میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدلیہ سے محاذ آرائی حکومت کی پرانی روش ہے

عدلیہ سے محاذ آرائی حکومت کی پرانی روش ہے

ویب ڈیسک
پیر, ۵ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ حکومت اور عدلیہ میں محاذ آرائی نہیں، یہ اس سوچ کی عکاس ہے جو ملک میں استحکام کے بجائے ٹکراو اور تصادم پھیلانا چاہتے ہیں۔وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں چوہدری نثار نے حکومت اور عدلیہ میں محاذ آرائی کی خبروں کو بے بنیاد اور افواہ قرار دیتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کردیا۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ کسی معزز جج کے مکالمے یا کلمات پر حکومت کی جانب سے دکھ اور افسوس کے اظہار کا مطلب ہرگز نہیں کہ حکومت اور عدلیہ میں کسی قسم کی محاذ آرائی ہونے جارہی ہے یا تصادم کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، نکتہ نظر کے اختلاف کو تصادم سے تشبیہہ دینا اور ہر معاملے پر اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرنا دراصل اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ ایسے عناصر ملک میں استحکام کے بجائے ٹکراو¿ اور تصادم چاہتے ہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ کی جانب سے حکومت اور عدلیہ کے درمیان اور ٹکراﺅ کے ماحول کی تردید اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے ان کا یہ خیال اپنی جگہ درست ہے کہ ہمارے ہی ملک میں نہیں بلکہ بیشتر ممالک میں جن میں امریکا ،برطانیہ ،جرمنی اور فرانس جیسے ممالک بھی شامل ہیں، اپوزیشن حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے ہر چھوٹے بڑے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اپوزیشن کا بنیادی کام ہی یہ ہوتاہے کہ وہ حکومت کے کمزور پہلو کو تلاش کرکے اسے سامنے لائے اور اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر خود کو مضبوط ومستحکم بنانے کی کوشش کرے۔ اس لیے اپوزیشن سے یہ گلہ کہ وہ ہر معاملہ کو غلط رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے، بلاجواز ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اور ارباب حکومت اس طرح کے مواقع فراہم ہی کیوں کررہے ہیں،اپوزیشن جس سے فائدہ اٹھاسکے،وزیر داخلہ کو یہ شکوہ ہے کہ بعض عناصر نے اداروں اور حکومت کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دینے کا ٹھیکہ اٹھا لیا ہے تاکہ کسی بھی نوعیت کے معاملے پر سیاسی بیان بازی اور پوائنٹ اسکورنگ کی روش کو اس انتہا پر لے جاکر اپنے سیاسی مفادات حاصل کریں،لیکن وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ اداروں اور حکومت کے درمیان غلط فہمیاں خود حکومت اور ان کے بڑبولے قسم کے ناعاقبت اندیش قسم کے بزعم خود رہنما یا خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرکے وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ سے زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کی کوشش کرنے والے وہ عناصر کررہے ہیں جو کبھی بھی کسی کے وفادار نہیں اور ذرا سا کڑا وقت پڑتے ہی اس طرح آنکھیں سر پر چڑھالیں گے جیسے وہ کبھی وزیراعظم اور حکومت کے رطب اللسان تو کجا حامی بھی رہے ہوں۔ جہاں تک حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کا معاملہ ہے تو وزیر داخلہ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ عدالتوں سے محاذ آرائی اور ججوں کو خریدنے کی کوشش ہمیشہ سے شریف برادران کا وطیرہ رہاہے،وزیر داخلہ کوئٹہ میں ججوں کو مبینہ طورپربریف کیس کی حوالگی، ریسٹ ہاﺅس میں بیٹھ کر من پسند فیصلوں کا حصول اورسپریم کورٹ پر حملہ موجودہ حکومت کے ہی کارنامے ہیں۔ اپوزیشن میں شامل کسی جماعت نے آج تک اس قسم کی کوئی جرات نہیں کی۔وزیر داخلہ آج خود کو اور نواز شریف کی حکومت کو عدلیہ اور جج صاحبان کی عزت وتوقیرکا محافظ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن عدلیہ اور جج صاحبان کی عزت وتوقیرکا محافظ بننے والے یہ بھول گئے کہ ان کے دور اقتدار میں کس طرح اداروں کی تضحیک کی گئی اور تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور کس طرح بڑے بڑے ایوانوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کی جانب سے عدالتی شخصیات کی توہین اور عدالتی فیصلوں کی کھلم کھلا نفی کی جاتی رہی۔وفاقی وزیرکو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کی پارٹی کی جانب س سے عدالتی تضحیک کی یہ تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے ، اب اگر ان کے ماضی کے ان کارناموں کی وجہ سے کوئی ان پر انگلی اٹھارہاہے تواس پر تلملاہٹ کا شکار ہونے کے بجائے وزیر داخلہ کو معاملات کی وضاحت کرنی چاہیے اور سارا ملبہ حزب اختلاف پر ڈالنے کے بجائے اپنے گریبان میں بھی جھانکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جہاں تک وزیر داخلہ کی اپنی ذات کا تعلق ہے تو اپنی ذاتی حیثیت کے بارے میں ان کی وضاحتیں درست ہوسکتی ہیں اور ہوسکتاہے کہ ان کا یہ کہنا صحیح ہو کہ انہوں نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے انہیں شرم کے مارے نگاہیں نیچی کرنے پر مجبور ہونا پڑے، لیکن انہیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے جن ساتھیوں کی وکالت کررہے ہیں، ان میں سے کسی کا بھی دامن آلودگی سے پاک قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر داخلہ نے اس مٹی کا پانی پیا ہے اور اس سے وفا بھی کی ہے،ہوسکتاہے کہ ان کا یہ دعویٰ درست ہو کہ انہوں نے پنی ساری زندگی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے نظریں نیچی ہوں اور انہوں نے کوئی فیکٹری یا پٹرول پمپ نہیں بنایا۔ ہمیشہ یہ ہی چاہا کہ جب حکومت ملے تو ملک کا پیسا عوام کی خدمت میں نچھاور کریں اور جب اپوزیشن میں آئیں تو حق کی آواز بلند کرسکیں اور کوئی انہیں خرید نہ سکے ۔ چوہدری نثار کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہوسکتاہے کہ جمہوری ملکوں میں فیصلے گلیوں اور چوراہوں پر نہیں بلکہ منتخب پارلیمان، اعلیٰ عدالتوں اور عوام کی عدالت میں ہوتے ہیں، لیکن اگر کوئی حکومت پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اپوزیشن کی زبان بندی کرنے اور من مانی کرنے پر اتر آئے تو پھر فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ عدالتوں اور چوراہوں پر ہی ہو ا کرتے ہیں۔ اس لیے وزیر داخلہ کو اپنے سرپرستوں اور ساتھیوں کو یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کو من مانیوں کی کھلی چھوٹ کالائسنس تصور نہ کریں اور اس وقت سے ڈرنے کی کوشش کریں جب لوگ فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے چوراہوں پر کرنے پر مجبور ہوجائیں ،کیونکہ چوراہوں پر ہونے والے فیصلوں میں کسی طرح کی رورعایت اور اپیل ووضاحتوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں