راجیوگاندھی کاقتل (قسط ۔2)
شیئر کریں
محمد اقبال دیوان
پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کریں گے اور وہاں اپنی امن فوج بھی دوبارہ بھیجیں گے، تامل ایلام کی دہشت گرد تنظیم کے لیے شدید ناراضی کا باعث بنا۔وہاں ان دنوں پریما داسا وزیر اعظم تھے۔ وہ بہت زبردست لیڈر تھے۔انہوں نے سری لنکا کی گارمنٹ انڈسٹری کو پاکستان، ہندوستان اور بنگلا دیش کے مد مقابل لا کھڑا کیا۔خود چونکہ وہ ایک غریب گھرانے کے فرد تھے لہذا غریبوں سے ہم دردی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ صدر منتخب ہوئے تو ہر ماہ دس ہزار گھر بنا کر غریبوں کے لیے بہترین رہائشی اسکیم کا آغاز کیا۔
انہیں ہندوستان کی سری لنکا کے اندرونی معاملات میں مداخلت شدید ناپسند تھی مگر اپنی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے سری لنکا کی تامل ایلام بھی ان کی جان کی دشمن تھی۔انہیں بھی راجیو کے قتل کے معاملے میں بہت شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔سری لنکا میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی سے مدد کا آغاز تو سن1983 سے ہوا تھا۔اسی وجہ سے تاملوں کو بھارت کی شہ پر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے ٹریننگ دینے کا آغاز کردیا تھا۔وہ نہرو خاندان سے بہت قریبی روابط رکھتے تھے۔تاملوں کو ہتھیار بیچنے کا معاملہ بھی موساد نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ اس سلسلے میں ایک کتاب جس پر اسرائیل میں بڑی لے دے ہوئی اس میں اس حوالے سے بہت تفصیلات درج ہیںBy Way of Deception: The Making of a Mossad Officer ان کا ایک خفیہ ایجنٹ رفیع ایتان وہاں مقیم تھا۔اسی نے پریما داسا کے کہنے پر تاملوں کو راجیو گاندھی کے قتل پر اکسایا۔
اسرائیل کی پیہم مداخلت کی وجہ سے راجیو گاندھی بھی سری لنکا کے حوالے سے بہت نالاں رہتے تھے۔ان کے دبائو پر اسرائیلی ایجنٹوں کو سری لنکا سے جب فارغ کیا گیا تو تاملوں کے ذریعے پریما داسا کو 1993 میں یوم مئی کی تقریب میں ہلاک کردیا گیا۔ یہ واقعہ راجیو گاندھی کے قتل کے دو سال بعد پیش آیا۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس ایک ہدایت کی خلاف ورزی سے اور ایک دوسری ہدایت کی پابندی کی وجہ سے ان کی وہ ساری سازش بے نقاب ہوئی جس کے تحت انہوں نے راجیو گاندھی کو ہلاک کیا۔تاملوں کے اس قاتل گروپ میں جو منصوبے کے لیے خاص طور پر تامل ایلام والوں نے سب سے پہلے دو بھائی بہن کے ذریعے مدراس میں ایک Nucelus Cell بنایا۔ان دونوں کا نام بھاگیہ ناتھن اور نلینی تھا ۔اس ساری سازش کے اہم ترین رکن بے بی سبرامنیم نے ان دونوں غریب اور قرضوں کے ستائے ہوئے بھائی بہن کی بھرتی کی تھی۔
انہی کے گھر دھانو اور شھوبا ساہلینی (جو شیواراسن کی کزن تھیں) جافنا سے آن کر شیواراسن سمیت ٹہری تھیں۔شیواراسن سبرامنیم کے واپس جافنا سری لنکا لوٹ جانے کے بعد اس گروپ کا انچارج تھا۔دھانو کا کام اس خودکش جیکٹ میں سیے ہوئے بم کو عین اسوقت پھاڑنا تھا جب وہ راجیو گاندھی کے بالکل قریب ہو کر انہیں پھولوں کا ہار پہنائے۔اس کے بیک اپ کے طور پر شھوبا ساہلینی کو رکھا گیا تھا کہ کسی وجہ سے اگر دھانو کے ارادے بدل جائیں تو اسے استعمال کیا جاسکے۔
آپ اگر قتل کی اس بھیانک سازش کا بغور جائزہ لیں تو ایک بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اس کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں کوئی سقم نہیں تھا۔اس کے اہم کردار سری لنکا سے آئے۔ اس پر ایک سال سے زیادہ کی منصوبہ بندی کی گئی۔سارا نیٹ ورک ایک شہر مدراس میں ترتیب دیا گیا۔مقامی لوگوں کو جو اس میں شامل ہوئے ، بھاگیہ ناتھن نے بہت احتیاط سے نہ صرف منتخب کیا بلکہ تحریک کے حوالے سے ان کی ذہنی تربیت بھی خوب ٹھونک بجا کر کی گئی۔ان کی غربت کا خوب فائدہ اٹھایا گیا۔کسی کو ٹارگٹ کے بارے میں کوئی معلومات پہلے سے مہیا نہ کی گئیں۔
حملے کی آزمائشی مشق اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ مکمل انداز میں کی گئی۔خودکش جیکٹ کی تیاری سے حملے تک جو کردار اہم تھے وہ سب کے سب سری لنکا سے منتخب کرکے لائے گئے اور انہیں جائے واردات تک الگ الگ اطمینان سے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے پہنچنے کی سہولت دی گئی۔حملے کے بعد سب اطمینان سے رکشہ اور بس سے فرار ہوئے۔
یہ سب عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پس پردہ کچھ ایسے کردار تھے جن کے نہ صرف بڑے سیاسی محرکات تھے جو راجیو گاندھی کو دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوجانے کی صورت میں اپنے مقاصد کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے بلکہ اس تمام سازش سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے اندر بہت اعلیٰ سطح کے افراد شامل تھے ۔
ان دنوں ہندوستان میں درمیانی مدت کے انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا اور راجیو گاندھی سری پرم پودر میں انتخابی جلسے سے خطاب کرنے آرہے تھے۔اس پوری کارروائی سے پہلے دو مرتبہ ریہرسل ہوا۔دوسرے ریہرسل میں دھانو نے سیکورٹی کے تمام حصار کامیابی سے عبور کرکے راجیو گاندھی کے حریف وی پی سنگھ کے گلے میں ہارڈالنے کے بعد اس کے پیر بالکل اس انداز میں چھوئے جیسے اسے راجیو گاندھی کے ساتھ کرنا تھا۔ یہ دونوں لیڈران چونکہ ان دنوں وزیر اعظم نہ تھے لہذا ان کی سیکورٹی زیڈ لیول کی نہ تھی جس میں شاید یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پاتا۔
دھانو بیگم جن کے ذمے راجیو گاندھی کی آمد پر ان کے قدم چھوکر جیکٹ میں لگے بم کو پھاڑنا تھا، قتل کی اس واردات سے پہلے ایک رات بہت مطمئن تھی۔ اس نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر وہ چشمے بھی پہنے جو اس نے واردات کے وقت پہننے تھے اور سب نے مل کر ایک فلم بھی دیکھی۔چشمہ پہننے کا معاملہ یوں پیش آیا کہ پولیس کی ایک سب انسپکٹر انوشیا نے اسے واردات کے ڈرائی رن میں راجیو گاندھی کے مخالف وی پی سنگھ کے پیر چھونے سے اور گلے میں ہار ڈالنے سے روکا تھا مگر وی پی سنگھ نے اسے خصوصی طور پر اپنے پاس آنے کی اجازت دی تو انوشیا مجبور ہوگئی۔دھانو بے حد ذہین عورت تھی۔ ہر کم خوش شکل عورت کی مانند اس کی سوچ میں حقائق کا سامنا کرنے کا ایک بے حد بے رحمانہ Feminine Intution تھا۔ اس نے روکتے وقت جب انوشیا کماری کی آنکھوں میں دیکھا تو اسے لگا کہ یہ عورت پیچھا کرنے والی ہے۔ اس Eye Contact میں دونوں ایک دوسرے کی نگاہ میں تیر کی مانند کھب سی گئیں۔دھانو کو شک تھا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ پولیس والی کل رات بھی راجیو گاندھی کے حفاظتی انتظامات کے لیے موجود ہو اور اسے پہچان لے۔واردات والی رات سے قبل سہ پہر کو جب ہری بابو فوٹوگرافر ،شوبھا، نلینی دھانو اور شیوراسن پیری کارنر کے بس اسٹاپ سے صندل کے پھولوں کا ہار لے کر موقع واردات پر پہنچے تو دھانو کے خدشات کے عین مطابق انسپکٹر انوشیا کماری بھی ڈیوٹی پر وی آئی پی انکلوژر کے پاس موجود تھی اس نے ان سب کو روکا۔
ہری بابو تو اپنا پریس فوٹو گرافر والا کارڈ دکھا کر اور یہ کہہ کر کہ اس لڑکی دھانو کو بڑے آدمیوں کے ساتھ فوٹو کھنچوانے کا بہت شوق ہے۔ وہی اسے اس کام کے لیے خاص طور پر لے کر آئی ہے ۔اس پر انوشیا نے کہا کہ راجیو جی کے آنے میں ابھی دیر ہے لہذا وہ تو جاکر پریس کے حلقے میں بیٹھ جائے۔اس کی یہ بات سن کر یہ سب تتر بتر ہوگئے، شوبھا اور نلینی عوام کی پہلی صف میں بیٹھ گئیں۔شیو راسن جس نے پستول اپنے پاجامے کی جیب میں چھپایا ہوا تھا کچھ دیر بعد گھومتا گھامتا اسٹیج کے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا جبکہ دھانوکچھ دیر اکیلی ریڈ کارپیٹ کے پاس کھڑی رہی مگر جب راجیو گاندھی پنڈال میں داخل ہوا تو وہ بھی دھانو کے پاس آ کر کھڑا ہوگیا ۔ دھانو جب راجیو گاندھی کے پیر چھونے کے لیے آگے بڑھی تو اسے اس انسپکٹر انوشیا کماری نے روک لیا مگر راجیو گاندھی نے اپنے چنوتی (انتخابات) کے حریف وی پی سنگھ جی کی طرح اسے ذرا سخت لہجے میںتنبیہ کی اور دھانو کو یہ کہہ کر اپنے پاس آنے کی اجازت دے دی کہ سب کو ان سے ملنے کا ،اپنی محبت دکھانے کا موقع ملنا چاہیے تو انوشیا رنجیدہ خاطر ہوئی اور منہ بسور کر دور جاکر کھڑی ہوگئی۔ اس کی یہ ناراضی اور دوری اس کی جان بچانے کا باعث بنی۔ (جاری ہے)