میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تصوف و سلوک اور تزکیہ¿ نفس کی اہمیت و افادیت

تصوف و سلوک اور تزکیہ¿ نفس کی اہمیت و افادیت

منتظم
جمعرات, ۵ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

تحریر: مفتی محمد وقاص رفیع
”تصوف“ اصل میں باطن کے ” تزکیے“ اور ”تصفیے“ کا نام ہے جس سے انسان کا نفس” نفسانی کدورتوں“ اور ”اخلاقِ رذیلہ “ سے پاک صاف ہوکر ”اوصاف جمیلہ“ اور ”اخلاقِ حسنہ“ سے مزین ہوجاتا ہے ۔ تصوف‘ مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ مذہب ہی کی اصل روح ہے ۔اور جس طرح جسم روح کے بغیر مردہ لاش تصور کیا جاتا ہے، اسی طرح جملہ نیک عبادات بھی اخلاص دل اور باطنی طہارت کے بغیربے قدر و قیمت تصور کی جاتی ہیں ۔ تصوف بندہ کے دل میں جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات کی محبت اور رسول اللہ کی اطاعت پیدا کرتاہے، تو وہیں” تزکیہ¿ نفس“ تحمل ،برداشت ،رواداری اور خدمت خلق کی طرف بھی انسان کو مائل کرتا ہے۔
تصوف کے کئی نام ہیں : (۱)علم القلب (۲)علم الاخلاق (۳) احسان وسلوک (۴)شریعت و طریقت وغیرہم۔ قرآن و حدیث میں اس کے لیے زیادہ تر ”احسان“ کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن ان تمام ناموں کا مطلب اور مفہوم ایک ہی ہے اور وہ ہے ”اپنے نفس کو” اوصاف جمیلہ “ و ”افعال حسنہ“ سے مزین کرنا اور” اخلاقِ رذیلہ“ و ”اعمالِ سیئہ“ سے پاک اور صاف کرنا ۔
ہمارے بہت سے افعال و اعمال جس طرح ہمارے ظاہری اعضاءو جوارح سے صادر ہوتے ہیں ¾ اسی طرح ہمارے باطن (قلب ) سے بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ ظاہری اعضاءو جوارح سے صادر ہونے والے افعال کو ”اعمالِ ظاہریہ“ جب کہ باطنی اعضاءو جوارح ( قلب) سے صادر ہونے والے افعال کو ”اعمالِ باطنیہ “ کہا جاتا ہے ۔ نیز جس طرح ہمارے ظاہری افعال و اعمال شریعت اسلامیہ کی نظر میں بعض فرض ، واجب ، مباح، مستحب اور بعض ناپسندیدہ ، مکروہ اور حرام قسم کے ہیں اسی طرح ہمارے باطنی افعال و اعمال بھی شریعت اسلامیہ کی نظر میں بعض فرض ، واجب اور مستحب( جیسے تقویٰ و طہارت ، خشیت و للہیت ، صبر و شکر ، عاجزی و انکساری ، سخاوت و فیاضی وغیرہ جیسے پسندیدہ اور مستحسن امور) ہیں اور بعض ناپسندیدہ ، مکروہ اور حرام قسم کے (جیسے تکبر و غرور ، ریاءو دکھلاوا ، حسد ، کینہ ، بغض ، بخل ، بزدلی اور لالچ وغیرہ جیسے ناپسندیدہ اور قبیح امور )بھی ہیں ۔
لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اچھے یا برے افعال کے صدور کا تمام تر تعلق قلبی احوال اور نفس کی اندرونی کیفیتوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ چنانچہ اگر غور سے دیکھاجائے تو صاف طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہی قلبی احوال اور اندرونی کیفیتیں در حقیقت ہمارے تمام ظاہری افعال و اعمال کی بنیاد اور ان کی اساس ہیں ۔ ظاہری اعضاءو جوارح سے ہم اچھا یا برا جو بھی کام کرتے ہیں ¾ وہ در حقیقت انہیں قلبی احوال اور اندرونی کیفیتوں کا نتیجہ ہوتاہے۔چنانچہ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ تقویٰ و طہارت اور اللہ تعالیٰ کی محبت ¾ یہ قلب کی اندرونی کیفیتیں ہیں ، لیکن ان کا اثر ہمارے تمام ظاہری اعمال پر براہِ راست پڑتا ہے ۔ بلاشبہ ہماری ہر ایک عبادت ¾ نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰة وغیرہ کا مصدر و منبع یہی باطنی کیفیتیں اور قلبی احوال ہیں ۔اسی طرح اگر ہم شیطانی اور نفسانی خواہشات اور تقاضوں کے باوجود بدنظری ، لڑائی جھگڑے اور جھوٹ وغیرہ جیسے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں تو اس کا اصل محرک بھی یہی باطنی اور قلبی تقویٰ و طہارت اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہی کا کرشمہ ہوتا ہے۔اور ظاہری اعضاءو جوارح سے ہم جو بھی گناہ (مثلاً حب جاہ و حب مال ، دشمنی و عداوت ، حسد ، کینہ ، بغض وغیرہ) کرتے ہیں تو اس کا سبب بھی کوئی باطنی اور قلبی خصلت ہی ہواکرتی ہے ۔
الغرض ہمارے تمام تر ظاہری افعال و اعمال کا حسن و قبح اور عند اللہ ان کا مقبول یا مردود ہونا ہمارے ”اعمالِ باطنیہ“ پر ہی موقوف ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے ، رسول اکرم نے ارشاد فرمایا : ”تمام اعمال( کے ثواب) کا دار و مدار نیتوں پر ہے ۔“( مشکوٰة) یعنی اگر کوئی عمل کرتے وقت نیت اچھی ہوئی تو اس عمل پر ثواب ملے گا اور اگر نیت خراب ہوئی تو اس عمل پر گناہ ہوگا ۔پس معلوم ہوا کہ ہمارے ظاہری اعمال کا مقبول و مردود ہونا یا ان کا حسین و قبیح ہونا ہمارے باطنی اعمال پر ہی موقوف ہے۔
اورتقریباً یہی حال تمام باطنی فضائل و رذائل کا بھی ہے کہ ہمارے ظاہری افعال و اعمال کے حسن و قبح ، ردّ و قبول اور اجر و ثواب بلکہ بہت سے اعمال کا وجود بھی انہیں کا رہین منت ہے ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی نشان دہی رسول اللہ نے اپنے اس ارشاد میں فرمائی ہے کہ : ”خبردار! بدن میں گوشت کا ایک ایساٹکڑا ہے کہ جب وہ درست ہو تو سارا بدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوجائے تو سارا بدن خراب ہوجاتا ہے ، ہوشیار رہو کہ وہ ”دل“ ہے۔“(بخاری)
بلاشبہ دل کی پاکی ، روح کی صفائی اور نفس کی طہارت ہر ایک مذہب کی جان اور تمام انبیاءکا شیوہ رہا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں نبی پاک کی بعثت کے جو چار بنیادی مقاصد بیان کیے گئے ہیں ان میں دوسرا مقصد یہی ہے کہ : ” آپ مسلمانوں ( کے اخلاق و اعمال ) کا تزکیہ فرماتے رہیں۔“ قرآن مجید نے ہر ایک انسان کی کام یابی و ناکامی کا دار و مدار اسی ” تزکیہ¿ نفس“ کی کسوٹی پر رکھا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ”یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اور وہ شخص ناکام ہوا جس نے اسے (رذائل) میں دھنسا دیا۔( القرآن)
معلوم ہواکہ گناہوں کا صدورصرف ظاہری اعضاءہی سے نہیں ہوتا بلکہ باطن (قلب) سے بھی ان کا صدور ہوتا ہے ۔ اس لیے دونوں سے بچنا ضروری ہے۔ چنانچہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ” تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی ، بلاشبہ جو لوگ یہ( گناہ) کر رہے ہیں عنقریب ان کو ان کے کیے کی سزا مل کر رہے گی۔“ (القرآن)
باطنی گناہ قلب کے وہی گناہ ہیں جن کے متعلق پیچھے عرض کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے تمام ظاہری گناہوں کا منبع ہیں ۔ ہمارے ہر گناہ کا سوتا وہیں سے پھوٹتا ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں انہی کو ” رذائل“ یا ”اخلاقِ رذیلہ“ کہا جاتا ہے ۔ ان کے بالمقابل دل کی نیکیاں اور عبادتیں ہیں جو ہماری تمام ظاہری عبادتوں اور نیکیوں کا سر چشمہ ہیں ۔ ہر عبادت اور ہر نیکی انہی کی مرہونِ منت ہے ۔ قلب کے ان نیک اعمال کو تصوف و سلوک کی اصطلاح میں ”اوصاف جمیلہ“ یا ”اخلاقِ حمیدہ“ کہا جاتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں