کیا دوبارہ مسلم لیگ ن جیت جائیگی؟
شیئر کریں
وفاقی اور اب پنجاب کا بجٹ محیر العقول گورکھ دھندا ہے اور اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ غریب عوام کو براہ راست مفاد نہ پہنچے مگر وہ مکمل حکمرانوں، وزرائ، ایم این اے، ایم پی اے کے دست نگر اور غلام بن کر رہ جائیں۔ 1001ارب یعنی دس کھرب ایک ارب صرف ترقیاتی سکیموں کے ہیں اب اگر حکومتی لیگ اڑھائی سو انتخابی قومی حلقے ٹارگٹ کرلے تو فی حلقہ چارارب روپے بنتے ہیں، اسی طرح کسانوں کو قرضے دینے والے جو 1001ارب یعنی دس کھرب ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں وہ بھی وزرائ، ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں کی صوابدید پر ہی ہیں اب عام جاہل آدمی بھی یہ بات سمجھ چکا ہے کہ انہی کسانوں کوامداد ملے گی جو حکومتی کارپردازوں و اسمبلی ممبران کے منظور نظر ہیں۔ ویسے اب چونکہ الیکشن مہم شروع ہو چکی ہے اس لیے کل272حلقوں میں سے اڑھائی سو قومی اسمبلی کے ٹارگٹ کردہ حلقوں میں فی حلقہ چار ارب روپے سے زائد بنتے ہیں۔اگر ہر حلقہ کے چالیس ہزار ووٹروں کو فی ووٹر ایک لاکھ روپے دیے جاسکتے ہیں اور ان سے حلف لے لیا جاوے کہ وہ مہر شیر پر لگادیں،یہ رشوت کی رقوم ووٹروں کو یہ کہہ کر کہ آپ سے کوئی واپس نہیں لے گا اور حکومتی اعلا ن و کاغذات کی خانہ پری تو ہم نے ہی کی ہے اور کروائی ہے الیکشن جیت گئے تو سب عام معافی کا اعلان کردیں گے اور یہ دھمکی بھی کہ اگرغلطی سے آپ نے ہمیں ووٹ نہ دیا توا گلی حکومت سزا کے طور پرآپ سے ایک لاکھ روپے بمع سود وصول کرے گی، آئندہ انتخابات میں جو سرکاری امیدوار چالیس ہزار ووٹ (خرید کر ایک لاکھ روپے فی کس)پہلے ہی لے کر انتخابی مہم پر نکلے اسے ہرانا یا اس کا مقابلہ کرنا مشکل ترین ہی نہیں بلکہ ناممکن کام ٹھہرے گااور یہی موجودہ حکمرانوں کا ٹارگٹ ہے اسی لیے تو” اعلان دل پذیر“بھی ساتھ ساتھ کرتے ہیں کہ آئندہ چھٹا بجٹ بھی ہم ہی پیش کریں گے مگر قدر ت کا در اصل اپنا ہی نظام ہے، اگلے سال مئی جون میں توکوئی نگران حکومت ہوگی جس نے الیکشن کروانے ہیں، اس لیے نگران حکومت کے بیورو کریٹوں کا بجٹ ہی ہمیں تحفہ میں ملے گا۔
جو 1001 ارب روپے ترقیاتی سکیموں کے ہیں وہ بھی اڑھائی سو قومی حلقوں میں تقسیم” بدست مبارک “ مطلوبہ انتخابی امیدواروں (کہ زیادہ نامزد امیدوار توپہلے سے ہی سابقہ منتخب ممبران ہوں گے) کے ذریعے ہی ہر گلی، چک میں جا کر اعلان کردہ تقسیم ہوں گے جب ہر حلقہ کے سرکاری ممبر یاامیدوار کو چار ارب کی بھاری رقم مل جائے گی کہ جس گلی کوچہ میں جا کر بجلی گیس پانی کی ڈگیوں، پکے کھالوں وغیرہ کا اعلان کرتے جاﺅ ویسے بھی عام انتخابات میں یہی کچھ ہوتا ہے کہ ہر جگہ ہزار دو ہزار ووٹروں کے اندر پہنچ کر امیدواروں کے کارندے ووٹروں سے پوچھ گچھ کے بعد فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اس چک گوٹھ میں کس چیز کی زیادہ ضرورت اور ڈیمانڈ ہے، وہی مطالبہ متعلقہ امیدوار کے دورہ پر عوام میں سے کسی سے بھی کروادیا جاتا ہے پھر چک گوٹھ کے عوام کا اس پر اتفاق ایسا ہوتا ہے کہ ہاں ہمارا یہ مطالبہ فوری پورا ہوجائے تو ہم سارے ووٹ آپ کو دے دیں گے۔ بس بیچارے دیہاتی ان پڑھ لوگوں کی دکھتی رگ کو چھیڑا جاتا ہے اور ان کی مطلوبہ فلاحی سکیم کاا علان کرکے مجمع سے سارے ووٹ حلفاً امیدوار کو ڈالنے کا پکا وعدہ لے لیاجاتاہے۔دوسری طرف کسانوں کی نام نہاد امدداد والے 1001ارب روپوں میں سے اڑھائی سو حلقوں میں ایک لاکھ فی ووٹ چالیس ہزار ووٹروں کو ملے تو سونے پر سہاگہ ہو جائے گاکہ اڑھائی سو طے شدہ حلقہ ہائے انتخاب کے لیے چار ارب فی حلقہ موجود ہی ہیں پھر لیپ ٹاپ سکیم کے لیے جو اربوں روپے رکھے گئے ہیں وہ سستے زیادہ سے زیادہ خرید کر ہر طالب علم کو نواز شہباز اور ان کی اولادوں کے فوٹو لیپ ٹاپ پرپینٹ کرکے گھروں میں پہنچ جاویںگے۔یہ بھی پچھلے انتخابات سے ہی نوجوان ووٹروں کو ورغلانے کی ترغیب چل رہی ہے اب پھر لیپ ٹاپ کی بند ر بانٹ شروع ہو گی، نوجوان ووٹروں کی لسٹیں پھر ممبران اسمبلی کی صوابدید پر ہوں گی میرٹ صرف حکومت سے وفاداری ہی ہوتا ہے، باقی باتیںصرف اعلان کرنے کے لیے ہوتی ہیں اگر آپ بھول نہیں گئے تو پرانی پیلی ٹیکسیاں اور بہت اعلیٰ کاروں والی سکیم کا آخر کیا ہوا؟ وہ کھربوں روپے کی گاڑیاں کھٹارا بن گئیں اور چکوک میں تو بھینسوں بیلوں کی چارے ڈالنے والی کھرلیاں بن چکی ہیں، ادھار رقوم کوئی واپس کرنے کے لیے تھوڑی ہوتی ہیں؟ انتخابی مہم کے دوران معافی تلافی کا اعلان کرکے مزید ووٹروں کو ورغلایاجا سکتا ہے۔ اب پنجاب بجٹ کے مطابق پچاس ہزار گاڑیاں پھر شہباز شریف اپنا فوٹو پینٹ کروا کر نوجوانوں میں بانٹیں گے۔اگر ان کو اڑھائی سو قومی حلقوں پر تقسیم کیا جائے تو 200گاڑیاں فی حلقہ بنتی ہیں، یعنی اب فی حلقے کے 200چکوک میں کچھ اپنے ورکروں کو باقی ہر چک کے نمبرداریا ایسے چلتے پرزوں یا با اثر شخص کو دی جائیں گی جو حلف دیں گے کہ سارے چک کے ووٹروں کو رام کرکے شیر پر مہریں لگوائیں گے۔ یہ بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے ایسی رقوم اور گاڑیاں ہمیشہ جعلی شناختی کارڈوں پر عنایت ہوتی ہیں اور زیادہ لاہوری ورکر خصوصاً بٹ برادری لے جاتی ہے جو آگے سیل کرتی رہتی ہے اس طرح سے برادری کے ووٹ مزیدپکے ہوجاتے ہیں اور ان کا ”ذاتی کاروبار“ بھی چمکتا دمکتا رہتا ہے اس صورتحال میں یہاں عمران، زرداری، سراج الحق کیا کریں گے ؟جس پارٹی نے بھی ان سے آئندہ الیکشن جیتنا ہو تو ان سے زیادہ رقوم لے کر حلقہ انتخاب میں جائے یعنی ہر قومی اسمبلی کے امیدوار کو چھ تا آٹھ ارب روپے سکیموں کے لیے اور اتنے ہی ارب روپے فی کسان (یعنی ووٹر) کو نام نہاد ادھار سکیم میں دینے کے لیے ہونے چاہیں تو ہی وہ ن لیگی امیدوار کا مقابلہ کرسکے گا، غرضیکہ شریفوں نے آمدہ الیکشن امریکی برطانوی انتخابات سے بھی زیادہ” خرچیلا“ اور کرپٹ ترین کر ڈالا ہے۔حکمرانوں کے اوچھے ہتھکنڈوں کا مقابلہ صرف اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتی اللہ اکبر تحریک کے ذریعے کیا جاسکتا ہے کہ لوگ پانچ وقت کی اذانوں ،نماز کی نیت ،رکوع سجود سبھی میں موجودانہی متبرک اللہ اکبر کے الفاظ کا پاس کرتے ہوئے ووٹ دے ڈالیں، جس کے لیے بھی زبردست تحریک تمام دینی گروہوں، پارٹیوں اور اپوزیشن کو مل کر چلانا ہوگی تو پھر ووٹر مال متال بھی ہضم کرکے اللہ اکبر تحریک کے جھنڈے تلے جمع ہو کر شیر کی جگہ گائے جیسے زیادہ پسندیدہ انتخابی نشان پر مہر لگادے گا اور کوئی دوسراطریقہ اب لٹیروں، ٹھگوں کرپشن کنگز کے ہٹانے کانظر نہیں آتا کہ انتخابی مہم کے سبھی لوازمات بذریعہ بجٹ انہوں نے پورے کر لیے ہیں۔
٭٭….٭٭