنے کے بعد ایک طرف موت رقصاں تھی تو دوسری جانب لوگوں کا قیمتی سامان غائب ہو گیا ۔ زخمیوں کے علاج کے لئے ہوٹل انتظامیہ خاموش اور انشورنس کا کوئی نظام نہیں ۔ہوٹل انتظامیہ ایڈوانس واپس کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے ۔
ابتدائی تحقیقات میں ناقص انتظامات اموات کی وجہ قرار
ہوٹل میں آگ لگنے کے واقعے کی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی گئی ہے جس میں ہوٹل میں فائرسسٹم ناکارہ ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوٹل کے گراﺅنڈ فلور پر موجود کچن میں آگ حادثاتی طور پر لگی جب کہ ہوٹل میں ایمرجنسی ایگزیٹ گیٹ موجود تھے تاہم ہوٹل میں موجود لوگ افراتفری کے باعث دروازے استعمال نہ کرسکے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہوٹل انتظامیہ کے مطابق ایمرجنسی الارم کام کررہے تھے ۔تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی الارم کی آواز نہیں سنی، ہوٹل میں آگ بجھانے کے آلات تھے لیکن دھواں ختم کرنے والے آلات نہیں تھے لہذا زیادہ تر ہلاکتیں عمارت میں دھواں بھرجانے کے باعث دم گھٹنے سے ہوئیں۔قبل ازیں پولیس چیف مشتاق مہرکے مطابق کیمیکل ایگزامنر کی رپورٹ آنے پر مقدمہ درج کیا جائیگا۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر نے بتایا کہ ایس ایس پی ساو¿تھ کی نگرانی میں تحقیقاتی ٹیم نے آتشزدگی کے واقعے کی تفتیش شروع کردی ہے۔ ٹیم نے ہوٹل سے مختلف نوعیت کے سیمپل حاصل کرلئے ہیںجن کا لیبارٹری ٹیسٹ کرایا جائے گا اور کیمیکل ایگزامنر کی رپورٹ آنے پر آتشزدگی کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ مشتاق مہر کے مطابق آتشزدگی میں ہوٹل میں مقیم 4خواتین سمیت 11افراد جاں بحق ہوئے۔ ہوٹل سے چھلانگیں لگانے اورجھلسنے سے 74افراد زخمی ہوئے تھے۔
شہر قائد میں ہونے والے آتشزدگی حادثات پر ایک نظر
شہرقائد میں آتشزدگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل آتشزدگی کے کئی بڑے واقعات ہوچکے ہیں جن میں قیمتی انسانی جانوں کے علاوہ کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوا لیکن اسکے باوجود انسانوں کے سمندر جیسے شہر میں آگ لگنے کی صورت میں سریع الحرکت اور جدید ریسکیو سروس کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔حال ہی میں 25نومبر 2016کوکیماڑی کے آئل ٹرمینل میں لگنے والی آگ میں تین افرادجاں بحق ہوئے ،24جون 2016میں گلبائی میں ٹائر فیکٹری میں آگ لگی جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن کروڑں روپے مالیت کا سامان جلنے سے مالکان کو شدید مالی نقصان ضرور ہوا ۔ 2 دسمبر 2016کو سائٹ ایریا میں رات گئے کپڑے اور پلاسٹک کی فیکٹریوں میں آگ لگی جس میں کروڑوں کا نقصان ہوا ۔ کراچی کی تاریخ کی سب سے بڑی آگ بلدیہ ٹاو¿ن فیکٹری میں 11ستمبر 2012 میں لگی جس میں 265افراد لقمہ اجل بنے ۔ 9جنوری 2009 کو نارتھ کراچی کے سیکٹر فائیو ایل میں واقع خالی پلاٹ میں قائم جھگیوں میں پراسرار طور پر آگ لگ گئی جس میں بائیس بچوں سمیت 40افراد ہلاک ہوئے ۔ اٹھارہ فروری 2007 کو پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کی عمارت میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا جس پر 19گھنٹے بعد قابو پایا جاسکا ۔آتشزدگی کے واقعے میں قیمتی ریکارڈ جل کر ضائع ہوگیا ۔ 2016میں مذکورہ واقعات کے علاوہ بھی آگ لگنے کے کئی واقعات رونما ہوئے جس میں کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ۔
”جلدی مدد کی جائے “ جاں بحق ہونے والے ڈاکٹر کا نجی چینل کو فون
شہر قائد میں واقع مقامی ہوٹل میں لگنے والے آتشزدگی کے دوران ایک شخص ڈاکٹر رحیم نے اپنی زندگی کا آخری فون نجی ٹی وی کو کیا اور فوری مدد کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ بچنے کی امید کم ہے، تمام کمروں میں دھواں بھر گیا ہے جلدی مدد کی جائے۔ انہوں نے رات تین بج کر 21منٹ پر ہوٹل میں آگ لگنے کی اطلاع دی اور مدد کی درخواست کی اسی وقت نجی ٹی وی کی ٹیم ہوٹل پہنچی اور امدادی اداروں کو آگ لگنے کی اطلاع دی۔ ٹیم نے ڈاکٹر رحیم کو فون کیا تو انہوں نے کہا کہ آگ شدت اختیار کرگئی ہے اور دھواں بھرنے کی وجہ سے ان کا دم گھٹ رہا ہے، مہربانی کرکے کسی کو بلائیں ورنہ ہمارے بچنے کی امید بہت کم ہے۔امدادی اداروں کو پھر کہا گیا کہ وہ فوری پہنچیں اور ڈاکٹر رحیم کو پھر فون کیا گیا تو انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا اس کے بعد اطلاع ملی کہ دھویں سے دم گھٹنے کے سبب ڈاکٹر رحیم انتقال کرگئے۔واضح رہے کہ ڈاکٹر رحیم سولنگی سندھ ترقی پسند پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی رہے ہیں تاہم وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے