پنجاب کی ترقی اور سندھ
شیئر کریں
مختار عاقل
پنجاب کی ترقی کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے والے سندھ کی حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ اس صوبے میں ایسی ترقی کیوں نہیں ہوسکی۔ اس سوال کا جواب آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے دے دیا ہے۔ 2015-16 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے اثاثوں میں 35 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ تنخواہوں‘ پنشن‘ قرض اور ایڈوانس ادائیگی میں 25 ارب روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں اور مختلف منصوبوں کے لئے مختص بجٹ سے 8 ارب روپے کے اضافی اخراجات کئے گئے۔ رپورٹ میں 147 ملین روپے کے غیر ضروری اخراجات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ سندھ کی بیشتر شوگر ملز ایک بڑی سیاسی شخصیت کی ملکیت ہیں۔ انہیں خلاف ضابطہ 3 ارب روپے کی خطیر رقم ادا کردی گئی۔ اسی طرح تعمیراتی ٹھیکوں میں بلڈوزر چلے بغیر 28 ملین روپے ادا کردیئے گئے۔ پاکستان کے ایک مستند ادارے اے جی پی کی جانب سے پیش کردہ یہ رپورٹ ایک ہلکی سی جھلک ہے‘ اس کھربوں روپے کی کرپشن کی جو سندھ میں گزشتہ 8 سال سے جاری ہے۔ ان بدعنوانیوں کے سرغنہ اور شریک کئی اہم کردار ملک سے باہر داد عیش دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام کراچی فشریز کے سابق سربراہ نثار مورائی کا ہے۔ انہیں تجربہ کے طور پر گزشتہ دنوں دبئی سے کراچی بھیجا گیا تھا۔ یہاں وہ گرفتار ہوئے‘ کورٹ میں پیش کیا گیا‘ قابل اور ہوشیار وکیل خواجہ نوید نے ان کی ضمانت کرالی لیکن جوں ہی وہ عدالت سے باہر آئے تو رینجرز نے انہیں پھر دھر لیا۔ ان کے گھر سے بڑے پیمانے پر جدید اسلحہ برآمد ہوا تھا‘ ان دنوں وہ ضمانت پر ہیں اور رینجرز کے دفتر میں ہر دوسرے دن حاضر ہوکر یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ دوبارہ ملک سے فرار نہیں ہوئے ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ کرپشن کے خاتمہ اور امن وامان کی بحالی میں رینجرز کا بڑا اہم کردار ہے۔ ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل بلال اکبر پورے آپریشن کی قیادت کررہے ہیں۔ ان کا تین نکاتی ایجنڈا ہے جن میں جرائم اور ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ‘ عدالتوں سے انصاف کا حصول اور فلاحی و سماجی کاموں کی سرپرستی شامل ہیں۔ وہ تینوں محاذوں پر بڑی چابکدستی سے سرگرم عمل ہیں۔ پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی آپریشن جاری رکھنے کا گرین سگنل دے دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن بھوک و افلاس‘ غربت اور بیروزگاری کو جنم دیتی ہے۔ یہ مجرم گروہوں کو نیا خون فراہم کرتی ہے۔ حدیث شریف ہے کہ مفلسی کفر تک پہنچاتی ہے۔ بدعنوانیوں سے چند سو یا چند ہزار خاندان تو امیر کبیر ہوجاتے ہیں لیکن عوام کی اکثریت محروم رہتی ہے۔ احساس محرومی پیدا ہوتا اور پنپتا ہے جو مافیاﺅں اور تنظیموں کو راستہ فراہم کرتا ہے۔ اس لئے میجر جنرل بلال اکبر کرپشن کے کرداروں سے بھی نمٹ رہے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ صورتحال اب کبھی پیچھے کی طرف نہیں جائے گی۔ وہ 2009 ءسے دہشت گردی کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کا کراچی میں آباد مختلف برادریوں اور لسانی گروہوں سے براہ راست رابطہ ہے جن سے وہ امن وامان قائم رکھنے کے سلسلے میں مدد لیتے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم‘ پیپلز پارٹی اور رینجرز کی اپنی ترجیحات ہیں۔ رینجرز کا ادارہ سیاسی نہیں ہے لیکن اس کے بغیر سیاسی استحکام بھی ممکن نہیں ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ واضح طور پر چار حصوں میں تقسیم ہے۔ ان میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور لندن‘ مہاجر قومی موومنٹ (آفاق احمد) اور اسی پارٹی سے الگ ہونے والی ایک تنظیم پاک سرزمین پارٹی ہے اس طرح سندھ کی ”مہاجر سیاست“ چار حصوں میں تقسیم ہے۔ چاروں کے الگ الگ پروگرام اور اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ اکثر متحارب گروپوں کے کارکنوں میں ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی اور سر پھٹول بھی ہوجاتا ہے۔ یہ صورتحال مٹھی بھر اشرافیہ کے لئے بڑی آئیڈیل ہے جو بقول وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف گزشتہ 70 سال سے ملک کو لوٹ رہی ہے۔
ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر
کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھاگئے
کراچی میں بعض حلقوں کی سوچ یہ ہے کہ پاک فوج کا سپہ سالار بدلنے کے بعد صورتحال بھی تبدیل ہوجائے گی لیکن فوج اور رینجرز کے کمانڈروں کا یہ مضبوط عزم ہے کہ
گزرا ہوا زمانہ‘ آتا نہیں دوبارہ
خبریں میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر ضیاءشاہد گزشتہ دنوں سی پی این ای کے اجلاس میں شرکت کے لئے لاہور سے کراچی تشریف لائے تو ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر سے ملاقات میں انہوں نے اسی تشویش کا اظہار کیا۔ میجر جنرل بلال اکبر نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کو پھر سر نہیں اٹھانے دیں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ بھی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ دہشت گردوں کو پھر نہیں آنے دیں گے۔ عسکری قیادت کی جانب سے ان جرا¿ت مندانہ اعلانات اور اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اس عہد فسوں ساز میں سرحدوں پر فوجوں کے بڑے پیمانے پر ٹکراﺅ کی بجائے حریف ملکوں کی جانب سے اندرونی فساد پھیلا کر کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے چوکس رہنا بہت ضروری ہے۔ غلط فہمیوں اور قیاس آرائیوں کے ذریعے ملکوں کو غیر مستحکم کیا جاتا ہے۔ شکوک و شبہات کے پہاڑ کھڑے کرکے حقائق کو دفن کردیا جاتا ہے۔ سندھ کی سیاسی قیادت کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ پنجاب کیوں ترقی کررہا ہے اور سندھ پیچھے‘ اس میں کرپشن‘ بددیانتی‘ اقرباءپروری‘ سرکاری فنڈز کی خورد برد ‘ کام چوری اور نااہلی کا دخل تو نہیں ہے۔ صوبے کے عوام کی تباہ ہوتی حالت اور بڑھتی ہوئی غربت و بے روزگاری کا ذمہ دار کون ہے؟ سندھ کے تمام وزرائے اعلیٰ کا تعلق پنجاب سے نہیں‘ دیہی سندھ سے رہا ہے‘ پھر سندھ کے کھیتوں میں بھوک کیوں اُگتی ہے اور عوام پیاس سے بلکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے بقول حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کے بغیر معاشرے اور ملک ترقی نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو مارچ 2017 میں مردم شماری کرانے کا حکم دیا ہے۔ کیا ہم جائز‘ منصفانہ اور شفاف مردم شماری کے لئے تیار ہیں؟ کیا حکومت یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ ماضی کی طرح کوئی ڈنڈی نہیں ماری جائے گی۔ پاکستان کو قائم ہوئے 70 برس گزرچکے ہیں ۔ اس دوران آئینی طور پر سات بار مردم شماری ہوجانی چاہئے تھی لیکن اب تک صرف پانچ بار مردم شماری کرائی گئی ہے۔ 1973 ءکی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 35 لاکھ شمار ہوئی۔ بعدازاں جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءمیں ہوم سیکریٹری محمد خان جونیجو نے اعتراف کیا کہ ”اوپر والوں“ کے حکم پر کراچی کی آبادی 56 لاکھ کی بجائے 35 لاکھ دکھائی گئی تھی۔ اسی طرح لاڑکانہ کی آبادی ساڑھے تین سو فیصد زیادہ تھی۔ نواب شاہ سمیت سندھ کے دیگر کئی اضلاع کی آبادی میں بھی اضافہ دکھایا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اسمبلیوں اور قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبے کے شہری علاقوں کا کم حصہ مختص کیا جائے۔ اس نوعیت کی ناانصافیوں نے بالآخر ایم کیو ایم جیسی طاقتور تحریک کو جنم دیا۔ سندھ کی سیاسی فکر اور حکمت عملی کو درست اور حقوق و فرائض کا حقیقی تعین کئے بغیر صوبہ کبھی ترقی نہیں کرے گا۔
٭٭