میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جے آئی ٹی کی پیش رفت پر وزرا کی بے چینی چہ معنی دارد

جے آئی ٹی کی پیش رفت پر وزرا کی بے چینی چہ معنی دارد

ویب ڈیسک
بدھ, ۵ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیر خزانہ اسحاق ڈار پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے جہاں وزیر خزانہ سے حدیبیہ پیپرز ملز اور ان کے بیان حلفی سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔ پیشی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ انہیں پہلی بار جے آئی ٹی میں بلایا گیا اورمقررہ وقت سے پہلے ہی یہاں آگئے تھے۔ جے آئی ٹی نے جو سوالات پوچھے ان کے جوابات دے دیے اور تمام معاملات شفاف ہیں، پاناما پیپرز میں نواز شریف کا نام نہیں جب کہ جن کے نام پاناما میں ہیں وہ دوسری جماعتوں میں ہیں، وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کوئی کیس نہیں تاہم چند ریفرنسز پرویز مشرف کے زمانے میں جھوٹ کی بنیاد پر بنائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سامنے تمام حساب پیش کردیا ہے اور پرویز مشرف دور میں ان کا دیا گیا بیان ردی کے ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا،انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ بیان حلفی ان کے ہاتھ سے نہیں لکھا ہوا، اس پر ان سے زبردستی دستخط کرائے گئے تھے۔وفاقی وزیر نے کہا سپریم کورٹ نے ارسلان افتخار کیس میں جے آئی ٹی کا طریقہ کار طے کیا تھا، جج کے بیٹے کیلیے کوئی اور قانون اور وزیراعظم کے بیٹے کیلیے کوئی اورقانون نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی بہن عظمیٰ اور علیمہ کو بھی اگر ایسے بلایا جائے گا تو برا لگے گا، مریم نواز شریف وزیر اعظم کے ساتھ قوم کی بھی بیٹی ہے، سپریم کورٹ مریم نواز کو ایسے بلانے پر نوٹس لے،جے آئی ٹی مریم نواز کو بلانے کے بجائے ان کو سوالات بھیجے۔
پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اسٹیٹ بینک سے شریف خاندان کی تمام کمپنیوں کا ریکارڈ مانگ لیا جب کہ کمپنیوں کے حوالے سے تفصیلات کل تک فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔
پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اسٹیٹ بینک سے شریف خاندان کی تمام کمپنیوں کا ریکارڈ مانگ لیا ہے، جے آئی ٹی کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو خط لکھا گیا ہے جس میں شریف خاندان کے بارے میں 19 کمپنیوں کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔اطلاعات کے مطابق جے آئی ٹی کی جانب سے لکھے گئے خط میں شریف خاندان کی کمپنیوں کے 1980 سے اب تک کے قرضوںاور شریف خاندان کی کمپنیوں کے ذمہ واجب الادا قرضوں کی موجودہ پوزیشن کے بارے میں تفصیلات مانگی گئی ہیں، اس کے علاوہ جے آئی ٹی نے اسٹیٹ بینک سے شریف خاندان کے معاف کرائے جانے والے ری شیڈول کرائے جانے والے قرضوںاور سیٹلمنٹ کے بارے میں ریکارڈ سمیت شریف خاندان کے ممبران کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کے تمام ڈائریکٹرز کے بارے الیکٹرانک کریڈٹ انفارمیشن بیورو سے متعلق بھی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔جے آئی ٹی کی جانب سے جن کمپنیوں کے بارے ریکارڈ مانگا ہے ان میں اتفاق فاونڈریز لمیٹڈ، رمضان شوگر ملز لمیٹڈ، حسیب وقاص شوگر ملز لمیٹڈ، مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز، رمضان بخش ٹیکسٹائل ملز، برادرز شوگر ملز لمیٹڈ، چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ، اتفاق شوگر ملز لمیٹڈ، اتفاق برادرز لمیٹد، صندل بار ٹیکسٹائل ملز لمیٹد، خالد سراج ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ، حدیبیہ انجینئیرنگ کمپنی لمیٹڈ، برادرز ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ، اتفاق ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ، برادرز اسٹیل ملز لمیٹڈ، حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ، الیاس انٹرپرائزز لمیٹڈ اور اتفاق اسپتال ٹرسٹ شامل ہیں۔دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے جن کمپنیوں بارے میں ریکارڈ مانگا گیا ہے ان میں سے بہت سی کمپنیاں میاں شریف کے بچوں کے نام ہی نہیں ہیںجب کہ بعض کمپنیوں میں شریف خاندان کے لوگوں کے شیئرز ہیں اور پوری کمپنی کے مالک نہیں۔ اس سے قبل جے آئی ٹی شریف خاندان کے بارے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے بھی تمام ریکارڈ منگواچکی ہے۔
پانامہ کیس کی تفتیش جوں جوں آخری مراحل میں داخل ہورہی ہے،حکمراں جماعت کے رہنمائوں یہاں تک کہ وزرا کے لہجے کی تلخی میں بھی اضافہ ہوتاجارہاہے اور جے آئی ٹی کی تشکیل پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والے جے آئی ٹی کے وجود اور طریقہ کار پر بھی اعتراض کے انبار لگاتے نظر آرہے ہیں، سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن کے مطابق جے آئی ٹی 10 جولائی کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردیگی جس کے بعد فاضل ججز اپنا فیصلہ مرتب کرینگے ،جے آئی ٹی کی اس رپورٹ کی روشنی میں سپریم کورٹ کے جج حضرات کیافیصلہ کرتے ہیں وہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بیٹوں کوکلین چٹ دیتے ہیں یا نہیں اس کافیصلہ وقت آنے پر ہی ہوسکے گا کہ اس فیصلے سے سیاست کی چار دہائیوں کا سیاسی باب بند ہوجائے گایا انہیں نئی توانائی مل جائے گی؟کسی کاسیاسی کیریئر ختم ہو جائے گا یا کامیابیاں اس کا مقدربنیں گی؟ تاہم ایک بات یقینی ہے کہ اگر نواز شریف نے بحیثیت وزیر اعظم کرپشن کی ہے یا منی لانڈرنگ کے مرتکب ہوئے ہیں تو واقعی انہوں نے امانت میں خیانت کی اور انہیں اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیے کیوں کہ دونوں ہی سنگین جرم ہیں۔ اس حوالے سے َحکومتی صفوں میں بے چینی کی لہر سے بہت کچھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عوام میں بھی اس حوالے سے بے چینی محسوس کی جاسکتی ہے جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے انتظار کی سولی پر لٹک رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے انتظار کا ثمر ضرور ملنے والا ہے ، اور آج جے آئی ٹی قوم کے خوابوں کی تعبیر بن چکی ہے، کیوں کہ جس تاریخی احتساب کا اکثر و بیشتر ذکر کیا جا تا رہا ہے اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ لیکن جب ایسے احتساب ہوں تو ملزمان ہاتھ پائوں ضرور مارا کرتے ہیں وہ اس کیلئے ہر حد کو پار کرنے کیلئے بھی تیار ہوتے ہیں اور خواجہ سعد رفیق اور عابد شیر علی جیسے حکومتی وزیر تاریخی حوالے دیکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انکی حکومت کیخلاف طے شدہ محاذ کھڑا کیا جا رہا ہے اور انکی باتوں سے لگتا ہے کہ حکومت بے چین ہو چکی ہے۔ اور اس بے چینی سے شکست کا عنصر بھی عیاں ہو رہا ہے۔ اسی لیے تو میاں محمد نواز شریف کو کبھی لیاقت علی خان کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے تو کبھی انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بننے کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ اور اب تو نوازشریف کے ہونہار داماد کیپٹن صفدر نے اپنی پیشی کے بعد جو بیان دیا وہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ پانامہ لیکس نوازشریف کے خلاف نہیں بلکہ نظریہ پاکستان کیخلاف ایک حملہ ہے۔ بیک جنبش قلم انہوں نے نظریہ پاکستان بدل کر رکھ دیا۔ شاید ان کے نزدیک نظریہ پاکستان‘ منی لانڈرنگ‘ کرپشن‘ اقرباپروری اور بیرون ملک مال و دولت جمع کرنے کا نام ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جے آئی ٹی کے سارے ارکان میرے جونیئر تھے۔ پتہ نہیں ان کا سینارٹی کا پیمانہ ان کی کپتانی کے حوالے سے تھا یا سول سروس میں ان کے مختصر قیام سے یا پھر اس کا تعلق ان کے داماد اول کے منصب جلیلہ سے تھا۔
اس حوالے یہ امر اطمینان بخش ہے کہ فوج جے آئی ٹی کے معاملے میں اپنے آپ کو بالکل علیحدہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر حکومت کے وزرافوج کو سیاست میں گھسیٹ کر سیاسی شہید بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ جا رہی ہے اور جاتے جاتے ملک کے ادارے تباہ کر دیں گے تو یہ عوام کیلئے سوچنے کی بات ہے کہ وہ کن لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں ، آن کا جو ملک کے ادارے تباہ کر رہے ہیں اور جنہوں نے گزشتہ 36سال سے اس ملک کے اداروں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اور ایک لمحے کیلئے اگر یہ بات سوچ بھی لی جائے کہ فوج آکر یکسر طور پر سیاسی نظام کو ختم بھی کر دیتی ہے تو کیا یہ سیاستدان اس نااہلی کا اعتراف کریں گے کہ وہ پاکستان کے کسی بھی آرمی چیف کے ساتھ مل کر نہیں چل سکے؟ جن میں جنرل وحید کاکڑ جیسا شریف اور جہانگیر کرامت جیسا بے ضرر شخص بھی شامل ہے جو شرافت کا لبادہ اوڑھ کر استعفیٰ دے کر گھر چلا گیا تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں