پاناما کا فیصلہ حقائق چھپانے پر جاری کیا گیا، پارلیمنٹ پر تلوار نہیں لٹکنی چاہئے، چیف جسٹس
شیئر کریں
اسدلام آباد (بیورو رپورٹ) جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاناما کا فیصلہ حقائق چھپانے پر جاری کیا گیا پارلیمنٹ پر تلوار نہیں لٹکنی چاہئے آف شور کمپنی چھپانے کا مقدمہ دولت چھپانا ہوتا ہے قانون کہتا ہے کہ اثاثوں اور دولت کو ظاہر کیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نااہلی کیس کی سماعت میں عدالت نے کہا ہے کہ آف شور کمپنی چھپانے کا مقصد دولت چھپانا ہوتا ہے ٗقانون کہتا ہے اثاثوں اور دولت کو ظاہر کیا جائے ٗ کیا عوامی مفاد میں یہ مقدمہ داخل کیا گیا؟یہاں ہم آرٹیکل 62ون ایف کے اطلاق کودیکھ رہے ہیں ٗپارلیمنٹ ایک خودمختار ادارہ ہے اس پر تلوار نہیں لٹکنی چاہیے۔ بدھ کو حنیف عباسی کی درخواست پر جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کا نام پاناما پیپرز میں شامل نہیں ٗمیرا پہلا اعتراض آئینی درخواست پر ہے، حنیف عباسی نے درخواست عوامی مفاد کی بجائے سیاسی مقاصد کیلئے دائر کی۔سکندر مہمند نے کہا کہ سابق وزیراعظم کیخلاف جہانگیر ترین نے ریفرنس دائر کیا تھا ٗجہانگیر ترین کیخلاف درخواست ادلے کا بدلہ ہے ٗدرخواست گزار نے غلط موقف پیش کیا۔وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ جہانگیرترین کانام پاناما لیکس میں نہیں آیا ٗ یہ درخواست سیاسی مقاصد کیلئے دائر کی گئی ہے ٗ درخواست کسی دوسرے کے کہنے پر دائر کی گئی۔جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں نہیں توکس کے مفاد میں دائر ہوئی ہے؟سکندر مہمند نے کہا کہ یہ درخواست پاناما کیس کے بدلے میں دائر کی گئی۔جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا جہانگیر ترین عوامی عہدہ نہیں رکھتے؟جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین عوامی عہدہ رکھتے ہیں ٗمیرا موقف یہ کہ درخواست گزار کے اپنے ہاتھ صاف نہیں، عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج نہیں کر رہا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جہانگیر ترین کوئی حکومتی عہدہ نہیں رکھتے، کیا جو اصول پاناما میں طے ہوئے انکا اطلاق آپ پربھی ہو۔جہانگیر ترین بھی عوامی عہدہ رکھتے ہیں، کیا جہانگیر ترین کی ویسی اسکروٹنی نہیں ہونی چاہیے؟جسٹس عمرعطا نے کہا کہ آپ کاموقف ہے کہ درخواست پاناما درخواستوں کاکائونٹر بلاسٹ ہے۔سکندر مہمند نے کہا کہ اگر جہانگیرترین نے کچھ غلط بیانی کی توبے شک اسکروٹنی کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار نے موقف اپنایاہے کہ جہانگیرترین کی آف شور کمپنی ہے ٗ درخواست گزار کہتے ہیں انہیں بذریعہ میڈیا آپ کی کمپنی کامعلوم ہوا نوازشریف عمران خان کے سیاسی مخالف، سیاسی مخالفت کے باوجود درخواست کو بدنیتی کیسے کہہ دیں؟سکندربشیر نے کہا کہ جہانگیرترین پر قرض معافی اورالیکشن کمیشن کوغلط معلومات دینے کاالزام ہے، ایف بی آر کوغلط معلومات فراہم کرنے کاالزام ہے ٗ جہانگیرترین پرغیرقانونی حصص کی خریداری کاالزام بھی ہے، جہانگیرترین پرآف شورکمپنی چھپانے کابھی الزام ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیرترین نے آف شورکمپنی کو مبینہ کیوں کہا؟ جہانگیرترین نے خود کمپنی کوتسلیم کیاہے۔سکندر مہمند نے کہا کہ جہانگیرترین کمپنی کے بینیفیشل مالک نہیں ٗحنیف عباسی نے میرے موکل کے خلاف درخواست انفرادی حثیت میں داخل کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کا سیاسی پس منظر ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اسکے پیچھے پارٹی کا ہاتھ ہے۔ سکندر بشیر نے کہا کہ جہانگیرترین 2013کے کاغذات پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے، جہانگیرترین ضمنی الیکشن میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے، جہانگیرترین کے 2015کے کاغذات نامزدگی کسی نے چیلنج نہیں کیے، 2013 کے کاغذات نامزدگی پرضمنی الیکشن کی رکنیت ختم نہیں کی جاسکتی، 2013کے الیکشن کے کاغذات میں اگرکوئی تضاد تھاتووہ متعلقہ فورم پر زیرالتوا ہے، پاناما میں نااہلی تسلیم شدہ حقائق پرہوئی، یوسف رضاگیلانی کی نااہلی سزاکے بعد ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے کی 36سماعتیں کہی جاتی ہیں، ہم اس مقدمے کو تحمل سے سن رہے ہیں، درست قانون بننا چاہیے، پارلیمنٹیرینز ہمارے نمائندے ہیں، پارلیمنٹ ایک خودمختار ادارہے ٗپارلیمنٹ پر تلوار نہیں لٹکنا چاہیے، ہم جب ایسا مقدمہ آتا ہے تو انہیں ترازو میں تولتے ہیں، جو ظاہر کیا گیا اس میں دھوکہ دہی کا پہلو نہیں آنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاناما فیصلے میں کہیں غلط بیانی کے ارادے کو نہیں دیکھا گیا، جبکہ یہ فیصلہ حقائق چھپانے پر جاری کیا گیا تھا چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے معاملے کو پاناما کیس کے ساتھ ہی سننا چاہیے تھا، معلوم نہیں کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کیس کو مرکزی کیس سے الگ کیوں کیا گیا۔اس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جہانگیر ترین نے قرض لیا ہی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا ہم ڈھونڈ رہے ہیں کہ عوامی عہدہ رکھنے والے اور حکومت چلانے والے وزراء نے کرپشن کی یا فوائد حاصل کیے۔ چیف جسٹس آف پاکستان ٗمیاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عمران خان کے کیس میں سماعت مکمل نہیں ہوئی بلکہ ابھی صرف وکلاکے دلائل مکمل ہوئے ہیں ٗکئی قانونی سوالات ہیں جوہمیں ابھی پوچھنا پڑیں گے۔ حنیف عباسی کے وکیل شیخ اکرم نے کہاکہ صرف پوچھنا چاہتا ہوں کہ عمران خان کے مقدمے کا فیصلہ کب تک آجائے گا؟‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جتنا جلد کندھوں سے بوجھ اتر جائے بہتر ہوتا ہے۔