میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایک شخص کی نااہلی کرپٹ نظام کو تبدیل نہیں کرسکتی

ایک شخص کی نااہلی کرپٹ نظام کو تبدیل نہیں کرسکتی

ویب ڈیسک
پیر, ۴ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

محمد اکرم خالد
وطنعزیز اس وقت جن مشکلات کی گردش میں پھنستا چلا جارہا ہے اندرونی بیرونی سازشوں نے وطن عزیز کی سلامتی کو خطرات کی جانب دھکیل دیا ہے پورے ملک میں افراتفری کی فضا پائی جاتی ہے ہر رات خوف میں ڈھلتی ہے تو ہر صبح ملک میں سیاسی ہنگامہ برپا کر تی ہے ہر لمحہ ایسا محسوس کیا جاتا ہے کہ شاید اپ کچھ ہونے والا ہے سپریم کور ٹ یا حکومت کیسی کی بھی جانب سے عوام کو کوئی مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یہ بات درست ہے کہ میاں نواز شریف کا تیسرا دور اقتدار پچھلے دو دور اقتدار سے مختلف رہا ہے اس اقتدار کے چار سال گزار نے تک میاں صاحب کی جانب سے اداروں سے اچھے تعلقات قائم رہے ہیں جب تک میاں صاحب وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان رہے یہ تاثر قائم رہا کے کیسی ادارے کے ساتھ کوئی تصادم نہیں ہے اس بات سے قطعہ نظر کے میاں صاحب کی حکومت چھوٹی موٹی غلطیاں کرتی رہی مگر اداروں کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے ان کی غلطیوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ماضی کی وہ مسلم لیگ جو اداروں کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں دو بار اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی رخصت ہوگئی تھی اس بار ایسا نہ ہوا بلکہ اس بار صرف میاں صاحب کو ا قتدا ر کی کرسی چھوڑنی پڑی ان کی جماعت آج بھی بر سراقتدار ہے اور بے انتہا مشکلات کا شکار نظر آتی ہے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد دبنگ موڈ میں نظر آتے ہیں نیب سے لے کر سپریم کورٹ تک کو میاں صاحب اور مریم نواز نے کھل کر آڑے ہاتھوں لیا ہے اس دبنگ انٹری کا مسلم لیگ ن کو آئیندہ انتخابات میں کتنا فائدہ یا نقصان کا سامنا ہوگا یہ آنے والے انتخابات طے کریں گے دوسری جانب شریف فیملی پر بنے والے نیب کیس بھی اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی سیاسی زندگی کا فیصلہ کریں گے شاید مسلم لیگ ن کو ایک بار پھر عوامی ہمدردی کا ووٹ حاصل ہوجائے کیوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ کا ووٹر کافی سر گرم نظر آتا ہے جو میاں صاحب کی جماعت کو پھر اقتدار کی کرسی پر براجمان دیکھنا چاہتا ہے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مسلم لیگ ن کے ارکان پارلیمنٹ کی سوچوں میں ابہام پایا جاتا ہے یہ ارکان میاں صا حب کی نا اہلی کے بعد اپنے سیاسی کیرئیر کی سلامتی کی فکر میں مبتلا ہیں کہ آیا نیب کیسز میں اگر میاں صاحب کو سزا ہوگئی تو مسلم لیگ ن میں ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا یہ وہ سوچ و فکر ہے جو اس وقت مسلم لیگ ن کے کچھ ارکان کے ذہنوں میںگردش کر رہی ہے اس خدشے کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے مگر یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مسلم لیگ ن کے بُرے وقت میں مریم نواز نے کھل کر مخالفین کو جواب دیا ہے جس کی وجہ سے اس وقت تک مسلم لیگ ن کافی حد تک یکجا نظر آرہی ہے اگر مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت کی جانب سے اداروں سے تصادم کی سیاست کو ترک کر کے سیاسی انداز کو درست سمت کی جانب کھیلا گیا تو کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ ن کا سیاسی مستقبل محفوظ رہے گا اداروں سے یا مخالفین سے ٹکرائو اس وقت مسلم لیگ ن کو سوٹ نہیں کرتا ۔
اس وقت وطن عزیز کو ہر جانب سے خطرات لا حق ہیں ملک بھر میں اس وقت سیاسی استحکام دعوں پر لگا ہوا ہے ہر سیاسی مذہبی جماعت ذاتی مفادات حصول اقتدار کی کشمش میں مبتلا ہے ملک رہے نہ رہے ان کی سیاست قائم رہے آج ملک جن مسائل کی گردش میں مبتلا ہے اس کی تمام تر زمہ داری اس ملک کی تمام سیا سی مذہبی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے ستر برسوں میں ان سیاستدانوں نے صرف اس ملک و قوم کا استعمال کیا ہے اس ملک کے بہتر مستقبل کے لئے کبھی یکجا اور بہتر سوچ نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے ملک خوشحالی کی جانب گامزن نہیں ہوسکا ہے اس ملک کے ادارے بہتر نظام کی وجہ سے مفلوج ہوچکے ہیں ہم آزاد عدلیہ کی بات تو بہت کرتے ہیں مگر کیا ستر برسوں میں ہم عدالتی نظام سے مطمین ہیں آج پاکستان بھر کی جیلوں میں چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد اپنی زندگی کا بڑا حصہ انصاف کی تلاش میں برباد کر چکے ہیں مگر ان کو انصاف آج تک فرائم نہیں ہوسکا ہے کیا ہماری معزز عدالتیں پولیس کے محکمے کو درست سمت پر گامزن کرنے میں اپنا مئوثر کردار ادا کر سکی ہیں کیا سپریم کورٹ تک کیسی غریب انسان کی سنوائی ہوسکی ہے کیا سپریم کورٹ اپنے ماتحت چلنے والی سول عدالتوں سے کرپشن کا خاتمہ کر سکی ہے کیا آج بھی سول عدالتوں میں انصاف بغیر رشوت کے مل سکتا ہے کیا یہ کرپشن نہیں ہے ہمارے انصاف کے اداروں پر سوالیہ نشان اپنی جگہ موجود ہے کیسی بھی با اثر شخص کو نااہل یا سزا دینے سے غریب عوام کو کچھ حاصل نہیں ہوگا با اثر شخص کو تو جیلوں میں بھی ہر طرح کی سہولتیں حاصل ہوجاتی ہیں مگر غریب کو انصاف ساری زندگی نصیب نہیں ہوتا غریب کبھی سیاستدان کے ہاتھوں کبھی عدالتوں کے ہاتھوں اپنے مسائل کا رونا روتا رہا ہے ستر برسوں میں اس کا صرف استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔
اس وقت جمہوریت کے علمبرداروں انصاف کے آقائوں کو اور امن و امان کو قائم رکھنے والوں کو اس ملک میں بہتر نظام کو قائم کرنے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا اس ملک میں ایسا نظام انصاف قائم کرنا ہوگا جس سے ایک عام انسان بھی اپنے آپکو محفوظ اور با اثر سمجھ سکے جو اس ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے بہت ضروری ہے کسی ایک شخص کی نااہلی کرپٹ نظام کو تبدیل نہیں کر سکتی بہتر نظام کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے معزز ادارے ہمارے سیاستدان کرپٹ نظام کو نااہل کرنے میں اپنا مئوثر کردار ادا کریں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں