ماسک کی پابندی اور سمارٹ اپروچ
شیئر کریں
(مہمان کالم)
جینیفر نوزو
امید تھی کہ یہ موسم گرما کووِڈ کی پریشانیوں سے پاک ہوگا مگر سنٹر فار کنٹرول ڈیزیز اینڈ پریوینشن نے اب سفارش کی ہے کہ ویکسین لگوانے والے افراد بھی مخصوص علاقوں میں ماسک پہنیں۔چونکہ انفیکشن سے بچنے کے لیے ماسک پہننا لازمی ہے اس لیے امریکا کو بڑی احتیاط سے ا?گے بڑھنا چاہئے۔ ہیلتھ حکام نے ویکسین لگوانے والے امریکیوں کو کئی مہینے یہ یقین دلانے میں گزار دیے کہ انہیں ماسک پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ کووِڈ سے مکمل محفوظ ہیں۔ اب ہر ایک کو دوبارہ ماسک پہننے کا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ماہرین کو ویکسین کے بارے میں زیادہ اعتماد نہیں رہا،خاص طور پر اگر ماسک پہننے کے قواعد و ضوابط کو ویکسین کے ساتھ منسلک نہ کیا گیا یا صرف ان علاقوں میں ماسک پہننا لازمی کیا گیا جہاں کے ہسپتال کووِڈ سے متاثرہ مریضوں کو داخلہ نہیں دے رہے۔ماسک پہننانے کے لیے کئی بہتر طریقے بھی ہو سکتے ہیں وہ یہ کہ انہیں تین مخصوص عوامل کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔
اول یہ دیکھا جائے کہ جن علاقوں میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے وہاں کووڈ پھیل رہا ہے یا نہیں۔لیکن اگرماہرین یہ دیکھتے ہیں کہ خاطر خواہ نتائج نہیں مل رہے توانہیں احتیاطی اقدامات کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ اگر گروسری سٹورز اور سوشل کلبوں جیسے عوامی مقامات پر کووِڈ زیادہ پھیل رہا ہے تو ہر ایک کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دینا پڑے گا۔ مگر ہیلتھ حکام نے ابھی تک ایسا کوئی ڈیٹا شیئر نہیں کیا جس سے محسوس ہو کہ ایسا ہی ہو رہا ہے اور یہ واقعی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ریاستی اور مقامی ایجنسیوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ کن کن سرگرمیوں کی وجہ سے کووڈ پھیل رہا ہے اور اسی کے مطابق پالیسی مرتب کرنی چاہیے مثلاً کووڈ کے آغاز میں یہ پتا چل گیا تھا گھروں کے اندر اہلِ خانہ اور دوستوں کا چھٹیوں اور سالگرہ کے اجتماعات کے دوران ایک دوسرے کو جسمانی طورپر چھونا ہی کووڈ کے پھیلنے کی بڑی وجہ ہے کیونکہ یہاں ماسک نہیں پہنا جاتا۔اگر یہ بات سچ ہے تو صرف ماسک کو لازمی قرار دینے سے کووڈ کیسز میں کمی نہیں آئے گی۔شروع میں ایک کیس سٹڈی ہوئی جس کا مقصد کووڈ سے متاثرہ اور غیر متاثرہ افراد کے رویوں میں ا?نے والی تبدیلی کا مطالعہ کرنا تھا، اس سٹڈی کے دوران پتا چلا کہ جن لوگوں میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی یہ وہ لوگ تھے جو غیر متاثرہ افرا دکے مقابلے میں ریستوران پر کھانا کھانے کے زیادہ عادی تھے۔اگر یہ بات درست ہے تو اس صورت میں ماسک لازمی قرار دینے کے علاوہ ریستوران اور بارز میں جانے والوں کی تعداد بھی محدود کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ یہ لوگ کھانے اور پینے کے دوران ماسک نہیں پہن سکتے۔
جینیاتی ترتیب کا تعین کرنے سے ہمیں ایسے اشارے مل سکتے ہیں کہ کووڈ کس طرح پھیل رہا ہے۔جو بائیڈن کی حکومت ریاستوں کو وافر مقدار میں وسائل فراہم کرے تاکہ ریاستی ایجنسیاں ویرینٹس کی ٹریکنگ کے لیے جینیاتی ترتیب کا تعین کر سکیں تو ہیلتھ ایجنسیوں کو اس ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہئے تاکہ بڑے پیمانے پر کووِڈ پھیلانے والے کلسٹرز کا پتا لگایا جا سکے۔ سی ڈی سی نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ جن علاقوںمیں کووڈ کی بھرمار ہے وہاں ماسک لازمی پہنا جائے تاکہ وائر س کو دوسروں تک پھیلنے سے روکا جا سکے۔ یہ جاننے کے لیے کہ وہ علاقے کون کون سے ہیں مقامی حالا ت کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔مگر گزشتہ چند مہینوں کے دوران زیادہ تر ریاستوں نے کووڈ سے متعلق ڈیٹا پبلک کے ساتھ شیئر کرنا کم کر دیا ہے، مثلاًفلوریڈا میں جہاں گزشتہ ہفتے کے دوران پورے امریکا میں پھیلنے والے کووڈ کیسز کے 20 فیصد کیس پائے گئے ہیں‘ اب ٹیسٹنگ اور ہونے والی اموات کا ڈیٹا شیئر کرنا کم کردیا گیا ہے۔سی ڈی سی کے پاس ایک نقشہ ہے جس کی مدد سے امریکا بھر میں کووڈ ڈیٹا کی سمری دی جاتی ہے مگر ا س میں ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ تفصیلات نہیں دی جاتیں۔ کووڈ کے اس مرحلے پر ریاستوں اور مقامی حکومتوں کوچاہئے کہ وہ کم کے بجائے زیادہ ڈیٹا شیئر کریں۔انہیں کم از کم ان کیسز کے پھیلنے کی تعداد اور آبادی کے مطابق ان کی شرح بتانی چاہئے،کتنے ٹیسٹ کیے گئے،کتنے لوگ ہسپتالوں میں داخل ہوئے،کتنی اموات ہوئیں اور کتنے لوگوں کو ویکسین لگائی گئی وغیرہ وغیرہ، اور یہ کام روزانہ ہونا چاہئے۔
اس سلسلے میں کائونٹی لیول کا ڈیٹا بھی مفید ہوگا مگر زپ کوڈ کا ڈیٹا زیادہ بہتر ہوگا۔لاس اینجلس کی کائونٹی نے اپنے 70 فیصدسے زائد اہل افرا دکو ویکسین لگوا لی ہے مگر اپنے اعدادو شمارمیں یہ بات چھپا لی کہ بعض علاقوں میں ویکسین لگانے سے متعلق حالات بہت دگر گوں ہیں۔بہت زیادہ مقامی نوعیت کے ڈیٹا سے لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ جہاں وہ رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں‘ وہاں کیا کیا مخصوص رسک موجود ہیں۔نیز یہ کہ انہیں ماسک پہننا کس قدر ضروری ہے۔ ہیلتھ حکام کو وہ ڈیٹا بھی دینا چاہیے جس سے ویکسین کے فوائد کاپتا چل سکے۔اس کے بغیر ماہرین نادانستہ ایسے سگنل بھیج سکتے ہیں کہ ویکسین کے متبادل کے طور پر ماسک کا استعمال کیا جائے۔ ویکسین لگوانے سے نئے کیسز اور ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں کمی کو باقاعدگی سے رپورٹ کیا جانا چاہئے۔ اس سے ماہرین کے لیے یہ بات مانیٹر کرنا بھی ممکن ہو جائے گا کہ ویکسین لگوانے سے شدید بیماری پر قابو پانے میں کس قدر مدد مل رہی ہے۔ ماہرین کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو بھی یہ معلومات فراہم کریں کہ وہ بیماری پر کنٹرول کن کن طریقوں سے کر رہے ہیں مثلاً کتنے لوگوں کو انفیکشن ہوا اور کتنے لوگوں کو ویکسین لگائی گئی وغیرہ۔اور کب یہ فیصلہ ہونا چاہئے کہ اب ماسک پہننے کی ضرورت نہیں رہی۔ایسا کرنے سے یہ بات سمجھنا ا?سان ہو جائے گا کہ اب دوبارہ ماسک پہننے کے لیے کیوں کہا جا رہا ہے اور جو ماسک نہیں پہن رہے انہیں کس حد تک بیماری کا خطرہ درپیش ہے۔
چونکہ ویکسین لگانے سے شدید بیماری کے خلاف ایک پائیدار تحفظ ملتا ہے اور اس کے ساتھ ماسک کا لازمی استعمال کرنے سے ہسپتال میں داخل ہونے والے افراد کی کم تعداد سے ہم اس بات کا تعین بہتر انداز میں کر سکتے ہیں کہ محض کیسز کی تعداد جاننے کے بجائے ہمیں بیماری پر قابو پانے میں کس قدر کامیابی مل رہی ہے۔اس صورتِ حال میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ اب ہر کوئی کووڈ کے بارے میں بہت محتاط ہو چکا ہے۔اس کا علاج ویکسین ہے مگر امریکا نے اپنے عوام کو اس بات کے لیے زیادہ قائل نہیں کیا۔ ہماری قوم گائیڈ لائنز کی پیروی کے بغیر محض پرانے حربے استعمال کرکے کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔عوام پر یہ بات بالکل واضح کر دی جانی چاہئے کہ کس طرح ماسک کی پابندی کرکے کووڈ کے پھیلنے میں کمی کی جا سکتی ہے اور لوگوں کو ویکسین لگوانے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔