خلا میں حادثات اور ناقابل یقین واقعات !!!
شیئر کریں
چینی خلا باز کو خلا میں کھٹکھٹانے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں
تحریروتحقیق:۔ شہلا حیات
مریخ پر زندگی دور کی بات لگتی ہے، سیکڑوں سال اور پانچ کروڑ 46 لاکھ میل دور۔لیکن مریخ اور خلا کے بارے میں سائنسدانوں تو کجا عام لوگوں میں بھی دلچسپی وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے، لیکن خلا کے حوالے سے ملنے والی بعض اطلاعات اتنی پراسرار ہوتی ہیں کہ ان پر یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا۔بعض اوقات خلا میں بھیجے جانے والے خلائی جہازوں کے حوالے سے ایسی خبریں بھی ملنے لگتی ہیں جس سے خلا میں زندگی کے بارے میں تصور دھندلا سا جاتاہے مثال کے طورپر تازہ ترین خبر یہ ملی ہے کہ ‘سکیاپریلی’ نامی تحقیقاتی روبوٹک خلائی مشن جو زمین سے 50 کروڑ کلومیٹر کے سفر کے بعد کو مریخ پر پہنچا تھا سرخ سیارے کی سطح پر اترنے کے مقررہ وقت سے ایک منٹ قبل اس کے ریڈیو سگنل وصول ہونا بند ہوگئے تھے مریخ پر اترنے والی یورپی خلائی ایجنسی کی روبوٹک گاڑی نے سیارے کی سطح پر اترنے کے بعد اس طرح برتاو¿ نہیں کیا جس کی امید کی جا رہی تھی۔ٹیلی میٹری ڈیٹا کے ذریعے حاصل ہونے والے ڈیٹا پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق ‘سکیاپریلی’ کے پیراشوٹ وقت سے پہلے الگ ہو گئے تھے۔’سکیاپریلی’کے راکٹس بھی جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ اسے خود ہی زمین پر لے آئیں گے، بہت مختصر وقت کے لیے ظاہر ہوئے۔
یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) نے ابھی تک اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ ‘سکیاپریلی’ مریخ کی سطح پر گر کر تباہ ہو گئی ہے تاہم وہ اس حوالے سے پرامید نہیں۔ماہرین ٹیلی میٹری ڈیٹا کے ذریعے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ کریں گے اور وہ ‘سکیاپریلی’ کو اس مبہم امید سے بلانے کی کوشش کریں گے کہ شاید مریخ کی سطح پر صحیح سالم موجود ہے۔اس کے علاوہ امریکی ماہرین مریخ پر موجود اپنے سیٹلائیٹس میں سے ایک کے ذریعے ‘سکیاپریلی’ کے لینڈنگ زون کی تصویر لے کر یہ جاننے کی کوشس کریں گے کہ آیا وہ کسی ہارڈویئر کی نشاندہی کر سکتے ہیں یا نہیں۔تاہم اس بات کے امکانات کم ہیں کیونکہ تحقیق کا دائرہ بہت محدود ہے۔واضح رہے کہ ‘سکیاپریلی’ نامی تحقیقاتی روبوٹک خلائی مشن زمین سے 50 کروڑ کلومیٹر کے سفر کے بعد بدھ کو مریخ پر پہنچا تھا لیکن سرخ سیارے کی سطح پر اترنے کے مقررہ وقت سے ایک منٹ قبل اس سے ریڈیو سگنل وصول ہونا بند ہوگئے تھے۔اس مشن کا مقصد مریخ کی سطح میں سوراخ کر کے وہاں زندگی کے آثار کا کھوج لگانا تھا۔
یورپی خلائی گاڑی سکیاپریلی کوپیش آنے والی غیر معمولی صورت حال کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ ہوسکتاہے کہ مریخ پر اترنے کے دوران اسے گرد کے طوفان کا سامنا کر ناپڑ ا ہو جس کی وجہ سے اس کاسگنلگ کا نظام مفلوج ہوگیاہو ۔امریکی سائنس دانوں کے مطابق ریت کے ذرے جلد ہی مریخ کی فضا میں اٹھنا شروع ہو جائیں گے، تاہم یورپی خلائی ادارے نے کہا ہے کہ اسے اس کی فکر نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بعض سائنس دان اس امکان سے خوش بھی نظر آتے ہیں۔ادارے کے پروجیکٹ سائنٹسٹ خورخے واگو نے بی بی بی سی کو بتایا: ‘ہمیں شروع سے معلوم تھا کہ ہم گرد کے طوفان میں مریخ پہنچیں گے اور سکیاپریلی کو یہی امکان ذہن میں رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔’گردآلود فضا سے برقی ڈیٹا حاصل کرنے کے نقطہ نظر سے یہ بات بہت عمدہ ہے۔’امریکی خلائی ادارے نے گذشتہ ہفتے ممکنہ طوفان کا تصور پیش کیا تھا جو بڑھ کر تمام سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، تاہم اس طوفان کے کئی ہفتوں تک اس قدر پھیلنے کا امکان نہیں ہے۔مریخ پر آنے والے طوفان بعض اوقات پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیںاس کے باوجود یورپی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ ہر صورت میں تیار ہیں۔ مریخ کی فضا میں گرد سے رگڑ کھا کر سکیاپریلی کی گرمی سے بچانے والا حفاظتی خول متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا بڑا پیراشوٹ بھی متاثر ہو سکتا ہے جس کی مدد سے یہ میریڈیانی میدان میں اترے گی۔ البتہ اس صورتِ حال کی زمین پر پہلے ہی جانچ پڑتال کر لی گئی تھی۔تیز ہواو¿ں سے لاحق خطرہ بھی زیادہ نہیں ہے کیوں کہ میریڈیانی خاصا وسیع و عریض میدان ہے اور گاڑی اترتے وقت ہدف سے تھوڑا ادھر ادھر بھی ہو جائے تب بھی زیادہ مسئلہ نہیں ہو گا۔فلائٹ ڈائریکٹر مچل ڈینس نے کہا: ‘صرف ایک چیز جو متاثر ہو سکتی ہے وہ ہے اترتے وقت لی جانے والی تصاویر کا معیار۔ اگر گرد زیادہ ہوئی تو ہمیں سطح زیادہ بہتر طریقے سے نظر نہیں آئے گی۔’سکیاپریلی میریڈیانی میدان میں اترنے کی کوشش کرے گی، یہ وہی جگہ ہے جہاں ناسا کی مریخ گاڑی آپرجونٹی 2004 میں اتری تھی سکیپریالی 600 کلوگرام وزنی مریخ گاڑی ہے جس میں متعدد آلات نصب ہیں۔ یہ مریخ پر اترنے کی دوسری یورپی کوشش ہے۔ اس سے قبل 2003 میں بیگل 2 اترنے کے بعد خرابی کا شکار ہو گئی تھی۔سکیاپریلی یورپی خلائی ادارے کے ایگزومارز مشن کا حصہ ہے جس کا مقصد سرخ سیارے پر قدیم یا حالیہ زندگی کے آثار کا جائزہ لینا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مریخ کی فضا اور ارضیات کا بھی تجزیہ کرے گی۔
یہ تو ہوئی خلا میں اچانک پیش آنے والے متوقع حادثات کی لیکن خلا میں بعض اوقات ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں جو جن بھوتوں کی کہانیوں کی طرح پراسرار ہوتے ہیں مثال کے طورپر ایک لمحے کیلئے سوچیئے کہ آپ ایک چھوٹے سے خلائی جہاز میں تنہا ہیں۔ یہ پہلی بار ہے جب آپ خلائی سفر کر رہے ہیں۔ اور ایک دم آپ کو کہیں سے کھٹکھٹانے کی آواز آتی ہے!چین کے پہلے خلا باز یانگ لی وے کے ساتھ 2003 میں ایسا ہی ہوا۔ ایک حالیہ انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ان کے پہلے خلائی سفر میں انھیں خلائی جہاز میں کھٹکھٹانے کی ایک ایسی آواز آ رہی تھی جیسے ’کوئی لوہے کی بالٹی پر لکڑی کی ہتھوڑی سے کھٹکھٹا رہا ہو۔‘’چینی خلا باز کا کہنا ہے کہ یہ آوازنہ تو خلائی جہاز کے اندر سے آ رہی تھی نہ باہر سے!‘باہر جھانکنے سے بھی یانگ لی وے کو کچھ نظر نہ آیا۔ خلائی سفر ختم کرنے کے بعد بھی زمین پر یانگ لی وے اس آواز کے بارے میں وضاحت ڈھونڈتے رہے۔خلا میں آواز کے سفر کا کوئی وسیلہ نہیں ہے اسی لیے خلا کے مکمل طور پر بے آواز ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔آواز کو سفر کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی وسیلہ چاہیے ہوتا ہے، جیسے ہوا یا پانی کے ذرات یا ٹھوس مادہ۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسی کوئی آواز آ رہی تھی تو اس کا امکان یہی ہو سکتا ہے کہ کچھ خلائی جہاز پر آ کر لگ رہا ہو۔ تاہم سائنسدانوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسا کچھ ہونے کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔یانگ لی وے چین کے پہلے خلا باز تھے اور انھیں ملک میں ایک ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ان کے ساتھ کام کرنے والے وی سنگ سوح نے اس آواز کی ایک دوسری توجیح دی ہے۔ ان کے خیال میں خلائی جہاز کے درجہ حرارت میں تیزی سے تبدیلی کے باعث اس کے پھیلنے یا سکڑنے کی وجہ سے یہ آواز پیدا ہو سکتی ہے۔چینی میڈیا کے مطابق یانگ لی وے کے علاوہ 2005 اور 2008 میں بھی چینی خلا بازوں کو ایسی ہی آواز سنائی دی ہے۔یہاں تک کہ یانگ لی وے نے بعد کے خلا بازوں کو تنبیہ کی تھی تاکہ وہ اس آواز سے پریشان نہ ہوں۔اگرچہ اس آواز کی کوئی توجیح نہیں مگر اب اسے ایک عام بات سمجھا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ یانگ لی وے چین کے پہلے خلا باز تھے اور انھیں ملک میں ایک ہیرو سمجھا جاتا ہے خلا میں آواز سنائی دینا اور بعد میں اس کی کوئی واضح وجہ نہ ہونا ایک نایاب بات نہیں ہے۔1969 میں چاند پر لینڈنگ کے لیے ایک ٹیسٹ فلائٹ پر جب خلا باز چاند کے گرد دوسری طرف یعنی زمین سے رابطے میں نہیں تھے تو انھیں ایک ایسی آواز آئی جسے انھوں نے موسیقی بیان کیا۔ مگر کوئی بھی اس کی واضح توجیح نہیں دے سکا۔اس بات کو امریکی حکومت نے کئی سال تک خفیہ رکھا۔ امریکی خلائی ادارے کا موقف تھا کہ یہ کسی قسم کی ریڈیو انٹرفیرنس ہی ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی خلائی مخلوق۔ناسا کے بھی دیگر خلائی مشنز پر ایسی آوازیں ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔
خلا کے بارے میں ان تمام خبروں کی موجودگی میںمریخ پر زندگی دور کی بات لگتی ہے، سینکڑوں سال اور پانچ کروڑ 46 لاکھ میل دورکسی سیارے پر جاکر رہنے کا تصور ہی جان لیوا نظر آتاہے لیکن اس کے باوجو دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خلا میں جاکر سکونت اختیار کرنے کوبے چین نظر آتے ہیں اور وہاں جانے کیلئے تیاری جلد از جلد شروع کر دینا چاہتے ہیں۔، خلا میں جاکر پرامن زندگی گزارنے کے خواہاں لوگوں کی اس بے چینی کو دیکھتے ہوئے آسٹریلیا میں میلبرن کی موناش یونیورسٹی نے سرخ سیارے پر زندہ رہنے کے لیے ایک آن لائن کورس شروع کر رہی ہے۔3 گھنٹے کے 4سیشنوں کے بعد امیدوار خود کو پانی، خوراک اور آکسیجن فراہم کرنے کے لیے مطلوب مہارت حاصل کر لیں گے۔’مریخ پر کیسے زندہ رہا جائے: مریخ پر انسانی تحقیق کی سائنس‘ نامی آن لائن کورس کو خلائی فزکس کی ماہر جیسمینا لوزینڈچ گیلووے اور کیمسٹری کی پروفیسر ٹینا اورٹن نے تیار کیا ہے۔انھوں نے اس کی تحریک اینڈی ویئر کے ناول ’دی مارشئن‘ سے حاصل کی ہے جس پر بننے والi فلم کو سن 2015 میں آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ مریخ پر زندگی ان کے لیے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر ساتھیوں کے لیے ’اگلی بڑی دریافت‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی ہی میں لوگ مریخ پر رہنے لگیں گے۔طالب علموں کو یہ سمجھانے کے لیے مریخ پر جو کچھ موجود ہے اس پر کیسے زندہ رہا جا سکتا ہے اور یہ کہ وہ زندگی ان کی زمین پر زندگی سے کیسے مختلف ہو گی، کورس میں کیمسٹری، ریاضی، جیالوجی، فزکس اور حیاتیات کے کچھ حصے شامل کیے گئے ہیں۔24 اکتوبر سے شروع ہونے والے اس کورس کے لیے 15 سو افراد نے پہلے ہی اندراج کرا لیا ہے۔