میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پلاسٹک کی سڑکیں اور کمیشن خور مافیا

پلاسٹک کی سڑکیں اور کمیشن خور مافیا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۵ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد اور کراچی کے بعد اب لاہور میں بھی پلاسٹک سے بنی ہوئی خوبصورت سڑک تیار ہوگئی ہے۔ پاکستان میں سب سے پہلے پلاسٹک سڑک اسلام آبادمیں سی ڈی اے نے ایف 9 پارک میں کچرے کو استعمال کرتے ہوئے 1 کلومیٹر طویل سڑک بناکر تجربہ کیا جو کامیاب رہا 1 کلومیٹر سڑک کو مکمل کرنے کے لیے 10 ٹن پلاسٹک کا کچرا استعمال کیا گیا جبکہ منصوبے کی کل لاگت 21 ملین تھی۔ اس کے بعد اسلام آباد کے سیکٹر F6 کے قریب واقع اتاترک ایونیو کے نام سے پلاسٹک کی سڑک بنائی گئی ہے جسکے بعد کراچی کی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (DMC) ساؤتھ نے مقامی تعاون کے ساتھ 2.5 ٹن پلاسٹک ویسٹ استعمال کرتے ہوئے 730 فٹ لمبی اور 60 فٹ چوڑی فریئر ٹاؤن میں پلاسٹک کی سڑک بناڈالی۔ یہ وہ کچرا ہے جس سے ہم آئے روز تنگ ہوتے رہتے ہیں ۔خاص کر بارشوں کے موسم میں جن کی وجہ سے ہمارا سیوریج سسٹم بند ہو جاتا ہے۔ پاکستان ویسے بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو زیادہ فضلہ پیدا کرتے ہیں۔ ایک موٹے اندازے کے مطابق سالانہ 30 ملین ٹن سے زیادہ ٹھوس فضلہ پیدا ہوتا ہے جس میں سے 9 فیصد پلاسٹک ہوتا ہے دوسری جانب اگر ہم پلاسٹک کے تھیلوں کی بات کریں تو پاکستان میں صرف ایک سال میں 55 ارب پلاسٹک کے تھیلے بنتے ہیں آپ ان اعدادوشمار سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لینڈ فلز اور سمندروں میں پلاسٹک کا کتنا فضلہ پھینکا جاتا ہے اگر ہم پلاسٹک کی سڑکوں کی ابتدا کو دیکھیں تو 11 ستمبر 2018 کو نیدرلینڈز کی میونسپلٹی زوول میں دنیا کی پہلی پلاسٹک سڑک بنائی گئی تھی جس کاتصور KWS کے موجد این کوڈسٹال اور سائمن اورٹسما نے دیا تھا۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی پلاسٹک کے کچرے سے سڑکیں بنائی جاچکی ہیں 2004 میں بھارت کے شہر چنئی میں 1000 کلومیٹر لمبی سڑک پلاسٹک کے کچرے سے ہی بنائی گئی۔ ویتنام، جنوبی افریقہ، سوئٹزرلینڈ اور کچھ دوسرے ممالک اس سے قبل پلاسٹک کے کچرے سے سڑکیں بنا چکے ہیں۔
پلاسٹک کا کچرا آج دنیا کو درپیش اہم مسائل میں سے ایک ہے ۔پلاسٹک کا کچرا، جیسے شاپنگ بیگ اور پلاسٹک کی بوتلیں جن کو گلنے میں 20 سے 500 سال لگتے ہیںاس وقت بھی دنیا بھر میں پلاسٹک کے کچرے کا ایک چھوٹا سا حصہ ری سائیکل کیا جاتا ہے باقی کو لینڈ فلز اور سمندروں میں پھینک دیا جاتا ہے جس سے انسانوں اور جانوروں کی زندگی پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لاہور کے رہنے والے یا رنگ روڈ پر سفر کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ جب وہ محمود بوٹی کے قریب سے گزرتے ہیں توانہیں اپنا ناک اور منہ بند رکھنا پڑتا ہے ۔یہ بدبو اسی کچرے سے آتی ہے جس سے دنیا بجلی اور سڑکیں بنا رہی ہے ۔نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے اس حوالے سے پنجاب میں پلاسٹک کی سڑک کا جو افتتاح کیا ہے، اسے پورے پنجاب تک پھیلا دیا جائے ایک تو شہروں سے کچرا ختم ہو جائیگا اور دوسرا یہ سڑکیں عام سڑک سے پائیدار ہوتی ہے جو عام سڑک سے تین گنا زیادہ دیر تک چلتی ہے۔ اس کی ساخت شگافوں اور گڑھوں کے خطرے کو ختم کرتی اور دیکھ بھال کی ضرورت کوبھی کم کرتی ہے ۔اس کا کھوکھلا ڈیزائن پائپوں اور کیبلز کے لیے بلٹ ان حل فراہم کرتا ہے اس کی ساخت نہ صرف اضافی پانی کو جلدنکال باہر کرتی ہے بلکہ سڑک کے شور کو جذب کرنے میں بھی مدد دیتی ہے اب لاہور میں جم خانہ مال روڈسے جیل روڈ تک پلاسٹک سڑک تیار ہے جسکا ایک ماہ تک جائزہ لیا جائیگاجس کے بعد پھرمال روڈ کو بھی پلاسٹک روڈ میں تبدیل کیا جائے گاپلاسٹک روڈ بارش کے پانی سے جلد ٹوٹے گی نہیںبلکہ پلاسٹک روڈکم ازکم 10سال تک چلتی ہے۔ پلاسٹک روڈ بارش کے پانی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتی۔ پلاسٹک روڈ پر لاگت بہت کم آئی ہے، ابھی جو ظفر علی روڈ بنائی گئی ہے اس سڑک کی تعمیر پر 6 کروڑ کی جگہ 2 کروڑ روپے لاگت آئی ہے جو پلاسٹک ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا تھا اسے ادھر استعمال کیا گیا ہے۔ پلاسٹک روڈ کے تعمیر میں استعمال شدہ شاپرز اور دیگر پلاسٹک استعمال ہوتا ہے۔ پلاسٹک روڈ اسفالٹ روڈ کے مقابلے میں دیر پا اور کم لاگت سے تیار ہوتی ہے ۔پلاسٹک روڈ کی دیکھ بھال کی بھی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی بلکہ پلاسٹک روڈ بارش کے پانی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتی اس کے مقابلہ میںہماری دوسری سڑکیں زیادہ لاگت سے تعمیر ہوتی ہیں اور پھر بارشوں کے موسم میں بعض سڑکیں تو پوری کی پوری پانی اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ لاہور جیسے شہر میں سڑکوں پر بڑے بڑے کھڈے معمول کی بات ہے اور دیہاتوں کی سڑکوں کا تو بہت ہی برا حشر ہوا ہوتا ہے اوپر سے نگران وزیر اعلیٰ نے پنجاب کے دیہات کو جگمگ کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔ یہ منصوبے تب ہی کامیاب ہونگے جب دیہاتوں تک سڑکیں پائیدار بنی ہوں اور لوگوں کا آنا جانا آسان ہوہمارے دیہاتوں میںآج تک ہوتا یہ آیا ہے کہ وہاں کے سیاسی لوگ مقامی انتظامیہ سے ملک کر نئی تعمیر ہونے والی سڑکوں کا پیسہ ہضم کرتے رہے بعض دیہاتوں میں سڑک کا نشان تو بنا دیا جاتا تھا لیکن سڑک نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی لوگمٹی اور دھول میں سفر کرتے تھے اور اب بھی کررہے ہیں کسی جگہ ٹھیکیدار مال بنا کر بھاگ گیا تو کسی جگہ سب نے ملی بھگت سے پوری کی پوری سڑک ہی ہضم کرلی بلکہ پچھلے ادوار میں تو ایسا بھی ہوتا رہا کہ نقشے میں ہی سڑکیں تیار ہوتی رہی۔ ایک بار نہیں بلکہ ہر سال اور کئی سال تک کاغذوں میں ہی ایسا ہوتا رہا ہمارے محکموں روڈز،ہائی وے،، سی این ڈبلیو ،ایل ڈی اے اور مقامی ضلعی اداروں میں بیٹھا ہوا مافیا بہت بھاری ہے کسی نہ کسی طرح عہدے پر لگ کر ہر ٹھیکے پر کمیشن وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ان اداروں کے چپڑاسی سے لیکر اوپر تک ٹھیکوں سے آنے والے کمیشن کا حصہ ہوتاہے۔ اس کمیشن کے بغیر نہ تو کسی ٹھیکدار کو ٹھیکہ ملتا ہے اور نہ ہی کسی ٹھیکدار کا بل پاس ہوتا ہے بل کلرک،ہیڈ کلرک، اکائونٹنٹ، اوورسیئر،سب انجینئر ،ایس ڈی او اور ایکسیئن اربوں روپے کمیشن کی مد میں وصول کرچکے ہیں۔ یہ صرف ایک شہر میں نہیں ہوتا بلکہ پورے پاکستان میںیہی اصول اور قانون لاگو ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنے فنڈز میں سے ان ٹھیکیداروں کو ٹھیکہ دلواتے ہیں جو انہیں ایڈوانس میں متعلقہ ٹھیکے کا کمیشن دے ۔ اگر دیکھا جائے تو ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ کمیشن خور مافیا ہے جب تک ان کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا جائے تو دیہات جگمگ کرسکیں گے نہ ہی شہر ترقی کر پائیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں