پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے ۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر11 )
شیئر کریں
کامرس بینک لکسمبرگ شاخ ‘اپنے جرمن کھاتیداروں کے لیے شیل کمپنیاں قائم کرتی تھی
٭جرمنی میں ٹیکس جسٹس کیلیے پیٹربیک ہوف سے زیادہ کام اور محنت کسی او ر نے نہیں کی ہوگی،لکسمبرگ جیسے ٹیکس چوروں کی جنت تصور کیے جانے والے مقامات پیٹر بیک ہوف سے خوفزدہ تھے٭ سوئٹزرلینڈ میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے جاچکے تھے جہاں ان پر صنعتی جاسوسوں کاساتھی ہونے کاشبہ اوربینکوں کے راز افشا کرنے والا تصور کیاجارہاتھا
تلخیص وترجمہ :ایچ اے نقوی
جب کسی ملک کا عدالتی نظام صورتحال کو مختلف انداز سے دیکھ رہاہو تو چرائے گئے اثاثوں یا دولت کی بازیابی کیلیے پیش رفت کرنے والا ادارہ فوری طورپر سامنے آتا ہے ،مثال کے طور پر ایلی مین کو 2003 میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزا م میں 20 سال قید کی سزا سناکر جیل بھیجاگیا لیکن جنوری 2009 میں سپریم کورٹ نے سزا منسوخ کردی ،اپوزیشن کے رہنمائوں کوشبہ تھا کہ ایسا سیاسی بنیاد پر کیاگیا ہے کیونکہ ایلی مین کی جگہ برسراقتدار آنے والے ڈینئل اوریگا نے سابق صدر کی پارٹی کے ساتھ اشتراک کا معاہدہ کرلیاتھا اور ایلی مین کی سزا جس دن منسوخ کی گئی اسی دن پارلیمنٹ میں ایک اہم مسئلے پر ووٹنگ ہوئی۔
ہمارے پاس ایلی مین کے حوالے سے موجود آرٹیکل سے ظاہرہوتاتھا کہ ایلی مین نکسٹیٹ کے مالکان اور اس سے منافع حاصل کرنے والوں میں شامل تھا۔ یہ کمپنی پاناما میں قائم کی گئی تھی،اور ڈاکومنٹس میں فنڈ کس طرح آتے تھے، تفتیشی رپورٹ کے مطابق نکسٹیٹ ایلی مین کے ساتھیوں کو رقم پہنچاتی تھی اور اس کاسربراہ بائرن جیریز نام کاایک شخص تھا۔ ہمارے پا س موجود ڈاکومنٹس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ بائرن کو نہ صرف یہ کہ کمپنی تک رسائی حاصل تھی بلکہ نکسٹیٹ کے بانکو ایلیاڈو کے اکائونٹس تک بھی اس کی رسائی تھی۔اس اکائونٹ میں موجود رقم جو کہ کروڑوں ڈالر کی تھی بعد میں کئی کمپنیوں میں بٹ گئی یا تقسیم کردی گئی، کیونکہ ماریا فرناننڈا فلورز ڈی ایلی مین اور ان کی اہلیہ کو چیک دیے گئے۔
نکاراگوا کے سابق صدر کا اکائونٹ اتفاق سے ڈریسڈنر بینک لاطینی امریکا میں کھولاگیاتھا، یہ بینک موزاک فونسیکا کا بااعتماد بزنس پارٹنر تھا ،ابتدائی چھان بین سے ظاہرہوا کہ جرمنی کے اس بینک نے 300سے زیادہ کمپنیاں قائم کی تھیں۔ہم نے فوری طورپر جرمن بینکوں کی تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی ۔طویل عرصہ قبل وہ اپنی آف شور کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کرچکے تھے لیکن اس کا منافع اب بھی انھیں مل رہاتھا۔
24 فروری 2015 کو پولیس کی گاڑیاں پراسیکیوٹرز اور ٹیکس کے تفتیش کاروںکو لے کر فرینکفرٹ میںجرمنی کے دوسرے بڑے بینک کامرس بینک کے سامنے پہنچیں۔ یہ بینک فرینکفرٹ کے تجارتی ضلع کی مشہور عمارت میں واقع تھا۔ تین ٹاورز پر مشتمل اس عمارت پر رات کو زرد رنگ کی لائٹیں جلتی تھیں جو بالکل انگلیوں کی طرح نظر آتی تھی یعنی ایک طرح سے یہ فتح کانشان معلوم ہوتاتھا۔اس روز غالباً بعض بینکار وں نے یہ فراموش کردیاتھا کہ منظم جرائم اور ٹیکس چوری کی تفتیش کرنے والے یونٹ نے جعلی اور خفیہ مالیاتی سرمایہ کاری کے تمام مشتبہ کاغذات یعنی ڈاکومنٹس ضبط کرلیے تھے۔اس سے چند روز قبل ہی ایک اندرونی ذریعے نے ہمیں فون کیاتھا ،ہم اس معاملے کی تفصیلی معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے اور ہمیں جو معلومات حاصل ہوئیں وہ ہوشربا تھیں ،ڈاکومنٹس کے مطابق یہ بینک مبینہ طورپر ٹیکس چوری کیلیے اپنے کھاتیداروں کی منظم انداز میں اور باقاعدگی کے ساتھ مدد کرتاتھا اورپاناما کے وکلا کی فرم موزاک فونسیکا اس کی ساتھی تھی۔
پولیس نے بینک ریکارڈ سے متعلق ڈیٹا خریدنے کے بعد اسی کی بنیاد پر یہ چھاپا ماراتھا لوگ اسے سی ڈی کہتے ہیں جبکہ سی ڈی طویل عرصہ قبل متروک ہوگئی ہے اور اب میموری اسٹک یا ہارڈ ڈرائیو نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ پولیس کو حاصل ہونے والے ڈیٹا سے ظاہرہوتاتھا کہ کامرس بینک کی لگژمبرگ میں موجود سبسڈری اپنے جرمن کھاتیداروں کیلیے شیل کمپنیاں قائم کرتی تھی۔ یہ تفصیلات جرمن ٹیکس اور یورپی یونین کے سیونگ ٹیکس ڈائریکٹیو کو دی گئیں جس نے لگژمبرگ اور سوئس بینکوں کو تمام غیر رجسٹرڈاکائونٹس پر حاصل کیے گئے منافع پر35فیصد کی شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس کے نام پر کٹوتی کرنے کی ہدایت کردی۔اس پر کامرس بینک نے پاناما میں اپنے کھاتیداروں کیلیے شیل کمپنیاں قائم کرنا شروع کردیںکیونکہ آف شور کمپنیاں یورپی شہریت کی تعریف میں نہیں آتی تھی اور اس طرح یورپی یونین کے سیونگ ٹیکس ڈائریکٹو کے احکامات ان پر لاگو نہیں ہوتے تھے اور ان کی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔تاہم یہ ٹیکس کی چوری تھی اور یہی وجہ ہے کہ پولیس نے فرینکفرٹ میں بینک پر چھاپا مارا تھا اور بینک کے اس عمل کو منظم جرائم کانام دیاگیا۔اس طرح موزاک فونسیکا ہر اعتبار سے اسی طرح منظم جرائم میں ملوث تھی جس طرح کامرس بینک اور دیگر جرمن بینک اس کے مرتکب قرار دیے جارہے تھے۔اس چھاپے سے قبل لگژمبرگ بینک کا ڈیٹا ایک اندرونی فرد نے جرمن تفتیش کاروں کے ہاتھ فروخت کیاتھا وہ ہمارے پاس موزاک فونسیکا کے موجود میٹریل سے مطابقت رکھتاتھا ۔اس میں فرق صرف اتناتھا کہ تفتیش کاروں کی فراہم کردہ معلومات کچھ زیادہ پرانی تھیں، یہ ڈیٹا صرف چند سو آف شور کمپنیوں کے بارے میں تھاجبکہ ہمارے پاس ایسے ہزاروں کمپنیوں کے ڈیٹا موجود تھے۔
ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ تفتیش کاروں نے چند سو کمپنیوں کا یہ ڈیٹا ایک ملین یور و ادا کرکے حاصل کیاتھا۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ہزاروں کمپنیوں کے ڈیٹا کے حصول کیلیے کتنی رقم ادا کرنا پڑتی۔جس شخص نے لگژمبرگ بینک کے ڈیٹاپر ہاتھ ڈالاتھا وہ ووپیرٹل فنانس آفس برائے ٹیکس کرائم اور ٹیکس انوسٹی گیشن کا سربراہ پیٹر بیک ہوف تھا ۔بیک ہوف نے یکے بعد دیگرے سی ڈیز دیکھنے کے بعداپنے وزیر پر دبائو ڈالا کہ وہ ان سب کی ذمہ داری قبول کریں کیونکہ اپوزیشن اورسیاسی حلقوں کی جانب سے ان اقدامات کی شدید مخالفت کی جانا تھی۔غالبا ً جرمنی میں ٹیکس جسٹس کیلیے پیٹربیک ہوف سے زیادہ کام اور محنت کسی او ر نے نہیں کی ہوگی۔کیونکہ ٹیکس کی ہر نئی سی ڈی سے بڑے پیمانے پر رضاکارانہ ڈکلریشن کاایک سیلاب سامنے آرہاتھا ۔جس پر دوسری سی ڈی میں ان کے نام ظاہر ہونے کی توقع میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور ان کو گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے بیشمار ایسے شہریوں کے نام سامنے آرہے تھے جنھوں نے اپنی رقم ان کمپنیوں میں لگا رکھی تھی۔ اس کے معنی یہ تھے قومی خزانے میں کروڑوں یورو آنے والے تھے۔
لگژمبرگ جیسے ٹیکس چوروں کی جنت تصور کیے جانے والے مقامات پیٹر بیک ہوف سے خوفزدہ تھے اور سوئٹزرلینڈ میں تو ان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے جاچکے تھے،جہاں ان پر صنعتی جاسوسوں کاساتھی ہونے کاشبہ ظاہر کیا جارہا تھا اور بینکوں کے راز افشا کرنے والا تصور کیا جارہا تھا۔ اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر پیٹر وہاں گیاتو اسے گرفتار کرلیاجائے گا۔2015 میں میڈیا کے بعض ذرائع نے جس میں سوڈش زیتانگ بھی شامل تھایہ رپورٹ دی تھی کہ سوئس انٹیلی جنس نے جرمنی میںبیک ہوف کی سرگرمیوں کی اطلاعات حاصل کرنے کیلیے اس پر ایک ایجنٹ مقرر کرنے کی کوشش کی تھی ۔