عمران خان سن لو یہ تحریک ،یہ طوفان آگے بڑھتا جائے گا، مولانا فضل الرحمان
شیئر کریں
سربراہ جمعیت علما ء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ووٹ کو عزت دینا ہوگی ووٹ کو عوام کی امانت سمجھنا ہوگا ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائیگی،ڈی چوک خرافات کا نام ہے ،وہ ڈی چوک جہان ایسی آلودگی اور بیہودگی پھیلائی گئی کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے ، عمران خان سن لو یہ تحریک ،یہ طوفان آگے بڑھتا جائے گا اور تمہیں اقتدارسے باہر اٹھا کر پھینک دے گا، ان کی سیاست اورعادت گلی کے لوفروں سے بھی زیادہ خراب ہے ،یقین دہانی کرواتا ہوں کہ پیچھے نہیں ہٹیں گے پسپائی نہیں کریں گے بلکہ پیش قدمی کریں گے ، وزارت اعظمی اور ایوان صدر کے عہدوں پر جو بیٹھے ہیں وہ ان مناصب کے قابل نہیں ہیں،کتنے دن بیٹھنا ہے کسی اور محاذ پر جانا ہے پلان بی اور سی بھی ہے تمہاری جیلیں کم پڑ جائیں گی ، شرکاء آزادی کے پاس وسائل کم مگر جذبات زیادہ ہیں۔شریعت کی رو سے میدان میں آئے ہیں ڈٹ گئے ہیں پیچھے ہٹنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔شرکاء باہمی اور متفقہ فیصلوں کا انتظار کریں۔اتوار کی شب آزادی مارچ کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ آزادی مارچ مقصد لے کر آیا ہے صرف ایک شخصیت کے استعفیٰ کا معاملہ نہیں ہے ۔ عوام کی امانت عوام کے وووٹ کا مسئلہ ہے ۔عوام اپنے ووٹ کی امانت حاصل کرنے کی جنگ کر رہے ہیں۔ حزب اختلاف کا سارا ووٹ جمع کیا جائے ۔ دھاندلی کے باوجود حکومتی بینچوں پر بیٹھے جماعتوں سے زیادہ ہے ۔عوامی جذبات اور جوش و خروش وقت کیساتھ بڑھتا جا رہا ہے مقصد کے حصول کے لیے کارکنان آخری بازی لگانے کو تیار نظر آ رہے ہیں۔اسلام آباد کی پوری تاریخ کا یہ سب سے بڑا اجتماع ہے اسے سے پہلے اس سرزمین اور فضائوں کے اتنا بڑا انسانی اجتماع نہ دیکھا اور آئندہ بھی بظاہر ایسے انسانی اجتماع کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہمیں کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن جائیں الیکشن کمیشن تو ہم سے بھی زیادہ بے بس ہے ۔ وہ بے بس نہ ہوتا تو اتنی بڑی تعداد میں عوام سڑکوں پر نہ ہوتی ۔اپوزیشن جماعتوں کا مقصد فیصلہ ہے کسی ٹربیونل کسی الیکشن کمیشن کسی کمیشن میں نہیں جانا ۔ پارلیمانی کمیٹی میں جاتا ہے ۔ایک سال ہو گیا ہے پارلیمانی کمیٹی کے قواعد و ضوابط طے نہ ہو سکے ۔ حکومتی بنچوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اتنی بڑی دھاندلی ہوئی ہے کہ کسی ادارے سے نہیں پوچھا جا سکے گا پانچ سال ہو گئے ناجائز فارن فنڈنگ کیس کافیصلہ نہ کر سکے وہ کمیشن دھاندلی کے لیے تحقیقات نہ کرسکے گا ۔تم لوگوں سے حساب مانگتے ہو تم خود فارن فنڈنگ کیس میں پیش ہونے کو تیار نہ ہے یہاں تو خود پوری پارٹی اور ٹبر کرپٹ ہے اسی کرپٹ جماعت کو حکومت کا حق حاصل نہ ہے ۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ حکمرانوں کو جانا ہے عوام کو ووٹ کاحق دینا ہوگا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہے ۔تحریک جاری رہے گی اس میدان سے آگے جائیں گے ملک بھر میں تحریک پھیل جائے گی۔ آگے بڑھ کر سخت فیصلے اور پیش قدمی کریں گے پورے پاکستان کو اجتماع گاہ بنا کر دکھائیں گے ۔ یہ سفررکے گا نہیں اپنے مقصد کے حصول تک جنگ جاری رکھے گا۔ڈی چوک توکم جگہ ہے یہاں بھی جگہ تنگ ہو گئی ہے جب تمام اپوزیشن جماعتوں قائدین ایک اسٹیج پر ہیں تواگلا لائحہ عمل بھی باہمی مشاورت سے کریں گے ایک بات واضح ہے کہ دنیا میں اس اجتماع سے قادیانی اور اسرائیلی لابی پریشان ہے میڈیا کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیںمتذکرہ کام کے لیے کس کرکٹر کی بات کی گئی تھی ۔ اس اجتماع نے تیس چالیس سالوں کی ان کی سرمایہ کاری پر پانی پھیر دیا اب کوئی مائی کا لال اسرائیل کو پاکستان میںتسلیم کرنے کی بات نہیں کر سکتا۔ قادیانی کے سربراہ نے بیان دیا تھا کہ غیر مسلم کی شق ختم ہونے کو ہے ۔کس نے یقین دہانی کروائی تھی۔ اس اجتماع نے انکے عزائم پر پانی پھیر دیا کئی دہائیوں تک کوئی ایسی جرات نہ کر سکے ۔ کوئی اسلامی دفعات کو تبدیل کرنے کی بات کرنے کی جرات نہ کر سکے گا ۔ انھوں نے کہا کہ دینی مدارس پاکستان کے مضبوط ادارے ہے جیسے کوئی زیر نہیں کر سکتا۔تم انتخابات کے حوالے سے مزے لیتے رہے ۔ ہر انتخابات میں مداخلت کرتے ہواب یہ اجتماع طے کرے گا کہ کوئی بھی عام انتخابات میں مداخلت نہیں کر سکے گا۔اس مداخلت کے نتیجہ میں نظام اور فوج متنازعہ ہو جاتی ہے ہم فوج کو متنازعہ نہیں دیکھنے چاہتے ۔آئین کی عملداری کرتے ہوئے واپس آئین کی طرف جانا ہوگا۔ آئین میں تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین کر دیا ہے تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں تو کوئی متنازعہ نہیں بنے گا یہ ہم نہیں کہہ رہے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ از سر نو عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے کیونکہ سب آئین سے دور چلے گئے ہیں ہر ادارہ مداخلت کر رہا ہے عوام مطمئن نہیں آئین کی کیا حیثیت ہے سب اداروں کو بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہے ۔ آئین ہی محترم اور بالا دست ہے جس کی بنیاد پر ملک چلے گا۔ عہد و پیمان کرنا ہوگا کہ آئین کی عملداری ہوگی۔ مولانا نے کہا کہ پاکستان میں جمہوری ادارے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ جمہوریت محض نام کی ہے ۔ انتخابات میں ہر شخص عوام کی بجائے کسی اور کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب واضح طور پر دو ٹوک فیصلہ کرنا ہوگا کہ ووٹ کو عزت دینا ہوگی ووٹ کو عوام کی امانت سمجھنا ہوگا ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔دینی مدارس کے نصاب پر بات کرنے والے بیکن ہائوس اور برن ہال جیسے ارب پتی لوگوں کے تعلیمی اداروں میں اصلاح احوال کی بات کیوں نہیں کرتے وہاں تبدیلی کی بات کیوں نہیں کی جاتی ارب پتی لوگوں کے پروں کے نیچے مہنگے تعلیمی اداروں کی اصلاح کرو پھر دینی مدارس کی بات کرو۔اس اجتماع میں صرف مولوی نہیں آئے پوری قوم موجود ہے ساری جماعتیں،سارے طبقات موجود ہیں ۔کون سا ڈی چوک ڈی چوک خرافات کا نام ہے ،وہ ڈی چوک ایسی آلودگی اور بیہودگی پھیلائی گئی کہ سر شرم سے جھک جاتی ہے خواتین اینکرز کی تزلیل کی گئی ہمارے اجتماع میں خواتین کو چادریں دے کر ان کی عزت اور احترام کیا جا رہا ہے ۔انھوں نے کہا کہ تم کس سیاست کی بات کرتے ہو ساری رات نشے میں دھت رہ کر سیاست کرتے ہو شرم آنی چاہیے ہم قوم کو مایوس نہیں کریں گے ۔ہمیں اشتعال دلانے والے ہمارے خیر خواہ نہیں ہیں۔ کوئی سازشی قوت نہ سمجھے کہ ہم ان طعنوں میں آ کر کوئی غلط راستہ اختیار کریں گے ۔انھوں نے کہا کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن سیاست کرنے والے ہمیں سیاست نہ سکھائیں۔ عمران خان سن لو یہ تحریک ،یہ طوفان آگے بڑھتا جائے گا اور تمہیں اقتدارسے باہر اٹھا کر پھینک دے گا۔تحریک اور عوامی سیلاب آگے بڑھتا جائے گا کن حکمران کی بات کرتے ہو یہ گالی بریگیڈ ہے ۔ ان کی سیاست اورعادت گلی کے لوفروں سے بھی زیادہ خراب ہے ۔یہ گلی کوچوں کی لوفروں جیسی بات کرتا ہے حکمران جو زبان استعمال کررہا ہے شائستگی کو بھی شرم آتی ہے ۔ایسے لوگوں سے جان چھڑانی چاہیے انھوں نے کہا کہ مقابلے کے لیے آگے بڑھنا ہے متفقہ فیصلے کے تحت آگے جائیں گے انہوں نے اس بات کا شرکاء مارچ سے عہد لیا ۔انھوں نے کہا کہ ڈی چوک میں گند پھیلایا گیا آج ہمارے لوگ اس میدان کی خود صفائی کررہے ہیں نمازیں بھی ہو رہی ہیں کھیل کود بھی ہو رہا ہے ذکر اذکار بھی ہورہا ہے مجھے معلوم ہے کہ اگر میں اگر آپ کو ایک سال بیٹھنے کے لیے کہوں گا تو آپ کہیں گے کہ دو سال ، چھ ماہ کا کہوں گا تو آپ ایک سال کا کہیں گے میں ایک ماہ کا کہوں گا تو آپ کہیں گے کہ چھ ماہ ،میں آپ کے جذبے اور جوش کی قدر کرتا ہے اس دوران مولانا فضل الرحمن کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اورآوازمیں لرزش پیدا ہوگئی کہا کہ خدا کی قسم مجھ سے آپ سو قدم آگے ہیں جس جرات اور کردار کا مظاہرہ کیا ہے مجھ پر جو اعتماد کررہے ہیں میرا بھی آپ کے ساتھ اعتماد میں یہی رشتہ ہے ۔ اعتماد کے رشتے ، تحریک، لگن جذبہ جہاد، شوق شہادت سے سرشار ہے ۔یقین دہانی کرواتا ہوں کہ پیچھے نہیں ہٹیں گے پسپائی نہیں کریں گے بلکہ پیش قدمی کریں گے ۔ہم حکمرانوں کی حقیقت جاتے ہیں اس کی حیثیت اور اوقات کو جانتے ہیں، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وزارت اعظمی اور ایوان صدر کے عہدوں پر جو بیٹھے ہیں وہ ان مناصب کے قابل نہیں ہیں بڑے بڑے مناصب کی توہین اور بے توقیری کی جا رہی ہے ۔تم بغاوت کی بات کرتے ہو ہم یہ میدان سر کر چکے ہیں ہم ان حدود سے آگے نکل چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جان ہتھیلی پر رکھی ہوئی ہے ہمارے جیسا خلوص جذبہ حب وطنی تمہارے پاس نہیں ہے اقتدار نہ ہو تو تم گوروں کے پاس جا کر بیٹھ جائو گے اور امریکا یورپ اور پاکستان کا گورا ایک صف پر ہیں پاکستانی قوم کی اپنی صف ہے ۔نمولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کتنے دن بیٹھنا ہے کسی اور محاذ پر جانا ہے پلان بی اور سی بھی ہے تمہاری جیلیں کم پڑ جائیں گی ہم جیلوں کو بھر دیں گے شرکاء آزادی کے پاس وسائل کم مگر جذبات زیادہ ہیں۔شریعت کی رو سے میدان میں آئے ہیں ڈٹ گئے ہیں پیچھے ہٹنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔شرکاء باہمی اور متفقہ فیصلوں کا انتظار کریں۔