کالعدم تنظیموں کی افغانستان سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں
شیئر کریں
گزشتہ چند دنوں کے دوران بلوچستان کے شہر پشین اور خیبر پختونخوا کے پشاور میں سیکورٹی فورسز سے مقابلوں میں 6 دہشت گرد مارے گئے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران پنجاب کے مختلف شہروں سے لگ بھگ 20 ایسے افراد کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں جن کا تعلق مختلف کالعدم تنظیموں سے ہے۔ بدھ کو پشاور میں مارے گئے 2 دہشت گردوں کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی کے ایک ذیلی گروپ سے بتایا جارہا ہے۔ پشین میں گزشتہ روز مارے گئے 4 افراد کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کا تعلق کالعدم داعش کے خراسان چیپٹر سے تھا۔ ادھر اقوام متحدہ نے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کا چھوڑا اسلحہ کالعدم ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور دیگر انتہا پسند گروپوں کے ہاتھ لگنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں دہشت گردی کے بڑھنے کے امکانات ہیں۔ ان پے درپے واقعات کی روشنی میں حکومت کو چاہئے کہافغان حکومت کو دوحہ معاہدے کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا احساس دلائے۔ اقوام متحدہ نے افغان سرزمین پر موجود مختلف الخیال دہشت گرد گروپوں کے ہاتھ لگنے والے جدید اسلحہ کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا وہ معروضی حالات کی روشنی میں نہ صرف درست ہے بلکہ اس سے ان خطرات و خدشات کی بھی تصدیق ہوتی ہے جس پر پچھلے کچھ عرصہ سے ایران اور پاکستان کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ذمہ داران افغان عبوری حکومت کو متوجہ کرتے آرہے ہیں۔ اسی طرح یہ تلخ حقیقت بھی واضح ہے کہ گزشتہ ایک سے ڈیڑھ برس کے دوران صرف خیبر پختونخوا میں مسلح جتھوں کی کارروائیوں میں 300کے قریب پولیس و سیکورٹی فورسز کے اہلکار شہید و زخمی ہوئے جبکہ دہشت گردی کی وارداتوں میں سیکڑوں شہری بھی شہید و زخمی ہوئے۔ افغان عبوری حکومت کے غیرذمہ دارانہ طرزعمل اور افغان سرزمین پر مختلف الخیال دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کے حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ افغان حکومت ان گروپوں کی اپنی سرزمین پر موجودگی کو پڑوسی ملکوں کے خلاف بلیک میلنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ گروپ پڑوسی ملکوں سے افغانستان کیلئے فوری ضرورت کی اشیا کی اسمگلنگ میں معاونت کرتے ہیں اس کے بدلے میں افغان حکومت انہیں اپنی حدود میں قیام کرنے پر اولاً بازپرس سے گریز کرتی ہے۔ ثانیاً ہرات، کابل اور قندھار میں غیرملکی اسلحہ کی منڈیوں سے انہیں جدید اسلحہ خریدنے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صورتحال کسی بھی طور تسلی بخش نہیں۔ حکومت کو یہ معاملات افغان حکومت کے سامنے اٹھانے چاہئیں ا ور ان کے سدباب کیلئے سخت رویہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ ملک کو دہشت گردی کی اس لعنت سے نجات مل سکے اور ہماری مسلح افواج اور پولیس کے اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
٭٭٭