میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
روس کی بدلتی ہوئی عالمی حکمت عملی

روس کی بدلتی ہوئی عالمی حکمت عملی

منتظم
اتوار, ۲۳ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ہارلان کے المان
یہ 1970کا واقعہ ہے امریکا پر صدر نکسن کی حکمرانی تھی اور امریکا اتنا کمزور نہیں ہواتھا جتنا اب تصور کیاجاتاہے ، بلکہ صدر نکسن امریکا کی بالادستی پوری دنیا پر قائم کرنے اور پوری دنیا کو امریکا کے ہیبت میں مبتلا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتے تھے،اچانک ایک دن لاﺅس کے اس وقت کے معروف اخبارات نے لاﺅس میں جنگ کے حوالے سے امریکا کا خفیہ منصوبہ بے نقاب کردیا،ظاہر ہے کہ یہ امریکا کے لیے جسے اپنی انٹیلی جنس پر ناز تھا انتہائی سبکی کی بات تھی،لاﺅس میں امریکی سفیر ولیم سلیون اس صورتحال پرانتہائی پریشان تھے،اس پریشانی کے عالم میں امریکی سفیر ولیم سلیون نے امریکا کو پیغام بھیجا کہ اگر اس طرح سے ہمارے منصوبے قبل از وقت آشکارا ہوتے رہے تو پھر لاﺅس میں ہماری خفیہ جنگ خفیہ نہیں رہ سکے گی۔
اِس وقت روس کے صدر ولادیمر پوتن کا حال بھی اُس وقت کے امریکی صدر نکسن جیساہی ہے۔گزشتہ 15 سال کے دوران امریکا کے ساتھ تعلقات اور امریکی رہنماﺅں کے عمل سے روس کے صدر پوتن نے بجا طورپر یہ اندازہ لگالیاہے کہ امریکا اب بھروسے کے قابل نہیں رہا اوراپنے مفادات کی خاطر کسی بھی معاہدے سے روگردانی کرسکتاہے۔
امریکا اور روس کے درمیان بدگمانی کی ابتدا2001 میں جارج بش کے دور میں اینٹی بیلسٹک میزائل معاہدے سے ہوئی جس کے بعد امریکا نے عراق میں مداخلت کی جسے صدر پوتن نے تباہ کن قرار دیاتھا۔اس کے بعد نیٹو کے دائرہ کار میں توسیع اس معاہدے میں دیگر ممالک کو شامل کیاجانا،یورپ میں اینٹی بیلسٹک میزائلوں کی تنصیب اورجارجیا اور یوکرائن کو اٹلانٹک اتحاد میں شامل ہونے پر مجبور کیے جانے جیسی کارروائیوں سے روس کو یہ اندازہ ہوگیاکہ امریکا اس کا گھیراﺅ کررہاہے اوربین الاقوامی سطح پر اسے کمزور اور تنہا کرنے کی پالیسی پر عمل پیراہے۔اس کے بعد 2011 میں لیبیا پر حملے اور وہاں خانہ جنگی شروع کرانے کا عمل تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ثابت ہوا۔
امریکا کی ان کارروائیوں کے ردعمل کے طورپر صدر پوتن نے2014 میں کرائمیا کو روس میں شامل کرنے اور یوکرائن کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس پر امریکا نے روس پرپابندیاں عاید کردیں،امریکا کی جانب سے پابندیاں عاید کیے جانے کے سبب روس کی ڈگمگاتی ہوئی معیشت اور تیل کے حوالے سے دوسروں پر انحصاراور خاص طورپر تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے روس کو شدید جھٹکا لگا۔جس پر صدر پوتن نے ایک عالمی قوت کی حیثیت سے روس کاوقار بحال کرنے کی حکمت عملی تیار کی اور اسی حکمت عملی کے تحت روس نے شام میں امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی حکمت عملی کے خلاف بشارالاسد کی حکومت کی امداد شروع کی اور ان کی حکومت کو عراق ،لیبیا اور یمن کی طرح تباہ ہونے سے بچانے کے لیے شام کی حکومت کومکمل فوجی اور اقتصادی امداد کی فراہمی شروع کردی۔
امریکا کے پالیسی سازوں نے روس کے صدر پوتن کی اس حکمت عملی کے مضمرات کو محسوس کرلیا اور وہ سمجھ گئے کہ روس اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے یورپ میں بھی دخل اندازی کرسکتاہے۔ روس اس وقت مشرق وسطیٰ میں سابق امریکی صدر نکسن کی حکمت عملی پر عمل پیرا نظر آرہاہے اور جس طرح صدر نکسن نے ایران کے شاہ کے دور میں ایک طرف ایران اور دوسری طرف سعودی عرب کو امریکا کا مطیع وفرمانبردار بنارکھاتھا اسی طرح اب روس نے بھی مشرق وسطیٰ میں شیعہ اور سنی دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے گروپوں اور ممالک کو اپنا ساتھ دینے پر مجبور کرنے کی حکمت عملی اختیارکر رکھی ہے اس طرح روس دو مقاصد حاصل کرنا چاہتاہے ایک طرف وہ شیعہ اور سنی دونوں طاقتوں کو امریکا کے خلاف متحد اور منظم کرنے کی حکمت عملی پر کارفرما ہے اور دوسری طرف اس نے یہ بھی اہتمام کررکھا ہے کہ ضرورت محسوس ہونے پر ان دونوں طاقتوں کو آپس میں لڑاکر اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں۔اپنی اس حکمت عملی کے تحت روس نے ایران سے تعلقات اس حد تک اچھے بنالیے ہیں کہ اب روسی طیارے شام میں بمباری کرنے کے لیے ایران کے ہوائی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں اور اپنا کام ختم کرکے وہیں واپس پہنچ جاتے ہیں دوسری طرف شام میں علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کی مدد کرکے روس نے شام کو ایک طرح سے اپنا غلام بنالیاہے۔دوسری طرف ترکی کی جانب سے روسی طیارہ مارگرائے جانے کے واقعے کے بعد تعلقات میں پیداہونے والی تلخی اور بدمزگی کا بھی روسی رہنماﺅں نے بڑی حد تک تدارک کرلیاہے اور اب ترکی کاجھکاﺅ بھی امریکا کے بجائے روس کی جانب ہورہاہے۔
روس کے صدر پوتن کا خیال ہے کہ مغربی ممالک اس وقت نازک صورتحال سے دوچار ہیں، برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد یورپی یونین کامستقبل ڈانواڈول ہے ، یورپی ممالک کی معیشت ڈگمگارہی ہے،اوراسی وجہ سے نیٹو بھی کمزور ہورہی ہے۔جبکہ یورپی ممالک کو دہشت گردوں کاخوف بھی لاحق ہے کیونکہ دہشت گرد اچانک کسی بھی ملک میں تباہی پھیلاسکتے ہیں جبکہ روس ابھی تک دہشت گردوں کاہدف نہیں بناہے۔
دوسری طرف امریکا گزشتہ چند برسوں کے دوران افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں پے درپے فوجی ناکامیوں کے بعد اب فوجی اعتبار سے مفلوج نظر آرہاہے اگرچہ امریکا کے صدر اوباما نے شام میں پیچھے نہ ہٹنے کے عزم کااظہارکیاہے لیکن اب خود امریکا کے فوجی حلقوں میں بھی شام میں امریکا کی بہت زیادہ دلچسپی کے نتائج پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں۔امریکا کی فوجی ناکامیوں کودیکھتے ہوئے صدر اوباما نے اگرچہ بہت پہلے ہی عراق اور افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلانے اورشام کے معاملات میں بھی امریکا کا کردار محدود کرنے کا فیصلہ کرلیاتھا اور اس فیصلے پر عملدرآمد بھی شروع کردیاگیاتھا لیکن امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد عراق اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں داعش کے ظہور اور افغانستان میں طالبان کی واپسی نے فوجوںکی واپسی کا امریکی منصوبہ خاک میں ملادیا اور امریکا ان دونوں ملکوں میں اپنی فوجی موجودگی بڑھانے کے ساتھ ہی شام میں بھی اپنے کردار کو وسعت دینے پر مجبور ہوگیا۔ امریکی صدر اوباما چند ماہ کے اندر ہی رخصت ہونے والے ہیں اوران کے بعد صدر بننے والے کو اپنی ٹیم اور پالیسی ترتیب میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اوریہ چند ماہ کی مہلت روس کے صدر پوتن کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
روس کے صدر پوتن کامقصد انتہائی واضح ہے وہ اقتصادی اور فوجی اعتبار سے روس کی ساکھ کو نہ صرف یہ کہ امریکا کے مقابل (روس نے یہ ساکھ بڑے پیمانے پر بمباری اور فوجی مداخلت کی پالیسی پر عمل کے ذریعے قائم کی ہے) بحال کرناچاہتے ہیں بلکہ اس میں اضافہ بھی کرناچاہتے ہیں۔اس بارے میں دورائے نہیں ہوسکتیں کہ روس کی جانب سے کیلنن گراڈ میں اسکندر میزائلوں کی تنصیب پورے یورپ کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ دوسری طرف عراق میں داعش کے خلاف عراقی افواج کی کامیابیوں اور موصل پر دوبارہ قبضے کے امکانات نے بھی ترکی کوپریشان کررکھاہے کیونکہ ترکی سمجھتاہے کہ عراق میں مضبوط حکومت کے قیام کی صورت میں عراق میں کردوں کی قوت میں بھی اضافہ ہوگا اور ترک کردوں کو امداد فراہم کرکے انھیں ترکی کی موجودہ حکومت کے خلاف استعمال کیاجاسکتاہے یہی وجہ ہے ترکی صدر رجب طیب اردگان نے اس فوجی آپریشن میں مدد دینے سے صاف انکارکردیاتھا۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس صورتحال میںپاکستان اور بھارت کاکردار کیاہوگا؟ یہ بات واضح ہے کہ روس کو جنوبی ایشیا میں ان دونوں ہی ملکوں کی حمایت اور تعاون کی ضرورت ہے اوریہی وجہ ہے کہ امریکا کی جانب بھارت کے حالیہ جھکاﺅ کے بعداس نے پاکستان کی طرف رخ کیاہے اور صدر پوتن کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی ،پاکستان سے ہاتھ ملاتے ہی بھارتی رہنما ڈگمگا گئے اور خود کو روس کا فرمانبردار ثابت کرنے کے لیے روس سے بڑے پیمانے پر اسلحہ کی خریداری کامعاہدہ بھی کرلیا لیکن روسی صدر یہ سمجھ چکے ہیں کہ اس خطے میں امریکی بالادستی کوختم کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنا ضروری ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ بھارتی رہنماﺅں کی جانب سے شکوے شکایت اور روسی اسلحہ کی خریداری جاری رکھنے کے عندیے کے باوجود برکس کانفرنس میں روس نے پاکستان کے خلاف بھارت کی حمایت میں ایک لفظ نہیں کہااور کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کی مخالفت بھی نہیں کی۔تا ہم اب اس بات کاانحصار پاکستانی رہنماﺅں پر ہے کہ وہ امریکا کی مسلسل اور بار بار کی دغابازیوں کے باوجود امریکی دم چھلا بنے رہنے کافیصلہ کرتے ہیں یا جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے امریکی جال سے باہر نکل کر بدلتے ہوئے سیاسی پس منظر میں اپنی حیثیت منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں